وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستانیت کو فروغ دیے بغیر ملک کا سافٹ امیج ہرگز اجاگر نہیں ہو سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ نائن الیون کے بعد جو موقف عمران خان صاحب نے اختیار کیا وہ آج بھی اس پر قائم ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس بار امریکی فرمائش اور مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کا دو ٹوک انکار Absolutely Not ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ وزیر اعظم صاحب نئے پاکستان کا خواب ضرور دیکھیں‘ سافٹ امیج کی تمنا بھی کریں لیکن اس کے لیے کچھ مشکل فیصلے بھی کرنا ہوں گے‘ تب کہیں جا کر پاکستانیت اور سافٹ امیج کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ اصل موضوع سے پہلے ماضی کے ان حکمرانوں کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے عوام کو جھانسہ دے کر نہ صرف اصل منزل سے بھٹکا دیا بلکہ نشانِ منزل ہی بدل ڈالا۔
پرویز مشرف صاحب نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا مگر ملک و قوم کو نہ صرف پرائی جنگ کا ایندھن بنایا بلکہ خود مختاری اور غیرتِ قومی کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اس طرح روشن خیالی کے نام پر جن اندھیروں سے قوم کو دوچار کیا گیا وہ اتنی طویل داستان ہے کہ اس کے لیے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ قبل ازیں ستر کی دہائی کے آخر میں ضیاالحق صاحب نے بھی اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر ملک و قوم کو پرائی جنگ میں جھونک کر اس ملک پر اتنا بوجھ لاد دیا کہ آج تک ان کے اثرات سے نکل کر یہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو پایا۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ایثار اور ان کی آباد کاری کی قیمت قوم آج بھی کچھ یوں چکا رہی ہے کہ ملکی معیشت کے بیشتر شعبوں پر ان کی اجارہ داری اس طرح قائم ہے کہ پاکستان کی سرکار اور قوم‘ دونوں ہی ان کی مرہونِ منت ہیں جبکہ منشیات جیسے ناسور نے اس قوم کو اس طرح گھائل کیا ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی سبھی زخم ہرے اور ان سے خون رستا ہے۔ کلاشنکوف اور دیگر ممنوعہ بور کا سبھی اسلحہ اسی جذبہ ایثار کی بائی پراڈکٹ ہے۔ فرقہ واریت سے لے کر قوم پرستی تک جیسے عفریت کو پروان چڑھانے کے لیے بھر بھر مشکیں ڈالنے والے کے مسیحائی کے نام پر لگائے ٹیکے زہر کے انجکشن ثابت ہو چکے ہیں۔
تعجب ہے کہ چندوں‘ بھتوں‘ لوٹ مار‘ دادا گیری‘ قتل و غارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے مال سے وطن دشمن کو پالنے والے ایم کیو ایم (پُرانی) کے کچھ رہنما ریڈار کی زد میں آنے کے باوجود وفاق میں حکومتی حلیف اور شریک اقتدار بن جاتے ہیں۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ماضی میں انہیں گلے لگایا جاتا رہا۔ ان کے ہاتھ کراچی کے معصوم عوام کے خون کے چھینٹوں سے تر ہے۔ کتنا خون بہایا گیا‘ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی‘ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے‘ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے‘ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا۔ گزشتہ پچاس برس کے دوران کے سب حکمران کراچی کے ان حالات کے کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہیں۔ کراچی کی بربادی اور تباہی کے سبھی ذمہ دار ہیں‘ جبکہ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے اور سارے کردار اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر کمی ہے تو عبرت پکڑنے والوں کی۔
مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ سفر جاری رہے گا یا کبھی اس طوق کو گلے سے اُتار پھینکا جائے گا؟ کیا یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ وہ اب تائب ہو چکے ہیں اور ماضی سے لا تعلقی اختیار کر چکے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ سو جواز‘ توجیہات اور بہانے گھڑ لیں لیکن اب مصلحتوں اور مجبوریوں کی سیاست کی قیمت عوام کے جان و مال سے نہیں چکائی جا سکتی۔ حکمرانوں کو ایم کیو ایم (پُرانی) کے شریکِ جرم افراد سے سبق سیکھنا اور عبرت حاصل کرنا ہو گی‘ جنہوں نے مصلحتوں اور مجبوریوں کو گلے لگایا‘ اور یہ مجبوریاں اُن کے گلے کا طوق بنتی چلی گئیں۔
ماضی کے حکمرانوں نے حصولِ اقتدار سے لے کر طول اقتدار تک قوم کو کیسی کیسی مشکلات اور قیامت خیز آزمائشوں سے دوچار نہیں کیا۔ ضیا الحق کے دور میں لگائی گئی سیاسی پنیری اس خاردار بیل کا جنگل بن چکی ہے جو سسٹم کو آج بھی اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس پنیری کے سبھی چہرے وفاداریوں اور پارٹی کی تبدیلیوں کے ساتھ ہر دور میں شوقِ اقتدار پورا کرتے چلے آ رہے ہیں جبکہ مشرف کے دور میں لگائی گئی تازہ دم پنیری بھی اپنے باغباں کی نازک حالت سے بے نیاز اقتدار کی موجیں لوٹ رہی ہے۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف جس میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر پاکستانیت کی بات کر کے وطنِ عزیز کے سافٹ امیج کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ انسانیت کے فروغ کے بغیر پاکستانیت کے تصور کو ترقی دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم صاحب ملک کے سافٹ امیج کی بات کرتے ہیں‘ مگر یہاں تو امیج کا ''آئی‘‘ بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت میں مردہ مرغیوں کو کوڈ ورڈ میں ''ٹھنڈی مرغی‘‘ کہہ کر کھلے عام تجارت کی جاتی ہو‘ جہاں کتوں اور گدھوں کا گوشت ریستورانوں میں پکائے جانے کی خبریں اخباروں میں آ چکی ہوں‘ وہاں کہاں کی انسانیت اور کیسی پاکستانیت؟ مہنگا مگر مضر صحت چکن کھا کھا کر جو قوم پہلے ہی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو‘ اس پر ''ٹھنڈی مرغی‘‘ نے مزید مضر اثرات مرتب کئے ہیں مگر یہ حرام گوشت بیچنے والوں کے ضمیر اس مرغی کی طرح ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ خدا کے لیے پاکستانیت اور سافٹ امیج کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی زندہ کریں اور انسانیت زندہ کرنے کے لیے حیوانیت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا ہو گا۔ حیوانیت کے تدارک کے لیے صرف چند سو حیوان صفت انسانوں کو قرار واقعی سزا دے دیں تو ہزاروں خود بخود انسان بن جائیں۔ یقین رکھیں کہ جس دن انسانیت زندہ ہو گئی اس دن پاکستانیت خود بخود قائم ہو جائے گی اور سافٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے مزید کسی محنت اور جدوجہد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اللہ نے حکومتِ وقت کو موقع دیا ہے تو اس قوم پر اتنا احسان ضرور کر ڈالے کہ ملاوٹ کرنے والے ہوں یا قوم کو مردار اور حرام کھلانے والے‘ ان سبھی کے لیے سخت سے سخت سزا کا قانون ہی بنا ڈالیں۔ جس دن یہ قانون نافذالعمل ہو گیا‘ پاکستانیت اور سافٹ امیج ہمارا فخر بن جائے گا؛ تاہم خیال رہے کہ ملاوٹ کا خاتمہ خالص احکامات کے بغیر ممکن نہیں۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ حکومت کے احکامات میں ملاوٹ کرنے والا بھی اسی قانون کی زد میں ضرور آنا چاہیے۔ وزیر اعظم صاحب کے اکثر احکامات اصل مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی ملاوٹ زدہ کر دیے جاتے ہیں اور عمل درآمد ہونے تک ان کا رنگ اور حلیہ ہی بدل دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی پولٹری منڈی میں کھلے عام ٹھنڈی مرغی کی تجارت اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ جہاں لوگوں کے ضمیر ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہو چکے ہیں وہاں کوئی اولوالعزم حاکم ہی اسے نئی زندگی دے سکتا ہے۔