آزاد کشمیر کے عین متوقع انتخابی نتائج کو کہیں جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے تو کہیں عوام کی۔کہیں کسی کی شکست کا شور وغوغا ہے تو کہیں انتخابی نتائج کو چمک کا چمتکار قرار دیاجارہا ہے۔ غرض یہ کہ سیاسی نعرے زور و شور سے دہرائے جارہے ہیںجوعوام کے لیے نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی کوئی اچنبھے کی بات ہیں۔ البتہ پارٹیوں اور وفاداریوں کی تبدیلیوں کے ساتھ بیشتر چہرے وہی ہیں جو ہر دور میں جمہوریت کے چیمپئن بن کر عوام کے دکھوں میں اضافے کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں۔ حصول ِاقتدار سے لے کر استحکام اقتدار تک‘ قوم کے وسیع تر مفاد میں وفاداری کی تبدیلی سے لے کرجمہوریت کی بقا کے لیے پارٹیوں کی تبدیلی تک‘ قول و فعل میں تضاد سے لے کر دروغ گوئی اور بدعہدیوں تک‘ سبزباغوں سے لے کر سنہرے خوابوں تک‘ ہمارے سیاستدان یہ سبھی ''قربانیاں‘‘عوام کیلئے دیتے چلے آرہے ہیں۔
روزمرہ سے لے کر ماہ و سال تک عوام یہ تماشے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں‘ انہیں اب کچھ بھی نیا نہیں لگتا۔کہیں مصلحتیں بیانیوں کو کھا گئیں تو کہیں مجبوریاں بدعہدیوں کی وجہ بن گئیں۔کہیں ارادے متزلزل ہوکر بھٹکتے چلے گئے تو کہیں نیتیں شوقِ اقتدار کی نذر ہو گئیں۔ کہیں دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے تو کہیں ایجنڈے ہائی جیک ہو گئے۔ جن کا وجود ملک و قوم اور جمہوریت کے لیے خطرہ تھا انہیں استحکام اقتدار کے لیے گلے سے لگانا پڑ گیا۔کسی کو وزارت دے کر راضی کیا تو کسی کو مشیربناکر منانا پڑا۔کہیں وزارتیں اضافی دینا پڑیں تو کہیں وزیر اضافی نظر آتے ہیں۔یہ سارا گورکھ دھندا روزِ اول سے برابرجاری ہے۔ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے طور طریقوں سے لے کر زبان و بیان تک‘نشست و برخاست سے لے کرروز وشب تک‘سبھی یکسر بدل جاتے ہیں اور انہیں مینڈٹ دینے والے بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ''بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘‘۔
اس یکسر تبدیلی پران کے جواز اور توجیہات سن کر تو بس سر ہی پیٹا جاسکتا ہے۔تہی دست اور تہی داماں ہوکر بھی پچھتاوے کی گٹھڑی ضرور اٹھائے پھرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں جمہوری اقدار پر گھنٹوں بھاشن دینے والے جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں کو بنیادی جمہوریت سے خدا واسطے کا بیرہی نہیں بلکہ انہیں بنیادی جمہوریت سے عناد کے ساتھ ساتھ خوف کا بھی سامنا ہے۔ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے دعوے تو ہزار کرتے ہیں لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی ان اداروں سے خائف اور شاکی نظر آتے ہیں۔ پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کہنے والے جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کے ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اپنے نو سالہ اقتدار میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے اور بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینے کا کریڈٹ بھی پرویز مشرف ہی کو جاتا ہے۔
آزادکشمیر کے الیکشن ہوں یا ضمنی انتخابات‘ جمہوریت اور عوام کے بارے میں ان سماج سیوک نیتائوں کے خیالات اور لمبی لمبی تقریروں سے تو اب الرجی ہو چلی ہے۔دودھ اور شہد کی نہریں تو بہا نہ سکے لیکن ان کے دعوے اور دلاسے سن سن کر عوام کے کان ضرور بہنے لگے ہیں۔جمہوریت کے علمبردار شریف برادران ہوں یا عمران خان‘ بنیادی جمہوریت کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایوانوں میں بیٹھے ان جمہوری چیمپئنزکی سوچ اور اپروچ کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے:
2008ء میں مسلم لیگ (ن) نے بھی پنجاب میں عرصۂ اقتدار کے پورے پانچ سال مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کیے رکھا۔ شہباز شریف نے کئی بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا‘ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی لیکن انتخابات کروانے کی ہمت نہ ہوئی۔2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی اداروں سے عناد برقرار رکھا اور مزید دو سال پھر گزار ڈالے۔بالآخر سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانا پڑے۔ انتخابات تو خدا خدا کرکے ہوگئے لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔بالآخر مرتاکیا نہ کرتا کے مصداق دسمبر 2016ء میں منتخب نمائندوں کی حلف برداری اور میئرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا‘غیر فعال اور بیوروکریسی کا مرہونِ منت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے عدالت کے حکم کی تعمیل کے علاوہ جمہوریت پسندی کی چیمپئن شپ بھی جیت لی۔یہاں بھی بدنیتی غالب رہی۔ضلعی میئرز اور چیئرمینوں کے دائر ہ اختیار سے وہ تمام محکمے خارج کردیے گئے جن کا تعلق براہ راست شہری سہولتوں اور محصولات سے تھا۔مذکورہ محکموں میں حکومت پنجاب نے اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور یوں بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیارجبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔مالی اور انتظامی طور پر غیر مستحکم اور غیر فعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر تو کردیالیکن عوامی نمائندے عوام کے سامنے شرمندہ ہی رہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف نے خوب سیاست کی اور یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی بر سراقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کاپوراموقع دے گی‘ ارکانِ اسمبلی صرف قانون اور پالیسی سازی پر کام کریں گے‘شہری سہولتوں اور ترقیاتی کاموں سے متعلق تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیے جائیں گے لیکن2018 ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش اور طرزِ حکمرانی کی روایت کو برقرار رکھا۔
اُس وقت پنجاب کے وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور موجود ہ اداروں سے چھٹکارا کیونکر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے حکو مت کے اس تعصب اور عناد کے پیش نظر پنجاب بھر کے میئرزاور چیئرمین ضلع کونسلز اکٹھے ہوئے اور لاہور‘ملتان‘ راولپنڈی‘اسلام آباداور بہاولپور میں کئی اجلاس منعقد کیے گئے جسے میئر کانفرنس کا نام دیا گیا۔ میئرز اور چیئرمینوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کہ ہم وسیع ترملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘حکومت ان کو کسی طور ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اگر کسی میئر یا ضلعی چیئر مین نے زیر التوا ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے انتقامی کارروائی‘ اینٹی کرپشن اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس پر ستم یہ کہ کمشنرز‘ ڈپٹی کمشنر اور آر پی اوز کوبھی اشارہ کردیا گیا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے لیے ہر قسم کا تعاون اور ریلیف ممنوع ہے۔ بیوروکریسی کو اور کیا چاہیے‘نیکی اور پوچھ پوچھ‘ اس طرح رہی سہی کسر اس نے پوری کرڈالی۔ فنڈز کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی کاموں پر پابندی ہی لگی رہی۔ ان حالات میں وزیر بلدیات نے تجویز دی تھی کہ میئرز اور چیئرمینوں کی اکثریت تعاون پر آمادہ ہے‘کیوں نہ انہی کو موقع دیا جائے‘ اس طرح وہ نہ صرف انڈر پریشر رہیں گے بلکہ اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں گے‘لیکن میں نہ مانوں کی حکومتی پالیسی کے آگے وزیر بلدیات کی نہ چل سکی۔اس قابلِ عمل تجویز کو نہ ماننے کا نتیجہ آج حکومت کا منہ چڑا رہا ہے۔عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی اداروں کو بحال کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے لیکن حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد سے مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے اور بنیادی جمہوریت سے تاحال خائف دکھائی دیتی ہے۔