بددیانتی صرف مالی ہی نہیں انتظامی بھی ہوتی ہے اور انتظامی بد دیانتی کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ قوم ماضی کے حکمرانوں کی مالی اور انتظامی بد اعمالیوں کے خمیازے بھگتتے بھگتتے پہلے کیا کم ہلکان تھی کہ لٹنے اور مٹنے کا یہ سلسلہ کئی اضافوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ ایسے ایسے واقعات اور ایسی ایسی واردات کہ اعصاب شل اور حواس گم ہوجائیں۔ کہیں نیتِ بد بال کھولے سو رہی ہے تو کہیں اعمالِ بد پائوں پسارے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف خوف کے سائے اور بے یقینی ڈیرے ہیں۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ کہیں احتساب کے نام پر اپنے اپنے عزائم اور ایجنڈے ہیں تو کہیں گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہے۔ سربراہ حکومت سے لے کر مشیروں اور وزیروں سمیت سرکاری بابوئوں تک زبانی جمع خرچ کے ساتھ بس الفاظ کا گورکھ دھندہ جاری ہے۔ ایسے پریشان کن حالات ہیں کہ الفاظ کے قحط کا سامنا ہے۔ سب کچھ جاننے اور معلوم ہونے کے باوجود اظہار محال ہے۔
حکمران کوئی مسیحا اور اس کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کر دے۔ اس کی خصوصیت بس مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ ویژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔ مُردوں کو بھلے زندہ نہ کرسکے‘ لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے‘ مگر بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ہمارے حکمران‘ ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے بلکہ ان خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کُل نہیں۔ جہاں حکمران عوام کے جذبات کو سمجھنے سے عاری اور زمینی حقائق تسلیم کرنے سے انکاری ہوں وہاں ایسے افسوسناک پرتشدد واقعات کا آئے روز رونما ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
مخلوق کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے اور یہ اعزاز قدرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ ربِّ کائنات یہ اعزاز انہی بندوں کو عطا کرتا ہے جنہیں وہ اس کام کیلئے منتخب کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے‘ وہاں اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کو بھی قدرت نے گورننس کے یکے بعد دیگرے کئی مواقع عطا کیے۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں ہوتی اور خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دینے پر آمادہ ہے‘ اور اس مہلت کو غنیمت اور نعمت سمجھ کر اپنے طرزِ حکمرانی اور معاملات پر نظرِثانی کرتے رہنا چاہیے۔ کہیں کوئی بھول چوک یا خطا سرزد تو نہیں ہوگئی؟ جس مقصد کیلئے انہیں قدرت نے منتخب کیا ہے‘ وہ مقصد کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب رہے؟
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے ہی منسوب کر ڈالا‘ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی اداکاری کا چمتکار ہے‘ حالانکہ گورننس کی عطا نہ تو کسی کی مہارت ہے اور نہ ہی کسی کی اہلیت۔ یہ تو بس قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ وہ جس کو بھی عطا کرے۔ خطا در خطا کے باوجود مہلت کا میسر رہنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ہمارے سبھی حکمرانوں کو یہ عطا اور مسلسل مہلت کثرت سے میسر آتی رہی ہے۔ جوں جوں یہ مواقع انہیں میسر آتے رہے‘ توں توں یہ بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کبھی جُھرلو تو کبھی دھاندلی۔ کبھی ڈنڈی تو کبھی ڈنڈا۔ کبھی صفائی تو کبھی صفایا‘ حتیٰ کہ بیلٹ کو بُلٹ سے منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ حصولِ اقتدار سے لے کرطولِ اقتدار تک‘ یہ سبھی نظارے چشمِ فلک نے کثرت سے دیکھے ہیں۔
رمضان المبارک میں ہمیشہ کی طرح اشیائے خورونوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کو احساس رمضان سے منسوب کرنا زیادتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے رمضان کی آمد کے موقع پر قوم کو خوشخبری دی تھی کہ اس بارمہنگائی نہیں ہوگی اور وہ اس کی نگرانی خود کریں گے‘ لیکن کورونا کے حالات سے پریشان عوام کو کہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو کہیں روٹیوں کے۔ ایسے میں حکمرانوں کے نمائشی بیانات سن کر کبھی قہقہے لگانے کو دل کرتا ہے تو کبھی اپنے ہی بال نوچنے کو۔ تھانہ‘ پٹوار اورہسپتال سے لے کر طرزِ حکمرانی کے دیگر پہلوئوں تک ہرطرف دھتکار اور پھٹکار کا دوردورہ ہے۔ شہری سہولیات اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں بھی عوام کی پریشانی کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ چینی کی لمبی قطاروں میں کھڑے مرد و زن کے انگوٹھے پر سیاہی کا نشان لگا کر ایک کلو چینی دے کر اس نشان کا بدلہ لیاجا رہا ہے جو ووٹ ڈالتے وقت انتخابی عملے نے ان کے انگوٹھے پر لگایا تھا۔ گویا عوام کے نصیب میں یہ لمبی قطاریں اور سیاہی انتخابات سے پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے بلکہ یہ بھی بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انگوٹھے پر لگی یہ سیاہی عوام کی قسمت پر ملی جاچکی ہے۔ طرزِ حکمرانی کے دیگر مناظر بھی اسی طرح افسوسناک اور دردناک ہیں۔
حادثات اور سانحات میں فرق ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سانحات کے خود اسباب پیدا کرکے اسے حادثہ قرار دینے کا رواج پرانا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور بھی پریشان ہیں کہ اس شہرِ بے مثال کو کس کی نظر لگ گئی۔ ادبی‘ ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کا مرکز‘ جو فراخ دلی کی علامت سمجھا جاتا تھا ‘جہاں اختلاف رائے سے لے کر آدمیت تک سبھی کا احترام برابر رکھا جاتا تھا‘ یہ شہر کئی سالوں سے اکھاڑا بنتا چلا جارہا ہے۔ ناموس رسالتﷺ کے معاملہ پر جذباتی اور سراپا احتجاج ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے حالات میں تمام دینی جماعتوں سمیت پارلیمنٹ کو بھی ضرور اعتماد میں لینا چاہئے تاکہ اس تاثر کو تقویت دی جا سکے کہ اس حوالے سے ہم سب ایک ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی گروہ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش اختیار کر کے سیاست یا منافرت کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف ریاست کو ضرور حرکت میں آنا چاہیے‘ تاہم گزشتہ دنوں شہر کی المناک صورتحال کا ذمہ دار بجا طور پر نا تجربہ کاری اور ناقص منصوبہ کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کے جان و مال اور قومی املاک کی تباہی کے دوران نہ کہیں وزیر اعلیٰ کی موجودگی نظر آئی اور نہ ہی کسی وزیر اور مشیر کی آواز نکلی۔ سب دم سادھے نظر آتے تھے جبکہ وزیر اور مشیرمرتا کیا نہ کرتا کے مصداق شاہ کی وفاداری میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر انہی کی توجیہات اور وضاحتیں پیش کرتے نظر آتے رہے۔ اس دوران ایک انتہائی اہم اور تکنیکی پہلو بھی مزید شدت سے سامنے آیا ہے کہ پرویز مشرف نے نیا ضلعی نظام متعارف کرواتے ہوئے ایگزیکٹو مجسٹریسی کا خاتمہ کرکے انتظامی رٹ کی کمر توڑ دی تھی۔ اس دوران سبھی بلووں اور مظاہروں میں ہونے والی تباہی اور بربادی میں ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہی بلکہ مظاہرین سے مذاکرات اور اعلیٰ حکام تک پیغام رسانی کے لیے بھی مؤثر ذرائع کا فقدان رہا۔ ماضی میں ایگزیکٹو مجسٹریسی مظاہرین کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اشتعال انگیزی کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ کارآمد رہی؛ تاہم شریف برادران نے برسر اقتدار آ کر پرویز مشرف کے ضلعی نظام سے بدلہ لینے کے لئے ڈی سی کا آفس تو بحال کر دیا لیکن ایگزیکٹو مجسٹریسی کو بحال کرنے سے فرار ہی اختیار کیے رکھا جبکہ پرائس کنٹرول سے لے کر ذخیرہ اندوزی کے خاتمے اور امن و امان کو قائم رکھنے تک میں یہ ادارہ فعال اور مفید رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے عناد اور بغض ہو یا ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی سے انکار‘ موجودہ حکومت ان سبھی معاملات میں مسلم لیگ (ن) کے مائنڈ سیٹ کی نہ صرف پیروکار نظر آتی ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو ان کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔