"AAC" (space) message & send to 7575

مہنگائی اور بگلاپکڑنے کا طریقہ

نجانے کب سے اپنے کتنے ہی ارادے خود توڑے چلا جا رہا ہوں۔ مجہول سیاست اور حالات کا جپھا اتنا مضبوط ہے کہ میں ہر بار اس کے آگے کمزور پڑ جاتا ہوں۔ سوچا تھا کہ کالعدم (سابق) ٹی ایل پی پر حکومتی چیمپئنز کے خیر سگالی بیانیوں کے نئے ایڈیشن اور معاہدے پر مزید خون جلانے کے بجائے سماجیات اور اخلاقیات پر کچھ لکھا جائے لیکن ہمارا سماج اور اخلاق بھی تو سیاست کی سولی چڑھ چکا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود کوئی صورت نہیں نکلتی کہ ماتمی حالات اور آلودہ سیاست سے بچ کر کسی اور موضوع کو کالم میں زیر بحث لایا جا سکے۔ جہاں من مانی ہی طرزِ حکمرانی ہو اور سماج اس کے نتائج بھگت بھگت کر ہلکان ہو چکا ہو‘ اخلاقی قدریں لیر و لیر ہوں اور معاشرے کے ہر مسئلے کی تان گورننس اور میرٹ پر جا ٹوٹتی ہو وہاں کیسا سماج اور کہاں کی اخلاقیات؟ ہر طرف سیاست ہی سیاست اور اس سے جڑے حالات کا ماتم ہو تو کون اس سے لاتعلقی اختیار کرسکتا ہے۔ کوئی کتنا ہی بے نیاز کیوں نہ ہو۔ خلقِ خدا سے بے نیازی کیسے برتی جا سکتی ہے؟
اسی سال اپریل کے مظاہروں کے نتیجے میں ٹی ایل پی کو کالعدم کرنے کے فیصلے کو اکتوبر کے مظاہرے اور معاہدے کی رو سے حکومت خود ہی کالعدم قرار دینے جا رہی ہے۔ اس طرح تنظیمی معاملات آزادانہ چلانے کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر بھی ٹی ایل پی پر کوئی ممانعت نہ ہوگی۔ دونوں طرف سے فراخدلی اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ حکومتی سینیٹر اعجاز چوہدری تو سعد رضوی کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں جبکہ انتخابی دنگل میں بھی ایک دوسرے کا حریف بن کر اترنے کے بجائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اترنے کی تھیوری مارکیٹ میں خوب رش لے رہی ہے اور دھرنوں کو بنیاد بنا کر 32 اعلیٰ پولیس افسران میں سے کچھ ادھر ادھر اور کچھ دربدر کرنے کے بعد حکومت دھرنے کے حالات کی ذمہ داری پولیس پر ڈال چکی ہے؛ تاہم چند قانونی امور طے پانے اور سعد رضوی کی رہائی کے بعد منظرنامے کے رنگ مزید واضح ہو جائیں گے اور سبھی ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ مگر ستر سے زائد کالعدم تنظیموں کی طرف سے کیا ردعمل اور کیا مطالبہ ہوگا یہ حکومتی فیصلے اور معاہدے کی تفصیلات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
بہرحال تشدد اور خوف و ہراس کی فضا کا خاتمہ خوش آئند ہے۔ عوام کو اس دوران کیسی کیسی مشکلات اور مسائل کا سامنا رہا۔ کاروبارِ زندگی کی بندش کی وجہ سے پہلے سے پریشان حال عوام کے مصائب میں کتنا اضافہ ہوا۔ کاش حالات اس نہج پر پہنچنے سے پہلے ہی کچھ اقدامات اور پیش بندیاں کرلی جاتیں تو تشدد اور ہلاکتوں کے نتیجے میں جو تماشا پوری دنیا نے دیکھا وہ نہ ہوتا‘ لیکن ہمارے ہاں مسئلے پیدا کرکے اور حالات خود بگاڑنے کے بعد ترلوں منتوں سے معاملہ سلجھا کر ہیرو گیری کا رواج خاصا پرانا ہے۔ وطن عزیز کو ایسی صورتحال کا اکثر سامنا رہتا ہے۔ جلائو گھیرائو، توڑ پھوڑ اور ماردھاڑ کے علاوہ ملکی املاک اور شہریوں کی جائیدادوں اور گاڑیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں سرکاری نقصان کے ساتھ ساتھ عوام کو جس ناقابل برداشت نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا کوئی پرسانِ حال ہے نہ کوئی ذمہ دار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں طرف شہدا کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں اور انہیں اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا جاتا ہے؛ تاہم سپرد خاک ہونے والوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کرنے والے ایک معمہ ہی رہتے ہیں۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین معاہدے کے بعد جب یہ طے پاچکا ہے کہ مل کر اور ہنسی خوشی رہنا ہے تو اب مزید راکھ کریدنے کے بجائے غالب پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ؎
جلا تھا جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
غالب کی اسی غزل کا ایک اور شعر پیشِ خدمت ہے جو طرز حکمرانی اور عوام کی حالتِ زار کی عکاسی اس طرح کرتا ہے کہ شعرکا ایک ایک لفظ دھاڑیں مارتا اور اعراب آہ و زاری کرتے دکھائی دیتے ہیں:
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
بات چل نکلی ہے عوام کی حالت ِزار کی تو اب یہ کہاں رکے گی۔ روکنا بھی چاہوں تو کیسے روک سکتا ہوں۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں عوام کو جو ریلیف پیکیج دیا تھا اس کے انڈے بچے نکلنا شروع ہو چکے ہیں۔ یہ انڈے بچے کبھی پٹرول کی صورت میں تو کبھی اشیائے ضروریہ کی شکل میں حکومتی دعووں اور بڑھکوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے والوں سے ریکوری کے دعوے کرنے والے التجائیہ بیانیے جاری کررہے ہیں۔ دھرنے کے دنوں میں قوم کو بتایا جاتا تھا کہ پٹرول اور اشیائے ضروریہ مہنگی ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آپ کا وزیر اعظم چور ہے۔ اب تازہ ترین بیانیوں کے تازہ ترین ایڈیشن میں قوم کو یہ بتایا جا رہا ہے مہنگائی کا تعلق بین الاقوامی منڈی کے اتار چڑھائو سے ہوتا ہے۔ جن کے نام سے گھن کھایا کرتے تھے اور جن کے لتے لینے کے لیے بہانے تلاش کیے جاتے تھے آج ان کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ دو خاندانوں سے ذاتی لڑائی نہیں ہے۔ انہی خاندانوں سے ملتمس بھی ہیں کہ وہ اپنی دولت کا نصف واپس لے آئیں تو چیزوں کی قیمتیں آدھی کردیں گے۔
قوم سے حالیہ خطاب کے دوران مہنگائی ختم کرنے کا یہ انوکھا فارمولا قوم کو بتا کر وزیراعظم نے گیند دو سیاسی خاندانوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے اور اب وہ عوام کو یہ باور کروانے پر بضد ہیں کہ ان کا وزیراعظم مہنگائی ختم کرکے قیمتیں نصف کرنے پر آمادہ ہے لیکن یہ دو خاندان ان کی اس قومی خدمت کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے ہیں۔ اگر یہ اپنی دولت کا نصف لوٹا دیں تو ملک میں چیزوں کی قیمتیں نصف ہو سکتی ہیں اور وزیراعظم کے اسی فارمولے کے تحت اگر ساری رقم ہی لوٹا دیں تو یقینا اشیائے ضروریہ مفت بھی دستیاب ہو سکتی ہیں۔ یہ اچھوتا اور انوکھا فارمولا قوم کیلئے یقینا ایک اور دھچکے سے کم نہیں۔ جس طرح انہوں نے انتہائی سادگی سے کہہ ڈالا تھا کہ برسر اقتدار آنے سے پہلے انہیں قطعی اندازہ نہیں تھا کہ معیشت کے حالات اس قدر نازک اور خراب ہیں‘ عین اسی طرح تازہ ترین خطاب میں وزیراعظم اپنی ذمہ داری سے پھر پہلوتہی کرتے ہوئے دو سیاسی خاندانوں سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے کچھ مدد کریں۔ اگر مہنگائی کے خاتمے کا یہی فارمولا کارگر قرار دینا تھا تو تین سال سے اچھل کود کیوں جاری تھی؟
مہنگائی کے خاتمے کے فارمولے سے مجھے وہ بگلا یاد آ رہا ہے جسے پکڑنے کے لیے برادرم شعیب بن عزیز ایک طریقہ بتایا کرتے ہیں۔ حکومت اس طریقے سے استفادہ کرتے ہوئے اقتدار کی بقیہ مدت بہ آسانی گزار سکتی ہے۔ بگلا پکڑنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ ایک بگلا ڈھونڈیں اور اس کے سر پر موم رکھ کر اسے دھوپ میں کھڑا کر دیں۔ جوں جوں موم پگھلے گی بگلے کی آنکھیں بند ہوتی چلی جائیں گی جونہی آنکھیں مکمل بند ہو جائیں تو بگلا پکڑ لیں۔ یہ ہے بگلا پکڑنے کا صحیح طریقہ جسے مہنگائی کے خاتمے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں