ہر دور میں حکمرانوں کے دو ٹاپ ٹرینڈ بیانیے سرفہرست رہے ہیں اور انہیں سنتے سنتے کئی نسلیں بچپن سے بڑھاپے تک جا پہنچیں اور بڑھاپے سے قبروں میں جا سوئیں جبکہ اس سارے عرصے میں وہ بس یہی سنتی رہیں کہ ہمارا ملک کبھی نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے تو کبھی نازک صورتحال کے کنارے پہ کھڑا ہوتا ہے۔ پون صدی بیت چکی لیکن یہ نازک دور ہے کہ نہ گزرتا ہے نہ ہی یہ موڑ کہیں مڑنے کو تیار ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نازک موڑ اور نازک دور دونوں ہی جامد و ساکت ہوچکے ہیں اور ٹس سے مس ہونے کو تیارنہیں۔ جس معاشرے میں سماجی انصاف اور قانون کی حکمرانی ڈھونڈے سے نہ ملتی ہو‘ وہاں گورننس سمیت جزااور سزا کے نظام پولیو زدہ ہی ہوتے ہیں۔ نہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی چلنے کی سکت رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے طول و عرض میں حواس گم کردینے والی کیسی کیسی خبریں صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ یہ خبریں معاشرے کا اصل چہرہ بن کرنہ صرف سماجی و اخلاقی قدروں کا منہ چڑاتی ہیں بلکہ دن کا چین اور رات کی نیند اڑانے کے علاوہ اعصاب و نفسیات پر کئی طرح کے عذاب بھی توڑتی ہیں۔
کہیں گورننس بانجھ ہے تو کہیں سسٹم اپاہج دکھائی دیتا ہے۔ کہیں قول و فعل کی حرمت پامال ہے تو کہیں عمل تضادات کا شکار ہے۔ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ نہ منصب کا لحاظ ہے نہ آئین کی پاسداری۔ قانون کی حکمرانی ہے نہ کہیں اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس۔ احترامِ آدمیت ہے نہ تحمل و بردباری۔ احساسِ ذمہ داری‘ رواداری اور وضع داری جیسی صفات تو کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل کررہے گئے ہیں۔ عناد‘ بغض اور کینہ دلوں میں چھپائے چہروں پر نمائشی اور مصنوعی مسکراہٹیں سجائے کس قدر ڈھٹائی سے منافقانہ معانقے کرتے پھرتے ہیں۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک حکمرانوں کی قابلیت معمہ ہے اور یہ معمہ حل ہونے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بے کس عوام کتنی دہائیوں سے ان کی طرزِ حکمرانی کے اثرات سے مسلسل بدحال ہوتے چلے جارہے ہیں۔ برسہا برس بیت گئے کتنے ہی حکمران بدل گئے لیکن عوام کے نصیب بدلتے نظر نہیں آتے۔
جس طرح کوئی اپنی کمر کا تِل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح حکمران بھی اپنے ہی کیے ہوئے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لاعلم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں گے اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ عزائم بھی اوجھل ہوتے ہیں‘ مگر جلد یا بدیر ان کے نتائج بہرحال حکمرانوں کو بھگتنا ہی پڑتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومت کی مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ لگانے کے لیے ضمنی انتخابات ہی کافی ہیں۔ ان کے نتائج ان فیصلوں کا آئینہ ہیں جو حکومت اپنے مشیروں اور مصاحبین کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے زیر اثر کرتی چلی آئی ہے۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر تتربتر ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت میں شریک اکثر چیمپئنز سابق حکمرانوں کے بھی مشیر رہے اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے‘ لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر سابق ادوار کے حکمرانوں کی آنکھ میں تنکے کا واویلا اس زوروشور سے کر رہے ہیں کہ سرکس کا سماں بندھ جاتا ہے۔ کیا وزیر کیا مشیر‘ سرکاری بابو ہوں یا ذاتی رفقا اور مصاحبین‘ کیسی کیسی واردات‘ کس کمالِ مہارت سے کرتے نظر آتے ہیں کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف دکھائی دیتا ہے۔ اگر نظر نہیں آتا تو بس حاکمِ وقت کو۔ یہ منظرنامہ قطعی نیا نہیں‘ ہر دور میں ہر حکمران کے اردگرد ایسے کردار کثرت سے نظر آتے رہے ہیں اور جو آج حکومت کے ہراول دستے کا حصہ ہیں۔ ان میں سے اکثر چہرے تو ماضی کے ہر دور میں اگلی نشستوں پر براجمان دکھائی دیتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کئی بار اس امر کا کریڈٹ لے کر فخریہ بیان جاری کرچکے ہیں کہ ان کے دور میں طاقتور لوگوں کا احتساب کیا گیا۔ یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ 2018ء سے احتساب کا وہ عمل شروع ہوا کہ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‘ کے مصداق ایسا ایسا شجرِ ممنوعہ اُکھاڑ پھینکا گیا جس کی شاخوں اور پتوں کو کوئی چھونے کا تصور نہ کر سکتا تھا۔ چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر ناقابلِ احتساب تصور کیے جانے والے بھی اپنے ماضی کی کارستانیوں کے مقدمات بھگت رہے تھے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ اس ملک کے اقتدار اور وسائل پر موجیں کرنے والے نواز شریف اپنے ہی دورِ حکومت میں نااہلی اور بددیانتی کے الزام میں اقتدار سے نکالے گئے اور سڑکوں پر احتجاج کرتے اور یہ پوچھتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ویسے بھی وطنِ عزیز کے حکمرانوں‘ اعلیٰ حکام اور اشرافیہ کی بداعمالیوں‘ لوٹ مار اور اقربا پروری کی چونکا دینے والی داستانیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے۔ ایسا اندھیر مچائے رکھاکہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے۔ جب معاشرے میں احترام سے دیکھے جانے والوں کی دیانت سوالیہ نشان بن جائے تو پھر کیسی حکومتیں اور کیسی قیادتیں؟
تحریک انصاف نے حکومت سازی کے فوری بعد کرپشن پر سخت سزا کا قانون بنانے کی بات چلائی۔ اس حوالے سے اسمبلی میں ہونے والی پیشرفت شور شرابے کے بعد پانی کا بلبلہ ہی ثابت ہوئی۔ ایک دوسرے کو چور کہنے والوں نے ایوان میں کرپشن کے خلاف پیش کی گئی تحریک کو ایسے گھمایا کہ وہ نجانے کہاں کھوکر رہ گئی۔ ویسے بھی ان تین سالوں میں کوئی ایک بھی ایسی کارکردگی نہیں ملتی جس کے لیے انہیں عوام نے منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجا ہے۔ پورے ایوان میں اب تک اراکینِ اسمبلی میں صرف ایک ہی قدرِ مشترک نظر آتی ہے‘ یہ کہ مراعات اور الائونسز کا بروقت اور باقاعدگی سے حصول۔ صرف یہی ایک ایسا کام ہے جس میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس پرسارے راضی اور متفق ہیں۔ بات ہورہی تھی نازک دور اور نازک موڑ کی توطاقتور لوگوں کے احتساب کا کریڈٹ لینے والوں کو خبر ہوکہ نازک دور کے اثراتِ بد احتساب کے عمل پر بھی نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ اہم اور طاقتو ر شخصیات سمیت تمام ہائی پروفائل کیسز کا کریڈٹ جس افسر کوجاتا ہے وہ مخصوص عناصر کے نشانے پر ہے۔ شریف برادران سے لے کر طاقتور بیوروکریٹس سمیت دیگر اہم سیاستدان اور لینڈ مافیاز کے سامنے ایک ہی ہدف ہے کہ کسی صورت ڈی جی نیب لاہورکا تبادلہ کہیں دور دراز کروا دیا جائے۔ عوام کی جمع پونجی پر موجیں اڑانے والے جعلی ہائوسنگ سوسائٹیز کے مالکان ہوں یا سرکاری وسائل اور قومی خزانے کو باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والی سیاسی و انتظامی اشرافیہ‘ سبھی کا مشترکہ ہدف یہی محسوس ہوتے ہیں۔ محلاتی سازشوں میں سرگرم عناصر وزیراعظم سمیت رائے عامہ کو بھی اس طرح گمراہ کررہے ہیں جبکہ شریف برادران ہوں یا چوہدری برادران‘ بااثر اور طاقتور سرکاری بابو ہوں یا دیگر سیاسی اشرافیہ‘ سبھی نیب کے بارے میں کھل کر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور بس اس انتظار میں ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ اپنا حساب چکا ڈالیں۔ کارِ سرکار کی ادائیگی کے دوران اپنی ذات کی پروا نہ کرنے والے نیب افسران نے تو اپنے اہل خانہ کو بھی دائو پہ لگا ڈالا جبکہ یہ مضحکہ خیز اور بھونڈا الزام لگانے والے خود بے ضابطگیوں اور کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے کے باوجود اپنی دھن میں مگن ہیں۔ آگے سرکار جانے سرکار کی ترجیحات جانیں۔