عوام الناس کو نویدہو کہ ہمارے وزیراعظم نے رمضان المبارک کے حوالے سے قوم کو بڑی خبر دی ہے کہ اس مرتبہ قیمتیں نہ صرف کم ہوں گی بلکہ اس عمل کی وہ خود نگرانی کریں گے۔ وزیراعظم نے قوم کو یہ خوشخبری دی ہے کہ آئندہ اڑھائی سال یعنی اقتدار کی بقیہ مدت میں عوام کو کارکردگی بھی دکھائی جائے گی۔اس اعلان کے بعد عوام کا ردعمل کچھ اس طرح ہے کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔موجودہ حکومت کے دور میں دو مرتبہ رمضان المبارک آچکا ہے جبکہ چند روز بعد تیسرا رمضان آنے کو ہے۔ حالیہ دو برسوں میں احساس عوام پروگرام کے تحت رمضان المبارک میں گورننس کے جو جوہرعوام دیکھ چکے ہیں اس تناظر میں آنے والے رمضان میں مزید کچھ دیکھنے کی کوئی تمنا ہوگی اور نہ ہی کوئی تاب باقی رہی ہے۔خوشخبری کا اعلان چونکہ وزیراعظم کی طرف سے ہوا ہے تو اسے ہلکا تو نہیں لینا چاہئے اور اس خوش گمانی کے ساتھ آمد رمضان کا انتظار کرناچاہئے۔ عین ممکن ہے کہ رمضان المبارک میں مہنگائی کے جن کی دھمال پر عوام کی چیخ و پکار دیکھ بے اختیار اپنا ہی فقرہ دہرا ڈالیں کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ صورتحال اس قدر خراب اور نازک ہے۔یاد رہے! وزیراعظم ملکی معیشت اور اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے مطلوبہ نتائج فراہم نہ کرنے پربرملا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ انہیں حالات کی نزاکت اور سنگینی اندازہ نہیں تھا۔تاہم عوام تو حکمرانوں کی ایسی توجیہات اور جواز سننے کے نہ صرف عادی ہیں بلکہ اب تو شاید ان بیانوں اور بیانیوں سے بے نیاز ہوتے چلے جارہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس بار بھی گورننس کا گورکھ دھندہ بس زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے۔وہی سنہرے خواب‘وہی دعوے‘وہی وعدے‘وہی خوش کن اعداد و شمارجو ہر دور میں عوام سنتے اور بھگتتے چلے آئے ہیں۔اس تمہید اورسارے تبصرے کا مقصدیہ نہیں کہ میں عوام کو مایوسی سے دوچارکررہا ہوں اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
خدا کرے کہ میرے سارے اندیشے اور وسوسے غلط ثابت ہوں۔ اس رمضان المبارک میں نہ مہنگائی کا جن بوتل سے نکلے اور نہ عوام کی چیخ و پکارسننے اور دیکھنے کو ملے اور حکومت کا احساس عوام پروگرام ‘عوام کے دکھوں اور تکالیف کے ازالے کا باعث بن جائے۔ نہ قیمتوں کا بھڑکتا ہوا الائو عوام کو جھلسائے اور نہ ہی عوام کواشیائے ضروریہ کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑے۔اور عوام بے اختیار سبھی کہہ اٹھیں کہ ہمارے وزیراعظم نے جو کہا وہ کردکھایا۔خوشخبری‘ خوش گمانی یا خوش فہمی تک محدود نہیں رہے۔اب عوام مطمئن اورحکومت سے بھی خوش ہیں اور خوشیوں کا یہ سفر آئندہ اڑھائی سال تک جاری و ساری رہے۔
تعجب اور حیرانی صرف یہ ہے کہ وزیراعظم نے عوام کو اتنی بڑی خوشخبری تو دے ڈالی ہے مگرسوال یہ ہے کہ وہ یہ سب کریں گے کیسے۔ قارئیں میری حالیہ چند سطور کو پڑھ کر یقینا اپنے بچپن میں جانکلے ہوں گے۔ایسی گفتگو توان کہانیوں کا انجام ہوا کرتی تھی جو ہم اپنے بچپن میں پڑھا اور اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا کرتے تھے۔یاددہانی کے لیے مزید عرض کرتاچلوں کہ شاید ہی کوئی ہو جس نے ''ایک تھا راجا‘ ایک تھی رانی‘‘ کی کہانی نہ پڑھی یا سنی ہو اور اس کا اختتام ان الفاظ پر نہ ہوا ہو ''اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘حکمرانوں کے اکثر بیانات دیو مالائی کہانیاں ہی لگتے ہیں۔ تعجب ہے‘نہ کوئی تیاری اور نہ ہی کوئی نیت اور ارادہ۔ تو پھر عوام حقیقی زندگی میں صرف بیانات اور دعووں سے ہنسی خوشی کیسے رہ سکتے ہیں۔
چلچلاتی دھوپ اور 50ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت میں کوئی کیسے گنگھور گھٹائوں ‘ ٹھنڈی ہوائوں اور بارش کا گمان کرسکتا ہے؟ البتہ مفروضوں اور خوش گمانیوں کے جتنے مرضی محل تعمیر کرلیں۔ہر طرف تو مایوسی‘ بددلی اور بے یقینی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ان مایوسیوں اور بدحالیوں نے عوام کو ایسے حالات سے دوچار کر ڈالا ہے کہ کوئی ریزہ ریزہ ٹوٹتا ہے تو کوئی دھڑام سے گرپڑتا ہے۔کوئی قطرہ قطرہ مرتا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ سسکتا ہے۔عوام کو رونا دھونا ہر گز نیا نہیں ہے۔روز ِاول سے لمحہ موجود تک یہ عوام انہی حالات سے دوچار اور لاچار ہے۔حکمران ماضی کے ہوں یا دورحاضر کے۔یوں محسوس ہوتا ہے سبھی کے درمیان عوام کو بدترین حالات سے دوچار کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔اس مقابلے میں منصب کا لحاظ نہ آئین کی پاسداری۔ قانون کی حکمرانی نہ سماجی اور اخلاقی قدروں کا پاس۔احساسِ ذمہ داری ‘تحمل اور رواداری تو کسی کو چھوکربھی نہیں گزری۔
کیسے کیسے حکمران عوام کا نصیب بن کر ان کی بدنصیبی میں اضافہ کرتے چلے آئے ہیں۔جن حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور کارکردگی نامعلوم ہو وہ سبھی نجانے کتنی دہائیوں سے اپنی باریاں لگائے چلے جا رہے ہیں۔ سالہا سال گزر گئے‘ برس ہا برس بیت گئے‘کتنے ہی حکمران بدل گئے‘لیکن عوام کے نصیب نہ بدلے۔ان کے مسائل اور مصائب آج بھی جوں کے توں ہیں۔ان سبھی حالات کے باجود حکمرانوںکی خوشخبریوں کو ہلکا نہیں لینا چاہئے اور مضان المبارک کی آمد تک پوری قوم خوش گمانی کی چادر تان کر لمبی نیند سوسکتی ہے۔محض اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی قوم سے یہ گلا لاحق نہ ہوجائے کہ چند روز کی تو بات تھی میری بات پہ یقین تو کیا ہوتا۔اس لیے چند روز تک رمضان کی آمد آمد ہے۔سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا
ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دو نوں رمضان المبارک میں خودساختہ مہنگائی اوربلیک مارکیٹنگ کے نتیجے میں عوام کی ہاہاکار کے ساتھ ساتھ سستے رمضان بازاروں کی آڑ میں سرکاری بابوئوں اور سماج سیوک نیتائوں نے نہ صرف اس بابرکت مہینہ میں اپنی دنیا سنواری ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو ان چیمپئنز نے سابقہ ادوار کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔ادھر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع اُدھر ملک بھر میں ایک مقابلے کا سماں دکھائی دینے لگے گا۔یہ واحد مقابلہ ہے جس میں عوام اور سرکار برابر کے شریک ہوتے ہیں۔انتظامی افسران اس بابرکت مہینے کو غنیمت سمجھتے ہوئے نہ صرف بہتی گنگا میں خود ہاتھ دھوتے ہیں بلکہ اکثر تو ڈبکیاں لگاکر بھی خشک اور دودھ کے دھلے بنے پھرتے ہیں۔ مال بنانے کی اس دوڑ میں ریڑھی بان سے لے کر دکان دار تک‘ دکان دار سے لے کر آڑھتی تک‘آڑھتی سے لے کر کارخانہ دار تک سبھی نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ اکثر کاروبار تو ایسے ہیں کہ اس ایک مہینہ کی کمائی پورے سال پر بھاری ٹھہرتی ہے اور یہ منظر نامہ پورا مہینہ اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ حکام اور عوام کے مابین گھمسان کا رن پڑا ہو جیسے۔دلچسپ اور اہم بات یہ کہ آخری عشرے میں یہ مقابلہ تیز ہوجاتا ہے۔
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ رمضان کی آمد میں ابھی چند روز باقی ہیں لیکن ہوسِ زر کے ماروں نے اپنی انتظامات پورے کرلیے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک‘خود ساختہ مہنگائی سے لے کر ہر طریقہ سے مال بنانے والوں نے بھی حکومتی انتظامات اوراعلانات کو دیکھ اور سن کر اپنے مورچے سنبھال لیے ہیں۔یہ سارے بندوبست اسی مشینری کی ایما اور اشیرباد سے کیے جاتے ہیں جس پر حکومت انحصار کیے بیٹھی ہے کہ رمضان المبارک میں اس مشینری کے ذریعے اشیائے ضروریہ سستی کروا سکتی ہے۔آج نہیں تو کل یہ معمہ ضرور حل ہو جائے کہ حکومت یا افسر شاہی اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔