پارلیمانی دھینگا مشتی کے اثرات بلوچستان بھی جا پہنچے۔ صوبائی اسمبلی کے باہر میدانِ جنگ کا سماں جمہوریت کے دامن کو داغدار کر گیا جبکہ ہماری دیگر صوبائی اسمبلیوں کا دامن بھی ایسے واقعات سے پاک نہیں۔ ادھر پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت 5 ارب 39 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے بالآخر مکمل ہو چکی ہے اور نیا ایوان کارروائی کے لیے عوامی نمائندوں کو پیش کر دیا گیا ہے۔ عوامی نمائندے قومی اسمبلی کے ہوں یا صوبائی اسمبلی کے‘ سبھی کے ارادوں اور نیت کے ساتھ کارکردگی کا بھید بھی برابر کھلتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں نجانے یہ خیال کیوں بار بار پریشان کر رہا ہے کہ ملک و قوم کو پہلے کون سی خیر کی خبر آ رہی تھی اور خطیر رقم خرچ کر کے ارکان کو نئی بلڈنگ کن قومی خدمات کے عوض بنا کر دی گئی ہے؟ بہتر ہوتا کہ اس کے بجائے عوامی نمائندوں کو شہر سے باہر کوئی کھلا میدان دے دیا جاتا جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے حساب برابر کر سکتے اور تشدد پسند سماج سیوک نیتاؤں کی آسانی کے لیے آلاتِ حرب کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کا بھی مناسب انتظام ہوتا تاکہ عوامی نمائندے کھل کھلا کر ایوان کی کارروائی چلا سکتے۔ تاہم اگر عوامی نمائندے شہر سے باہر جانے پر راضی نہ ہوں تو انہیں وسیع و عریض گریٹر اقبال پارک میں بھی منتقل کیا جا سکتا تھا جہاں ایوان کی کارروائی کے مناظر کو تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی ارواح بھی ملاحظہ فرماتیں اور دیکھتیں کہ انہوں نے آزاد خطے کا خواب کیا انہی کے لیے دیکھا تھا؟ آزاد خطے کا مطلب مادر پدر آزادی تو ہرگز نہ تھا‘ فیض احمد فیض کا یہ شعر ان کی تڑپتی روح کا ترجمان لگتا ہے: ؎
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم اب ان مہنگی ترین اسمبلیوں اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے عوامی نمائندوں کا بوجھ اُٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں‘ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اس طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد سہتے سہتے حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ لگتا ہے نہ حالات بدلیں گے نہ عوام کی حالتِ زار بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ ہر گزرتا دن جہاں مایوسیوں کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہاں یہ سوال بھی دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ یہ طرزِ حکمرانی اور من مانی زیادہ دیر چلنے والی نہیں‘ اب کوئی متبادل ماڈل یا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
مجہول سیاست ہو یا حکمرانوں کے بلند بانگ دعوے‘ بیانات کی جگالی ہو یا وعدوں سے انحراف‘ مکافاتِ عمل کی پکڑ میں واویلا کرتی اپوزیشن ہو یا دھوکے پہ دھوکہ کھاتے نجانے کتنی دہائیوں سے بھٹکتے ہوئے عوام‘ کس کس کا رونا روئیں‘ کب تک روئیں‘ یہ رونا تو اب عوام کا مقدر بن چلا ہے۔ ہر نیا دور اور آنے والا حکمران کچھ کرے نہ کرے عوام کی ذلت اور دھوکوں میں ضرور اضافہ کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام زندہ درگور اور اچھی خبر کو ہی ترس جائیں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
جو طرزِ حکمرانی حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھے لکھوں اور ہنر مندوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقت ور کے سامنے غریب عزت نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے‘ اس کا اندازہ لگانا عوام کے لیے مشکل نہیں۔ اکثر تو اس کی قیمت سے جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔
تعجب ہے عرصۂ اقتدار کی نصف سے زائد مدت گزارنے کے باوجود بھی طرزِ حکمرانی کے لیے کبھی ریاست مدینہ کا ماڈل پیش کرتے ہیں تو کبھی چین کا‘ کبھی ملائیشیا کا تو کبھی ایران کا جبکہ عوام کہتے ہیں کہ ہمیں نہ کوئی بیرونی ماڈل چاہیے اور نہ ہی کوئی نیا پاکستان‘ ہمیں تو بس پرانا پاکستان لوٹا دیں۔ ہم پرانی ذلتوں اور دھتکار پھٹکار پر ہی گزارہ کر لیں گے۔ ہمیں نئے پاکستان کی وہ ذلتِ جاریہ نہیں چاہیے جس کا کوئی انت ہی نہ ہو۔ احتساب کا مطلب ذاتی عناد اور غصہ ہرگز نہیں‘ نجانے سربراہ حکومت کن کیفیات میں ہوتے ہیں اپوزیشن کا نام آتے ہی نہ صرف سیخ پا ہو جاتے ہیں بلکہ اشتعال میں آ کر یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ بھاگنے نہیں دوں گا‘ چھوڑوں گا نہیں‘ این آر او نہیں دوں گا‘ جبکہ ان کا اپوزیشن کے ساتھ نہ کوئی ذاتی لین دین ہے اور نہ ہی کوئی عناد اور تنازع۔ ریاست کا مقدمہ ہے‘ ریاست جانے‘ ملزمان جانیں یا مجرمان جانیں‘ اس سارے عمل پر بیان بازی‘ پوائنٹ سکورنگ اور اپنی ذاتی خواہشات پر مبنی خیالات کا اظہار تو احتساب اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق محسوس نہیں ہوتا ہے۔
عام آدمی کسی چھوٹے موٹے کیس میں پکڑا جائے تو دو چار دن کے ریمانڈ کے بعد اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو تفتیش کے نام پر جس ریمانڈ کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف ملزم کی حالتِ زار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکثر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے جبکہ جسم پر ظاہری اور پوشیدہ تشدد کے نشانات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ اس ستم رسیدہ کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے‘ دوسری طرف ملکی خزانے کا صفایا کرنے والوں سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے والوں تک‘ بھتہ خوروں سے لے کر ٹیکس خوروں تک‘ عوام کی فلاح و بہبود کا پیسہ کنبہ پروری اور اللوں تللوں پر اڑانے والوں تک سبھی زیرِ حراست کئی کئی ہفتوں کے ریمانڈ کے بعد جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ کلف لگی قمیص شلوار اور واسکٹ زیبِ تن کیے ہوئے‘ چم چم کرتے جوتے‘ سلیقے سے بنائے گئے بال اور کھینچ کر کی گئی شیو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ پیشی بھگتنے نہیں بلکہ کوئی فیتہ کاٹنے آئے ہیں۔
اپوزیشن کو این آر او ملے گا یا نہیں ملے گا اس کا فیصلہ خدا جانے کس نے کرنا ہے؟ جس نے بھی کرنا ہے وقت آنے پر یہ پتہ چل جائے گا‘ تاہم اپوزیشن کی اکثر اہم شخصیات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ این آر او کی ''این‘‘ تو خوب انجوائے کر رہے ہیں۔ ''آر‘‘ اور ''او‘‘ جیسی چوٹیاں بھی جلد ہی سر ہوتی نظر آتی ہیں۔ اگر نظر نہیں آتی تو عوام کی حالت بدلتی نظر نہیں آتی۔ ایسے میں پوری قوم وزیر اعظم سے فریاد کرتی ہے کہ آپ اپوزیشن کو این آر او دیں نہ دیں لیکن ہمیں ضرور این آر او دے دیں‘ ہماری زندگیاں آسان کر دیں۔ ہمارے بھی تو آنسو پونچھیں‘ اگر اپوزیشن لیڈروں کو لوٹ مار کے باوجود دورانِ اسیری سہولیات دی جا سکتی ہیں تو عوام کو کم از کم بنیادی سہولیات ہی دے دیں جن پر بحیثیت انسان ان کا حق ہے۔ عوام کو ریمانڈ پر ہی تصور کر لیں اور پورا این آر او نہ سہی‘ کم از کم این آر او کا ''این‘‘ ہی دے دیں۔