خدا جانے جمہوریت بہترین انتقام ہے یاہمارے سیاستدان جمہوریت سے کوئی انتقام لے رہے ہیں۔قومی اسمبلی کا اکھاڑا ہی دراصل ہمارا اصلی سیاسی چہرہ ہے۔عوام کا ناطقہ بند کرنے والوں میں سے سات ارکان کا ایوان میں داخلہ بند کرکے جزا اور سزا کاعظیم نمونہ سامنے آیا ہے۔یہ اکھاڑے نجانے کب سے لگتے چلے آرہے ہیں۔ نیتائوں کے دنگل میں پچھاڑے صرف عوام ہی جاتے ہیں۔ایم این اے اکرم چیمہ کی تصویربھی اخبارات کی زینت بنی ہے جنہیں ایوان میں بوتل ماری گئی۔ ماضی میں ایوان کے اس اکھاڑے میںایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے گالیوں‘ لاتوں‘ گھونسوں اور بجٹ کی کاپیوں کا آزادانہ استعمال ہوتا چلا آیا تھااس بار بوتل کا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ بڑھکوں اور للکاروں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ کیا کیا ہو سکتا ہے۔ یار لوگ تو یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ایوان میں اسلحہ لے جانے کی ممانعت نہ ہوتی تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔
اے پروردگار! اے خالق ومالک ! یہ کیا تماشا ہے؟ اس ملک میں بسنے والوں نے ابھی اور کیا کچھ دیکھنا ہے؟نسل در نسل رُلتے یہ بندے کہاں جائیں‘کہاں جاکر سر پھوڑیں‘ کس کے آگے دہائی دیں‘ کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں؟ ان پر کیسے کیسے حکمران مسلط ہوئے‘ ووٹ کے لیے منتیں اور ترلے کرنے والے ان کے سماج سیوک نیتا اسمبلیوں میں جاکر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں۔ ان کے تو بہروپ ہی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ ایک چہرے پہ کتنے چہرے سجائے کس بے حسی سے ہر دور میں اللہ کی مخلوق کو کھلا دھوکہ دیتے چلے آرہے ہیں۔ عوام کے نصیب کی سیاہی آخر کب ختم ہوگی؟ بابائے قوم کی روح بھی ملک میں اس تماشے کو دیکھ کر مسلسل بے چین ہوتی ہوگی۔ پون صدی ہونے کو آئی مگر بدقسمتی سے کوئی ایک مائی کا لعل نصیب نہیں ہو سکا جو بابائے قوم کی خاکِ پاکے برابر ہو۔ ایوانوں سے لے کر سرکاری دفاتر تک میں بابائے قوم کی آویزاں تصویر تلے حکمران ہوں یا افسر شاہی کے بابو‘ سبھی ان کے ویژن‘ ان کی تعلیمات‘ ان کے فرمودات اور طرزِ حکمرانی کے وہ سبھی سنہری اصول دھول کی طرح اُڑائے چلے جا رہے ہیں‘ جن پر عمل کرنے کی تلقین وہ کر کے گئے تھے۔
ابھی تو صرف بجٹ کی کاپیاں اور گریبان ہی پھاڑے گئے ہیں‘آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ روزِ اول سے لمحہ ٔموجود تک ملک میں لگے سیاسی سرکس بھی وہی ہیں اور ایوانوں میں لگے اکھاڑے بھی وہی ۔سب سے بڑھ کر کم و بیش سبھی کردار بھی وہی ہیں۔ صرف ان کی پارٹیاں‘ نشستیں اور بینک بدلتے ہیں‘ یہ سبھی کردار وفاداریوں کی تبدیلی کے ساتھ کبھی حزبِ اقتدار کا حصہ ہوتے ہیں تو کبھی حزبِ اختلاف کا۔ جہاں عوام کے نمائندے ہی ان کے جذبات اور مسائل سمجھنے سے انکاری ہوجائیںتو وہاں ایسے پرتشدد واقعات حیرت کی بات نہیں۔ اپنی اپنی انائوں اور خطائوں میں گم یہ ارکانِ اسمبلی صرف ذاتی مفادات اور ایک دوسرے پر برتری کے لیے صف آرا اور گتھم گتھا ہوتے ہیں۔نہ انہیں عوام کے دکھوں سے کوئی سروکار ہے نہ ہی عوام کی حالت ِزار سے۔
حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک یہ سماج سیوک نیتا کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ بھلے گراوٹ کے کتنے ہی ریکارڈ کیوں نہ توڑنے پڑیں‘ وہ بے دریغ توڑے چلے جاتے ہیں۔ اخبارات کا ڈھیر سامنے پڑا منہ چڑا رہا ہے کہ ہماری سرخیاں بھی وہی ہیں اور شہ سرخیاں بھی وہی‘ سماج سیوک نیتاؤں کے بیانات بھی وہی ہیں اور بلندبانگ دعوے بھی وہی‘ خبریں بھی وہی ہیں‘ تحریروں میں گورننس اور عوام کی حالتِ زار کا ماتم بھی وہی‘چہروں اور کردار کی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی وہ سب کچھ ا سی طرح شائع ہو رہا ہے جو کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہاہے‘ صرف نام بدلتے ہیں یا مقام بدلتے ہیں‘ کبھی برسرِ اقتدار ہوتے ہیں تو کبھی اپوزیشن میں بیٹھ کر شعلہ بیانیاں کر کے عوام کے درد میں نڈھال ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ غرض یہ کہ بدلتے چہرے ہوں یا بدلتے کردار‘ یہ حزبِ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں‘ ان کی نیت کے اثرات سے عوام کسی دور میں محفوظ نہیں رہے۔
جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والے ہوں یا جمہوریت کے نام پر عوام سے انتقام لینے والے ‘سبھی کے بھید کھل چکے ہیں۔ ان کے طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں عوام کی گرتی اور بگڑتی حالت کے پیش نظر یہ سوال ہر دن تقویت اختیار کرتا چلاجارہا ہے کہ یہ ملک و قوم ایسے بے مقصد اجلاسوں کا بوجھ کب تک اٹھا پائیں گے۔ عوام کوکھربوں میں پڑنے والے عوامی نمائندے جواباً عوام کو کیا لوٹا رہے ہیں؟ سوائے دھوکوں ‘ جھانسوں اور جھوٹی تسلیوں کے دیا ہی کیا گیا ہے عوام کو؟ عوام کی حالت بدلنے کے بجائے اپنی دنیا سنوارنے میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کی وعدہ خلافیاں اور بے وفائیاں عوام کے دن کا چین اور راتوں کی نیند برباد کرچکی ہیں۔یہ سوال بھی انتہائی اہم ہوتا چلا جارہا ہے کہ ملک کے کسی بھی کونے سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوتے ہی عوامی نمائندہ (رکن اسمبلی) کا میٹر ڈائون ہوجاتا ہے۔ اس کے نہانے دھونے سے لے کر شیو اور کپڑے ڈرائی کلیننگ سمیت شہرِ اقتدار تک کے سفری اخراجات‘پھر وہاں شاہانہ قیام و طعام اور سبھی اخراجات ملک و قوم پربوجھ ہیں۔قوم تو ان اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔اس پر ان کی وعدہ خلافیوں اور بے وفائیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اپنی پوزیشن کے بوتے پر معیارِ زندگی بلند کرنے کی سبھی وارداتیں عوام کے لیے عذابِ مسلسل سے کم نہیں۔ایسے میں یہ طرزِ حکمرانی آخر کب تک؟
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی کا یہ ڈھکوسلا رہا ہے کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ پون صدی بیت چکی ‘ پوری قوم نازک موڑ پر پھنس کر رہ گئی ہے۔ یہ کیسا نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتا‘ یہ کیسی نحوست ہے‘ یہ کیسا آسیب ہے جو ہر دور میں نازک موڑ بن کر عوام کی سیاہ بختی میں اضافے کا باعث بنتا چلا جارہا ہے۔ ہر آنے والا حکمران عوام کو یہی نوید سناتا ہے کہ سابق حکمرانوں نے ملک کو تباہی سے دوچار کر ڈالا اسی لیے ملک انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ عوام کے سامنے وہ اپنی وعدہ خلافیوں اور بد عہدیوں کے علاوہ اپنی بد ترین طرزِ حکمرانی کا ذمہ دار بھی سابق حکمرانوں ہی کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالات اس قدر ابتر ہو چکے تھے کہ اگر ہم برسر اقتدار نہ آتے تو عوام کو نجانے مزید کتنی بربادیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ روزِ اول سے لمحہ موجود تک عوام کو کیسے کیسے جھانسے اور کیسے کیسے دھوکے دے کر ان سب نے عوام کو کب نہیں لوٹا؟ خوشحالی اور مستقبل کے سہانے خوابوں کی ایسی بھیانک تعبیریں دکھائی ہیں کہ عوام اب خواب دیکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
کیا یہ طرزِ حکمرانی عوامی مسائل اور سماجی انصاف سے متصادم ہوتی چلی جارہی ہے؟عوام اس طرزِ حکمرانی کے صدمات کب تک جھیل پائیں گے؟اب تو تبدیلی کا سونامی گمنامی کا اشتہار بن چکا ہے۔ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا؟ بھاشن اور بیانیوں سے لے کر طرزِ حکمرانی تک سبھی کچھ تو مزید بگاڑ اور خرابیوں کے ساتھ جوں کا توں جاری ہے ۔ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے والے غداری کے الزامات لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے لے کر زبان درازی تک‘ کردار کشی سے لے کر بہتان لگانے تک خود کو دودھ کا دھلا سمجھ کر مخالفین کو عوام دشمن اور سکیورٹی رسک قرار دینے والے سبھی سماج سیوک نیتا اسمبلیوں سے باہر مفادات کے جھنڈے تلے یوں اکٹھے ہوتے ہیں گویا ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔عوام کو کھلا دھوکا دینے کے لیے سیاسی سرکس ہو یا پارلیمانی اکھاڑاماضی کے سبھی سلسلے جوں کے توں جاری ہیں۔