وطن ِعزیز کا سیاسی منظر نامہ ہو یا ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اچھل کود ‘سبھی کو دیکھ کر مشہورِ زمانہ ٹی وی سیریل ''ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ یاد آجاتا ہے۔ جس طرح اکثر ساسیں دانستہ فراموش کربیٹھتی ہیں کہ وہ بھی کبھی بہو رہ چکی ہیں عین اسی طرح ہمارے حکمران بھی قطعی یاد نہیں رکھتے کہ وہ بھی کبھی اپوزیشن میں رہ چکے ہیں اورحکومتِ وقت کے جن اقدامات اور طرزِ حکمرانی پر تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے برسر اقتدار آکر اُسی طرزِ حکمرانی اور ویسے ہی غیر مقبول فیصلوں کے ریکارڈ توڑتے ہیں ۔اپوزیشن میں رہ کر بھلے کچھ بھی کہہ ڈالیں جتنے مرضی الزامات لگا کر انقلابی تقاریر سے عوام کا لہو گرماتے رہیں لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انہیں اپنے ماضی کے بیانیوں سے پیچھا چھڑانا ہی پڑتا ہے کیونکہ وطن عزیز پر حکمرانی کسی کی بھی ہو‘مینڈیٹ بھاری ہو یا ہلکا ‘سبھی اسی ایجنڈے اور روڈ میپ پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ہر دور میں اور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔
وطنِ عزیز میں اقتدار نہ کبھی نواز شریف کا رہا ہے اور نہ ہی کبھی بے نظیر‘ پرویز مشرف اور زرداری کا۔ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلو کہ اقتدار میں تو موجودہ حکمران بھی نہیں ہیں‘یہ سبھی تو وہ چہرے ہیں جو حالات اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوکر آتے جاتے رہتے ہیں ‘اگر ان میں سے کوئی حقیقی حکمران ہوتا تو وطن ِعزیز پر شوقِ حکمرانی اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے معین قریشی یا شوکت عزیز ایسے درآمد شدہ چیمپئنز کی کوئی گنجائش اور جواز نہ تھا۔اپوزیشن میں رہ کر عوام کے درد میں گھلنے والے رہنما ان سبھی درآمدی کرداروں کے لتے لینے کے ساتھ ساتھ انہیں معیشت کی بربادی اور عوام کی بدحالی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن برسراقتدار آتے ہی انہیں نہ صرف شریکِ اقتدار کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی قابلیت اور مہارت کے ڈنکے بھی خود ہی بجاتے ہیں‘گویا کسی بھی دور میں کسی حکمران کی ٹیم میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں تھا جو اِن میں سے کسی ایک کا متبادل ہوسکتا۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر ‘پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری‘سبھی کی حکومتیں درآمدی چیمپئنز کو شریکِ اقتدار کرنے پر مجبور ہی نظر آئیں۔
تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے سے پہلے ان سبھی کرداروں کو نہ صرف ہدفِ تنقید بنائے رکھا بلکہ ان کے ایجنڈوں کو معیشت اور اقتصادی اصلاحات کے لیے زہر قاتل بھی گردانتے رہے۔عمران خان صاحب تو اس حد تک نالاںاورمتنفر تھے کہ طویل ترین دھرنوں سے خطاب ہو یا انتخابی جلسوں سے ‘سبھی مواقع پر برملا کہتے تھے کہ ان درآمدی ماہرین کو قبول کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا۔اس موقع پر خوشخبری بھی قوم کو سنائی جاتی رہی کہ ماہرین کی ایسی ٹیم ہوم ورک میں مصروف ہے جو معیشت کی بحالی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ بس برسر اقتدار آتے ہی عوام کے دن پھر جائیں گے‘ خوشحالی کا دور دورہ ہوگا‘ روز گار کے مواقع دستیاب ہوں گے۔ صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا اور ترقی کاپہیہ چلنا شروع ہو جائے گا۔ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی عوام پر بوجھ نہیں ہوگی اور نہ ہی راتوں رات بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالاجائے گا۔بے گھروں کو چھت ملے گی‘نئے کارخانوں کاجال بچھایا جائے گا۔ درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور برآمدات کو فروغ دیا جائے گا۔دووقت کی روٹی پوری کرنا عام آدمی کے لیے آسان ہوگا۔عوام ان دلفریب دعووں کو مان کر انہیں مینڈیٹ دے بیٹھے‘ مگربرسر اقتدار آنے کے بعد یہ کھلا کہ نہ ماہرین کی کوئی ٹیم تھی اور نہ کہیں کوئی ہوم ورک ہو رہا تھا۔ یہ سبھی دعوے اور وعدے نہ صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ثابت ہوئے بلکہ حکومت وقت کے قد سے بڑے نکلے اور اقتدار کے ابتدائی چند اوورز میں اقتصادی چیمپئن اسد عمرآؤٹ ہوکر پویلین میں لوٹ گئے۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا ''وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھا سو اب بھی ہے‘‘۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے‘ مملکتِ خداداد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظرنامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ان درآمدی چیمپئنز کی اولین ترجیح تو ان احکامات کی پاسداری ہے جو یہ آئی ایم ایف سے لے کر آتے ہیں۔ یہ احکامات کوئی نئے نہیں ہیں‘ یہ ہمیشہ سے ہی آتے رہے ہیں اور ان احکامات پر عملداری کے لیے وہ اپنے ٹرینڈ بندے بھی بھجواتے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کے حکمران اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ‘ صرف اشاروں پر حکم بجا لاتے تھے جبکہ موجودہ حکومت نے تنقید سے تائید تک کا یہ سفرطے کرنے میں کچھ وقت ضرور لگایا ہے لیکن تابعداری برابر اسی طرح کی جارہی ہے جیسے ماضی کے حکمران کیا کرتے تھے ‘ حالانکہ اس تابعداری پر خان صاحب کبھی ٹاک شوز میں تو کبھی کنٹینر پر کھڑے ہوکر ماضی کے حکمرانوں کی غیرتِ قومی کو جگایا کرتے تھے تو کبھی اپنی شعلہ بیانی سے عوام کا خون گرمایا کرتے تھے ۔ تحریک انصاف اقتدار کی نصف مدت تو پوری کر چکی ہے بقیہ مدت بھی مٹھی میں ریت کی مانند سرکتی جارہی ہے‘ ایسے میںاقتدار کی باقی ماندہ مدت میں مزید وعدہ خلافیوں کے ایڈونچرز شوق سے پورے کئے جاسکتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مملکتِ خداداد پر ہمیشہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کی حکومت رہی ہے۔ دورِ حکومت کسی کا ہو‘ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک‘ قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ کم و بیش وہی چہرے ہر دور میں بر سر اقتدارچلے آئے ہیں۔ یہ سبھی چہرے ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود انہی ادوار کے طرزِ حکمرانی پر بے حسی کے ساتھ تنقید کے تیر بھی برساتے پھرتے ہیں۔سیاسی سرکس میں بازیگروں کی باریاں ہر دور میں عوام کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتی رہی ہیں۔ خدا جانے یہ کڑا امتحان کب ختم ہوگا؟ ختم ہوگا بھی یا نہیں؟ اس کا جواب تلاش کرتے کرتے عوام بھی مایوسیوں کے اندھیروں میں گم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں میجر رشید وڑائچ کے وہ پوسٹر بے اختیار یاد آتے ہیں جو انہوں نے 90ء کی دہائی میں حکمرانوں کے طرزِ عمل اور عوام کی حالتِ زار کے پیش نظر شہر بھر کی دیواروں پہ لگوا ڈالے تھے۔ ان پوسٹرز پر مسیحاؤں سے کی جانے والی اپیل جلی حروف میں کچھ یوں ہوتی تھی کہ' مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘۔ آج بھی عوام کی حالتِ زار جوں کی توں ہے اور ذمہ دار چہرے بھی اسی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔چلتے چلتے ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ ہمارے سیاسی رہنما اپوزیشن میں ہوں تو ''بہو ‘‘اور برسراقتدار آتے ہی ''ساس‘‘ بن جاتے ہیں‘ جس طرح ساس بہو سے نارواسلوک کرتے وقت یہ بھول جاتی ہے کہ وہ بھی کبھی بہو رہ چکی ہے اسی طرح ہمارے حکمران بھی یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ وہ بھی کبھی اپوزیشن میں بیٹھ کر اسی طرح تنقید کے تیر چلایا کرتے تھے اور جس طرز ِحکمران کو ہدف تنقید بناتے تھے آج اُسی طرزِ حکمرانی کی بدترین شکل کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔