"AAC" (space) message & send to 7575

ارکان اسمبلی کاگھر نہیں چلتا

پنجاب اسمبلی کے ارکان کا گھر نہیں چل رہا۔ باقی سب اللے تللے‘ موج مستیاں آنیاں جانیاں‘ تام جھام بدستور جاری ہونے کے باوجود ان کا گھر نہیں چل رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رحم دل سپیکر نے ایجنڈے کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن کو الائونسز میں اضافے کی قرارداد پیش کرنے کا موقع فراہم کیا اور کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف سبھی اس قومی مسئلہ پر نہ صرف اکٹھے ہوگئے بلکہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور بھی کرلی گئی۔ کورونا سے عام آدمی رُل کررہ گیا‘ ڈینگی نے حکومتی اقدامات کی قلعی کھول دی‘ مہنگائی نے عوام کی صرف کمر ہی نہیں توڑی بلکہ قوتِ خرید بھی کرچی کرچی کرڈالی ہے‘ لیکن تعجب ہے ان سبھی مصائب کے پیش نظر عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے ارکان اسمبلی کی جیبیں مزید بھرنے کے لیے الائونسز میں اضافہ کردیا گیا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ اسمبلی کے اجلاس تقریباً چالیس ماہ سے جاری ہیں اور عوام کی حالت یوں ہے جیسے چالیسویں کی دری پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ اپنے کرچی کرچی خوابوں‘ لہو لہو ارمانوں اور ٹوٹی ہوئی آسوں کے مزار پر بیٹھے عوام سے بے نیاز یہ ارکان اسمبلی کس منہ سے ایوان میں کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ 'ان کا گھر نہیں چلتا‘؟ اگر ان کا گھر نہیں چلتا تو عام آدمی کی کون سی ملیں چل رہی ہیں۔
عوام کو کھربوں میں پڑنے والے عوامی نمائندے جواباً عوام کو کیا لوٹا رہے ہیں؟ سوائے دھوکوں‘ جھانسوں اور جھوٹی تسلیوں کے دیا ہی کیا گیا ہے عوام کو؟ عوام کی حالت بدلنے کے بجائے اپنی دنیا سنوارنے میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کی وعدہ خلافیاں اور بے وفائیاں عوام کے دن کا چین اور راتوں کی نیند برباد کرچکی ہیں۔ یہ سوال بھی انتہائی اہم ہوتا چلا جارہا ہے کہ ملک کے کسی بھی کونے سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوتے ہی عوامی نمائندے (رکن اسمبلی) کا میٹر ڈائون ہو جاتا ہے۔ اس کے نہانے دھونے سے لے کر شیو اور کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ سمیت شہرِ اقتدار تک کے سفری اخراجات‘ پھر وہاں شاہانہ قیام و طعام سمیت سبھی اخراجات ملک و قوم پربوجھ ہیں۔ عوام تو ان اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس پر ان کی وعدہ خلافیوں اور بے وفائیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور سرکاری پوزیشن کے بل بوتے پر معیارِ زندگی بلند کرنے کی سبھی وارداتیں عذابِ مسلسل سے کم نہیں۔ ایسے میں یہ طرزِ حکمرانی آخر کب تک؟
حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک یہ سماج سیوک نیتا کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ بھلے گراوٹ کے کتنے ہی ریکارڈ کیوں نہ توڑنے پڑیں‘ بے دریغ توڑتے چلے جاتے ہیں۔ اخبارات کا ڈھیر سامنے پڑا منہ چڑا رہا ہے کہ ہماری سرخیاں بھی وہی ہیں اور شہ سرخیاں بھی وہی‘ سماج سیوک نیتاؤں کے بیانات بھی وہی ہیں اور بلند بانگ دعوے بھی وہی‘ خبریں بھی وہی ہیں‘ تحریروں میں گورننس اور عوام کی حالتِ زار کا ماتم بھی وہی‘ چہروں اور کردار کی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی وہ سب کچھ اسی طرح جاری جو کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہاہے‘ صرف نام بدلتے ہیں یا مقام بدلتے ہیں۔ کبھی برسرِ اقتدار ہوتے ہیں تو کبھی اپوزیشن میں بیٹھ کر شعلہ بیانیاں کرکے عوام کے درد میں نڈھال ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ غرض یہ کہ بدلتے چہرے ہوں یا بدلتے کردار‘ یہ حزبِ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں‘ ان کی نیت کے اثرات سے عوام کسی دور میں محفوظ نہیں رہے۔
کاش ایسا ہوتا کہ عوامی نمائندے عوام کے استحقاق کیلئے اکٹھے ہوئے ہوتے۔ ان عوام کیلئے آواز اٹھائی ہوتی جو ان کے دعووں اور وعدوں میں آ کر ہر بار مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی ہو یا شہری سہولیات‘ ان سبھی سے بے نیاز عوامی نمائندوں کو عوام کی حالتِ زار پر تو کبھی رحم نہ آیا۔ اپنے ضمیر پر کیسا کیسا بوجھ اٹھائے ایوان میں سج دھج کر آ بیٹھتے ہیں۔ عوام سے وعدہ خلافیوں اور بدعہدیوں میں ڈوبے ہر دور میں صرف اپنے ہی بت کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا دیگر سکینڈل‘ یہ انہیں اپنا استحقاق سمجھ کر نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں۔ لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا ایوان کے اندر بیٹھ کر اپنی دنیا سنوارنے کی دھن‘ سیاسی سرکس میں قلابازیاں ہوں یا ایوان میں لگا اکھاڑا‘ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو یا دست و گریباں ہونے کے واقعات‘ دشنام طرازی ہو یا تندوتیز جملوں کا تبادلہ‘ الغرض عوامی مسائل سے بے نیازی کے سبھی مناظر کو قانونی تحفظ دینے کیلئے‘ کیا حلیف کیا حریف‘ سبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے نظر آتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں استحقاق بل کے تحت کیمرے اور قلم کو ارکان اسمبلی کے تابع کرنے کا معاملہ ہو یا ارکان کی مراعات اور الائونسز میں اضافے کی قرارداد‘ یہ سبھی کچھ عوام کے لیے کسی واردات سے کم نہیں۔ ذاتی طور پر قائل ہوں کہ چوہدری شجاعت حسین کی بیماری اور سیاسی معاملات سے دوری نے چھوٹے صاحب کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کو واضح کر دیا ہے۔ میڈیا اور مفادِ عامہ سے جڑے معاملات میں ان کا ویژن اوردور اندیشی مسلم لیگ (ق) کیلئے ہمیشہ کارآمد نسخہ ثابت ہوتی رہی ہے۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں شادی بیاہ میں ون ڈش کی پابندی بغضِ شہباز شریف میں ختم کی گئی لیکن چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعلیٰ کو باقاعدہ خط لکھ کر ہدایت کی تھی کہ ون ڈش کی پابندی برقرار رکھی جائے۔ اسی طرح فردوس عاشق اعوان کا پنجاب اسمبلی میں داخلہ بند کرنے کے فیصلے کو بھی انتقامی کارروائی کا نام دیا گیا۔ چھوٹے صاحب سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کے سینئر نائب صدر سلیم بریار سے نالاں ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر بھی خاصے برہم تھے جس کا اظہار انہوںنے داخلہ بند کرکے کر ڈالا۔ وہ تو فردوس صاحبہ ہی کچھ لحاظ کر گئیں‘ ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا۔ان کے ان اقدامات میں بڑے صاحب کی شخصیت اور طرزِ سیاست کی جھلک نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد صحت یاب کرے۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ساڑھے پانچ ارب سے زائد کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والی پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کے معیار پر اٹھائے جانے والے سوالات کا معمہ بھی آج نہیں تو کل ضرور حل ہو گا۔ لگتا ہے اپنے ہاتھوں بھرتی کیا گیا واجبی تعلیم کا حامل ایک کلرک پے در پے شولڈر پروموشن کے بعد آسانیوں کے بجائے آزمائشوں کے ڈھیر لگائے چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسمبلی کا ایک اور افسر اپنے بیٹے کو گریڈ 17 میں خلافِ ضابطہ بھرتی کر کے میرٹ پسندی کو چار چاند لگا چکا ہے۔ اس خلافِ ضابطہ بھرتی کی خبر چلانے والے قلم اور کیمروں کی جبر کے نتیجے میں روزگار سے محرومی کا کریڈٹ بھی اسی سیکرٹریٹ کو ہی جاتا ہے۔
اے پروردگار! اے خالق و مالک! یہ کیا تماشا ہے؟ اس ملک میں بسنے والوں نے ابھی اور کیا کچھ دیکھنا ہے؟ نسل در نسل رُلتے یہ بندے کہاں جائیں؟ کہاں جاکر سر پھوڑیں؟ کس کے آگے دہائی دیں؟ کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں؟ ان پر کیسے کیسے حکمران مسلط ہوئے‘ ووٹ کے لیے منتیں اور ترلے کرنے والے ان کے سماج سیوک نیتا اسمبلیوں میں جا کر کیسے کیسے گل کھلاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں