بظاہر لگتا یہی ہے کہ اس مرتبہ حکومت میاں شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی بھی روک نہیں پائے گی؛ تاہم ممکن ہے فیس سیونگ کے لیے کچھ کارروائی اور نمائشی گورننس کے نمونے نظر آتے رہیں۔کبھی قانون حرکت میں نظر آئے تو کبھی خاموش اور ساکت۔کبھی احتساب اولین ترجیح دکھائی دے تو کبھی مصلحتیں اور مجبوریاں رقص کرتی نظر آئیں۔ ملکی وسائل کو لوٹنے والے ہوں یا قوم کی دولت پر کنبہ پروری اور اقربا پروری کرنے والے اور اقتدار میں آکر ذاتی کاروبار کو بڑھاوا دینے والے ہوں یا سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرکے ٹیکس چوری اور دیگر مراعات حاصل کرنے والے‘ ان سبھی کے نہ کبھی ہاتھ کانپے ہیں نہ کبھی قدم ڈگمگائے ہیں۔نہ ان کی سانسیں بے ترتیب ہوتی ہیں نہ ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے۔ یہ سبھی وارداتیں کرنے والے جونہی اقتدار سے علیحدہ ہوکر مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آتے ہیں ان کا دل اور نبض‘ دونوں ڈوبنے لگتے ہیں ‘ہاتھوں پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے ‘قدم ساتھ چھوڑ جاتے ہیں‘ سبھی بیماریاں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں گویا ان سے زیادہ بیمار ہی کوئی نہیں اور پھر طبی بنیادوں پر ضمانت حاصل کرنے کے لیے کیسی کیسی توجیہات اور جواز گھڑے جاتے ہیں ‘مگرریلیف ملتے ہی ان کی بگڑی ہوئی صحت اور حالت اچانک بدل جاتی ہے۔ سوٹڈ بوٹڈ ‘ ہشاش بشاش نظرآنے والے ملاقاتوں اور ضمانت کی صورت میں ملنے والے ریلیف کو انصاف کی فتح سے منسوب کرنے کے کیسے کیسے حیلے تراشتے ہیں۔
نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل ان کی بیماری کو لے کرسیاسی منظر نامہ بحرانی صورت کا سماں پیش کرتا تھا۔ حکومت کے ڈاکٹرز‘ لیبارٹریاں اور نواز شریف کی صحت کی اپڈیٹ دینے والے حکومتی چیمپئنزکس طرح صبح شام بتایا کرتے تھے کہ نواز شریف کے پلیٹ لٹس گرنے کی رفتار کیا ہے۔ صوبائی وزرا نوازشریف کی بگڑتی ہوئی حالت پر تشویش کا شکار تھے۔ وزیراعظم کے قریبی اور معتمد خاص بھی ذاتی طور پر ہسپتال جا کر نواز شریف کی بیماری کی نہ صرف تصدیق کرتے رہے بلکہ وزیراعظم کو بھی یہی رپورٹ پیش کی کہ ان کی حالت تشویشاک ہے۔ تب کہیں جاکر نواز شریف کوضمانت اور برطانیہ جانے کی اجازت ملی۔ نوازشریف کی روانگی کے وقت وزیراعظم صاحب نے اپنی رحمدلی اور خدا ترسی کا پرچار بھی خوب کیا اور چند دن گزرتے ہی نواز شریف کی بیماری کو ڈرامہ قرار دینے کیلئے وزیراعظم سمیت کیا وزیرکیا مشیر سبھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے دکھائی دینے لگے۔ اسی طرح آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی بھی ضمانتوں پر ریلیف پاچکے ہیں۔ شہباز شریف کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے حلیف اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ ان کی گوٹی فٹ ہوچکی ہے‘ اسی لیے احتسابی کارروائیوں کے باوجود انہیں سخت حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح شریف برادران کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھیوں اور سرکاری افسران کی ضمانتیں بھی ہوچکی ہیں۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ قید و بند کا رگڑا کھانے کے بعد آزاد فضائوں میں گھوم رہے ہیں۔
شریف برادران اور زرداری ضمانتوں پر اترائے پھرتے ہیں لیکن بیچارے عوام نے تو کچھ بھی نہیں کیاوہ پھر بھی اپنے نا کردہ جرم سے ضمانت پر رہائی کے طلبگار ہیں۔ وہ اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں عوام کوجکڑے ہوئے ہے۔ کوئی روٹی کے ہاتھوں تو کوئی علاج معالجہ کے ہاتھوں‘کوئی عزتِ نفس کے ہاتھوں تو کوئی سماجی انصاف کے ہاتھوں گروی پڑا نظر آتا ہے۔
عوام آخر کب تک محصور اور حالات کے یرغمال رہیں گے؟ یہ اب رہائی مانگتے ہیں۔ یہ بھی جینے کا حق اور دو وقت پیٹ بھر روٹی کے طلبگار ہیں۔ یہ بھی علاج معالجہ کا وہی بنیادی حق رکھتے ہیں جن کے حقدار اشرافیہ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ معصوم اور کم سن بچے ننھے منے ہاتھوں میں وائپر پکڑے سڑکوں اور چوراہوں پر گاڑیوں کے شیشے چمکانے کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ اس کے عوض جو کچھ انہیں ملتا ہے اس سے گھر کا چولہا تو نہیں البتہ دل اور خون ضرورجلتا ہے۔ حکومت کے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بھی انہیں پناہ دینے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ پناہ گاہیں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں بلکہ ان کے ملازمین حکومت پنجاب سے اپنی تنخواہیں اور واجبات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا پناہ گاہیں بھی پناہ مانگتی پھرتی ہیں۔ایسے میں سڑکوں پر کھلے آسمان تلے رل کر پلنے والے ان معصوموں کو پناہ گاہ کیسے میسر آسکتی ہے؟
تھانہ‘پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوانِ اقتدارتک کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ بے حسی‘ ڈھٹائی اور ذلت کے سارے مناظر روز اول سے لمحہ موجود تک جوں کے توں جاری ہیں۔ جیلوں میں اسیر نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس‘ ٹی بی اور سرطان جیسے مہلک امراض لیے اپنی اسیری کے دن پورے کررہے ہیں۔ ان کے لیے ادویات اور علاج معالجہ تو درکنار صاف پانی اور محفوظ خوراک تک میسر نہیں۔ وہ بھی ان جان لیوا بیماریوں سے پناہ مانگتے ہیں‘وہ بھی جینا چاہتے ہیں۔کیا انہیں بھی کوئی ریلیف‘ کوئی اذن مل سکتا ہے جس پر وہ رہائی پاکر یا دورانِ اسیری علاج کروا سکیں؟ہرگز نہیں‘انہیں یہ ریلیف اس لیے نہیں مل سکتا کہ ان کا تعلق اشرافیہ سے نہیں بلکہ عوام سے ہے۔ملک بھر میں کورونا ایس او پیز کاڈھول بجانے والی حکومت جیلوں میں گنجائش سے زیادہ اسیروں کو کورونا سے کیسے بچا پائے گی؟ یا انہیں اسی گلے سڑے نظام کا اسیر رہنا ہوگا۔
22سال سماجی انصاف‘ احتساب‘ گورننس اور میرٹ کاڈھول پیٹنے والوں پر جب وقتِ عمل آیا اور انہیں ربِ کائنات نے گورننس عطا کی تو انہوں نے رب کی اس عطا کوعوام کی خطا تصور کرلیا۔ وہ خطا جو عوام نے انہیں مینڈیٹ دے کر کی تھی۔ گورننس کے نام پر مملکت خداداد اور اس کی مخلوق کا جو حال یہ کرچکے ہیں‘ اس سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔ رمضان المبارک میں حاصل ہونے والی اس مملکت خداداد میں ماہ صیام کے آخری چند گھنٹے باقی ہیں۔ ان لمحات میں بس ایک ہی آسرا ہے۔ اے رب کائنات! عادل بھی تو ہے اور بلاتاخیر عدل بھی تو تجھ سے ہی منسوب ہے۔تیری اس صفت کا اطلاق وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ یہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا کرتے چلے جارہے ہیں۔ ذلت کے کتنے دور ابھی باقی ہیں؟
میرے مالک!یہ تو ہی بہتر جانتا ہے
ان کی نیت بد سے شروع ہونے والا کاربد
کہاں ختم ہوگا...کب ختم ہوگا؟
کیا عوام کو اس طرز ِحکمرانی
اس گلے سڑے اورفرسودہ نظام سے
کبھی نجات مل بھی پائے گی؟
کیا عوام کو بھی ان حکمرانوں سے رہائی مل سکے گی؟
کیا یہ عوام بھی کبھی ضمانت حاصل کر پائیں گے؟
اے رب کعبہ!
تجھے شاہ مدینہ کا واسطہ
تجھے اپنی کریمی کا واسطہ
تجھے اپنی ان تمام صفات کا واسطہ
جو تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں
عوام کی سیاہ بختی کو خوش بختی میں بدل دے
تیرے خزانے میں کیا کمی ہے؟
حکمرانوں سے ضمانت کے طلبگار عوام کی حالت زار کی بھرپور عکاسی کیلئے برادرم شعیب بن عزیز کا یہ شعر حسب حال ہے۔
خبر ہم کو بھی تھی مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے