میرا لاہور ایک بار پھر لہو لہو ہے۔ فضا میں بارود کی بُو نے ماضی کے سبھی زخم ہرے کر ڈالے ہیں۔ شہر میں بسنے والے زندہ دلانِ لاہور ہوں یا قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ سبھی نے دہشت گردی کا مقابلہ جان و مال لٹا کرکیا ہے۔ جہاں معصوم اور نہتے شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے‘ وہاں پولیس کے افسران و جوانوں نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ امن کے دشمن دہشت گردوں کی تازہ کارروائی میں ہدف کون تھا‘ کون نہیں تھا‘ یہ بحث اپنی جگہ اہم ہے‘ لیکن ایسی کارروائیوں میں دہشت گردی کا ہدف اکثر اگلا ہدف بن جاتا ہے اور نشانہ معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے افسران اور جوان ہی بنتے چلے آئے ہیں۔
جب جب دہشت گردوں نے میرے لاہور کو ہدف بنایا ہے تب تب برادرم شعیب بن عزیز کے دُعائیہ اشعار حالات کا استعارہ بن جاتے ہیں اور لبوں پر آ جاتے ہیں:
ترا مکہ رہے آباد مولا
کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا
بہت سے شاد و فرحاں پھر رہے ہیں
ہمارے ساتھ کے برباد مولا
ہمارے حال کی بھی کچھ خبر لے
ہمارے دل بھی ہوں آباد مولا
یہاں بھی کھیتیاں سرسبز ہو جائیں
ادھر بھی آئیں ابر و باد مولا
ہمارے دکھ جبینوں پر لکھے ہیں
بیاں ہم کیا کریں روداد مولا
تو کیا ہم اپنی باری لے چکے بس
تو کیا ہم اب ہیں رزقِ یاد مولا
تو کیا یہ سب بساط رنگ و مستی
بچھے گی اب ہمارے بعد مولا
ہمارے چاہنے والے ہمیں اب
نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا
یہ جان و مال میرے تجھ پر صدقے
تیرے محبوب پر‘اولاد مولا
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
ترا مکہ رہے آباد مولا
وطن عزیز خصوصاً شہر لاہور پر جب بھی دہشت اور بربریت کا حملہ ہوا‘ جب بھی معصوم شہریوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی‘ یہ اشعار دُکھ اور جذبات کی عکاسی کے لیے انتہائی مددگار اور بہترین استعارہ ثابت ہوتے آئے ہیں۔ دہشت گردوں کی اس کارروائی کے بعد وہی روایتی بیانات... وہی اقدامات... وہی حکمرانوں اور افسران کی دوڑیں... لمبے چوڑے دعوے... مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے سے لے کر آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعووں تک‘ سبھی کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔ ناکوں کی چیکنگ اور پٹرولنگ سمیت آنیوں جانیوں میں بھی خاصی تیزی آ چکی ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ایک بار پھر میرے لاہور کا رخ کر لیا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان دہشتگردوں کے لیے ہمیشہ کھلا چیلنج اور آہنی ہاتھ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جانوں کے نذرانے دینے سے لے کر جان جوکھوں میں ڈالنے تک یہ ہمیشہ ہی ثابت قدم رہے۔
ایک بار پھر فضائوں میں بارود کی بُو بسانے کی کوشش کی جاری ہے۔ کس کو معلوم یہ آگ کہاں تک پہنچے۔ خدا نہ کرے کہ میرا لاہور ایک بار پھر اس آگ کی لپیٹ میں آئے۔ دہشتگردی کی حالیہ لہر میں امن کے دشمنوں نے پورے ملک میں جس طرح خون کی ہولی کھیلی‘ ابھی تو اسی کا ماتم جاری تھا کہ لاہور کے پُرہجوم اور بارونق علاقے جوہر ٹائون میں ہونے والے دھماکے نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دھماکہ اگر قبل از وقت نہ ہوتا تو نجانے کیا قیامت ٹوٹتی۔ امن کا دشمن دہشت گرد اگر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا تو کیا ہوتا‘ اس خیال سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کی ابھی کتنی قیمت چکانا باقی ہے؟ دہشت گردوں کی طرف سے کھیلی جانے والی ہر خون کی ہولی کے بعد محسن نقوی کا یہ شعر بھی ماضی کے سبھی زخم ہرے کر ڈالتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ شہر کی سبھی سڑکیں خون سے تر اور بارود کی بُو ہماری سانسوں میں بس چکی ہے۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
آخر یہ خراج کب تک ادا کرتے رہیں گے؟ کتنی نسلیں یہ خراج ادا کریں گی؟ کتنے ہی موسم بدل گئے‘ کتنی رتیں بدل گئیں‘ لیکن ماتموں کا یہ موسم ہے کہ گزرنے کا نام نہیں لیتا۔ کتنے آنگنوں کے پھول مرجھا گئے۔ کتنی ہی مائوں کی گودیں اجڑ گئیں۔ کتنی ہی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے۔ کتنے سہاگ خون میں نہلائے گئے۔ کتنے ہی بچے یتیمی کا روگ جھیلتے جھیلتے روگی ہو چکے ہیں۔ خدا پوچھے ان سبھی کو جنہوں نے پرائی جنگ کی چنگاری سے اپنا آنگن ہی جلا ڈالا۔ ہمیں کتنی بار پرائی جنگوں کا ایندھن بننا پڑے گا؟ کبھی افغان جہاد کے نام پر‘ تو کبھی Do More کے مطالبہ پر‘ کبھی بنامِ الفت تو کبھی دھوکا کھانے کے شوق میں۔ ہم کب تک لٹتے اور مٹتے رہیں گے؟ کب تک ہستی بستی بستیوں کو برباد کرتے رہیں گے؟ کوئی تو انت ہونا چاہیے۔ مصلحتوں اور مجبوریوں کے طوق کب تک ہماری خود مختاری اور غیرت قومی کو یرغمال بنائے رکھیں گے؟
ماضی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کی قیمت ہم ڈو مور (Do More) کی صورت میں چکاتے رہے اور ڈو مور کا مطالبہ اس قدر شدت اختیار کرتا چلا گیا کہ مخصوص اہداف اور افراد تک رسائی بھی ڈو مور کا حصہ بنتی چلی گئی۔ ڈرون حملوں سے لے کر جیتے جاگتے شہریوں کو پارسل بنا کر گوانتامو بے سمیت نجانے کہاں کہاں بھیجنے تک‘ نجانے ہمارے کتنے شہری زندہ درگور ہو کر ڈو مور جیسے نعروں کے گٹھ جوڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اُن دنوں عمران خان اس گٹھ جوڑ کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتے رہے بلکہ اپنے شہریوں کی امریکہ کو حوالگی پر احتجاج بھی کرتے رہے؛ تاہم آج پھر ہم سے وہی مطالبے دہرائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اپنے ماضی کے بیانیوں پر قائم نظر آتے ہیں اور امریکہ کو اڈے دینے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں Absolutely Not کا جواب دے کر اپنا موقف اور ارادے واضح کر چکے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ موقف اسی طرح واضح رہے اور اس میں ابہام اور تبدیلی بیانیوں کی تبدیلی تاریخ دہرانے کا باعث نہ بن جائے۔ وہی ماضی‘ وہی تاریخ‘ وہی مصلحتیں‘ وہی مجبوریاں ایک بار پھر سامنے آن کھڑی ہوئیں تو مسائل بڑھ جائیں گے۔
بات چیت اور ڈائیلاگ کے آپشنز کو خود پر حرام کر کے مطالبوں اور ڈکٹیشن کو کب تک حلال قرار دیتے رہیں گے؟ اس جبرِ مسلسل میں وزیر اعظم عمران خان کا اڈے دینے سے انکار گھپ اندھیرے میں امید کی کرن بن کر چمکا ہے۔ خدا کرے امید کی یہ کرن کئی دہائیوں پر محیط اندھیرے کو نگل جائے اور خود مختارانہ فیصلوں کا یہ سفر نشان منزل بن کر بھٹکی ہوئی قوم کو مصلحتوں اور مجبوریوں کے سفر سے نجات دلا دے۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ بہادر ایسے دو ٹوک انکار سننے کا عادی نہیں؛ تاہم مشکل فیصلوں کی قیمتیں چکا کر ہی قومیں سرخ رو ہوتی ہیں‘ مٹ کر بنتی اور بن کر سنورتی اور پھر راج کرتی ہیں۔ ایسی کئی مثالیں اقوام عالم کی تاریخ میں ہمیں مل جائیں گی ۔ اگر وزیر اعظم اپنے موقف پر قائم رہے تو ہم بھی ایک زندہ قوم ثابت ہوں گے اور اقوام عالم کیلئے اچھی مثال بنیں گے۔