ملک کے سب سے بڑے صوبے کے تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف کو ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم سے شکایت ہے کہ اس نے تفتیش کے دورا ن ان کی تذلیل کی اور مذاق اڑایا۔حکمران ماضی کے ہوں یا دور ِحاضر کے ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ غریبوں کے حق کے لیے لڑتے لڑتے یہ امیر سے امیرتر کیسے ہوتے چلے جاتے ہیں اور جب ان کی امارت ماضی کی چغلی کھاتی ہے تو یہ کیسی کیسی توجیہات اور جواز گھڑتے نظر آتے ہیں ۔ مال و دولت کے انبار ہوں یاوسیع و عریض کاروبار‘ملکی و غیر ملکی لمبی چوڑی جائیدادیں ہوں یابینک اکائونٹس یا ملازموں اور دوستوں کے نام پر بوگس اکائونٹس میں ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی بھرمار‘ان کے پاس سبھی الزامات کا کوئی نہ کوئی جواب ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ ان کی فیکٹریاں ہوں یا جائیدادیں‘ اکائونٹس ہوں یا دیگر کاروبار‘سبھی انڈے ‘بچے دے رہے ہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ عام آدمی کسی چھوٹے موٹے کیس میں پکڑا جائے تو دو چار دن کے ریمانڈ کے بعد اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے اور جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو تفتیش کے نام پر جس ریمانڈ گردی کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ ملزم کی حالتِ زار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکثر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ جبکہ جسم پر ظاہری اور پوشیدہ تشدد کے نشانات گواہی دیتے ہیں کہ اس ستم رسیدہ کے ساتھ کیا سلوک ہو اہے‘ دوسری طرف ملکی خزانے کا صفایا کرنے والوں سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے والوں تک‘بھتہ خوروں سے لے کر ٹیکس خوروں اور عوام کی فلاح و بہبود کا پیسہ کنبہ پروری اور اللوں تللوں پر اڑانے والوں تک‘ سبھی زیر حراست کئی کئی ہفتوں کے ریمانڈ کے بعد جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ کلف لگی قمیص شلوار اور واسکٹ زیب ِ تن کیے ہوئے‘ چم چم کرتے جوتے‘ سلیقے سے بنائے گئے بال اور تازہ شیو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ پیشی بھگتنے نہیں بلکہ کوئی فیتہ کاٹنے آئے ہیں۔
نیب کی اسیر ی کے دوران مریم نواز شریف جب پیشی پر تشریف لاتی تھیں تو پروٹو کول سے ہر خاص وعام بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا ‘ یعنی جتنا بڑا ملزم اتنا بڑا پروٹوکول۔ اگر اسیر سیاستدانوں پر پیشی پر آنے سے پہلے ان کے گیٹ اپ اور میک اپ پر پابندی لگا دی جاتی تو ان کی شکلیں پہچانی نہ جاتیں۔ اپنی اصل شکلیں چھپانے کے لیے سب نقاب کر کے پیشیوں پر آیا کرتے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو تا کہ پیشی کے بعد عدالتوں کے باہر یہ مجمع نہ لگاسکتے اور نہ ہی لمبے چوڑے بھا شن دے سکتے۔ یہ التجا کرتے کہ آئندہ ایسے ملزموں کوخاموشی سے لایا جائے اور خاموشی واپس لے جایا جائے۔
زرداری صاحب اور ان کے شریک مقدمہ ہوں یا شریف برادران سمیت دیگر نیب اسیر، سب کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ہاتھ کی اس صفائی پر انہیں کوئی میڈل تو ضرور ملنا چاہیے کہ کس مہارت سے ملک وقوم کے وسائل پر ہاتھ بھی صاف کرتے رہے اور دامن کو بھی صاف رکھا۔گویا ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہوکہ کرامات کرو ہو
ان سماج سیوک رہنماؤں کی کرامات تو ہر دور میں عوام دیکھتے اور بھگتتے چلے آئے ہیں ۔یہ اتنے پہنچے ہوئے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا احتسابی ادارے‘کوئی ان کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکا۔جزا اور سزا کا نظام ہو یا مکافات عمل کا،ان سبھی کے درمیان تاحال آنکھ مچولی جاری ہے۔اس پر کمال یہ کہ نیب بنانے والے ہی اس احتسابی ادارے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ یہ ادارہ ہم نے اپنے لیے نہیں بلکہ مخالفین اور حریفوں کو زیرِ عتاب رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ نواز شریف تو کئی بار اس پچھتاوے کا اظہار کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62/63 ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ کھال اور گردن بچانے کے لیے اب یہ ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے سرگرم ہیں اور گٹھ جوڑ پر آمادہ ہیں۔ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر آصف زرداری تک ہر دور میں مفادات کے ماروں نے ملک و قوم کی دولت اور وسائل کے بٹوارے سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک‘ ایک دوسرے کی بڑی سے بڑی واردات سے چشم پوشی کی روایت کو دوام بخشا‘ البتہ فیس سیونگ اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا کہنے پر کوئی ممانعت نہیں تھی بلکہ یہی انڈر سٹینڈنگ رہی ہے ۔آج کل پھر سیاسی اکھاڑے میں نورا کشتی جاری ہے۔
ایک دوسرے کو چور کہنے‘ سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے اور بڑھکیں مارنے والے اپنی کھال اور گردن بچانے کیلئے ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے کے دست و بازو بننے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ زرداری اور شریف برادران نے ایک دوسرے پرکون سا سنگین اور رنگین الزام نہیں لگایا ۔ میثاق جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہونے والے ہی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے رہے ہیں۔یہ گٹھ جوڑ عمر عزیز کی 13بہاریں دیکھ چکا ہے جبکہ ان بہاروں کی قیمت عوام نے نجانے کتنی خزائوں کی صورت میں چکائی ہے۔
اب جبکہ سبھی کا سب کچھ عیاں ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور زرداری حکومت وقت اور احتساب کی پکڑ میں نہیں بلکہ اپنے اعمال کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ سزا اور جزا کا عمل‘ اعمال کے نتیجے میں ہی حرکت میں آتا ہے اور کیسے ممکن ہیں کہ اعمال بد ہوں اور قانونِ فطرت خاموش رہے؟رب کی نافرمانیاں ہوں یا قوم سے بدعہدیاں اور جفائیں ہوں،خیانت اور ظلم و جبر کے کارِ بد میں ہاتھ رنگے ہوں تو کوئی قانونِ فطرت کی گرفت سے کیسے بچ سکتا ہے؟ آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی عدالتیں اور وکالتیں بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔
یاد رہے ! اگر ملک و قوم کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے اب بھی بچ گئے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ ہی نظام چلانے والے کیونکہ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے‘ وہاں کچھ بھی نہیں چل سکتا۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا جھانسہ دیا تو کسی نے‘ قرض اُتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر اپنی دنیا سنوار لی ۔کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر ملک و قوم کو نہ صرف پرائی جنگ کا ایندھن بنا ڈالا بلکہ اس جنگ کیـ بائی پروڈکٹس کو طولِ اقتدار سے لے کر استحکامِ اقتدار تک خوب استعمال کیا اوربلا شرکت غیرے اقتدار کی وہ موجیں اڑائیں کہ الامان والحفیظ۔کسی نے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے کر عوام سے وہ انتقام لیا کہ اخلاقی قدروں سے لے کر سماجی انصاف تک سبھی کی چولیں ہلا ڈالیں۔لوٹ مار اور مال بنانے کا نِت نیا طریقہ اور حربہ اختیار کیا کہ عقل دنگ رہ جائے۔لانچوں پر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل سے لے کرفیکٹریوں اور ملوں کوضربیں دینے کی کیسی کیسی واردات ریکارڈ کا حصہ ہے۔ کرپشن کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے اقتدار کا تحفظ کل بھی میسر تھا اور آج بھی دستیاب ہے۔لوٹ مار اور مار دھاڑ میںرکاوٹ بننے والا کیسا کیسا سربلند ‘سرنگوں ۔میرٹ شرمسار اور گورننس آج بھی منہ چھپائے پھرتی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی ایسے الزامات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ احتساب کے لیے مطلوب کوئی وزیر ہو یا مشیر ‘سرکاری بابو ہو یاکوئی بااثر شخصیت،سبھی نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں ۔کوئی ایوان وزیراعظم میں پناہ گزیں ہے تو کوئی گاڑی پر لگے جھنڈے کو ڈھال بنائے بیٹھا ہے۔کوئی ایوانِ وزیراعلیٰ میں بیٹھا تقرریوں اور تبادلوں کی تجارت کر رہاہے تو کوئی کہیں اور راہ چلتی بدنامیاں اکٹھی کررہا ہے۔ اگر یہ سبھی بچ گئے تو ملک و قوم کے پلے کیا رہ جائے گا؟