یقینا زمین بھی غم اور صدمے سے صرف نڈھال ہی نہیں ماتم اور بین بھی کرتی ہو گی کہ اس کے سینے پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں۔ صدمات اور سانحات ہیں کہ عذابِ مسلسل کی طرح نجانے کب سے مسلط چلے آرہے ہیں۔ اب تو کہیں آسمان گرتا ہے اور نہ ہی زمین پھٹتی ہے۔ شاید زمین اور آسمان بھی تھک چکے ہیں۔ آسمان کہاں کہاں گریں اور زمین کہاں کہاں پھٹے؟ دلخراش واقعات سے لے کر المناک سانحات تک‘ بربریت سے لے کر حشر اٹھانے تک کیسے کیسے صدمات مقدر بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف افراتفری‘ نفسانفسی‘ مارومار اور اودھم کا سماں ہے۔ سماجی قدریں لیرولیر ہیں تو اخلاقیات‘ اخلاق باختہ ہو چکی ہیں۔ قانون اور ضابطے طاقتور کے تابع اور اثرورسوخ کے آگے سرنگوں ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں۔ حروف لہو لہو ہوں تو کاغذ چھلنی چھلنی۔ قلم سے نکلتی سیاہی بھی آنسوئوں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ہر سطر سے خون ٹپک رہا ہو۔ اعراب آبلہ پا ہوں اور پورا کالم ہی سینہ کوبی پر آمادہ ہو۔ برسہا برس بیت گئے‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل گئے لیکن اس خطہ سیاہ بخت پر ٹوٹنے والی قیامتیں جوں کی توں جاری ہیں۔ نحوست بال کھولے سو رہی ہے یا سیاہ بختی پاؤں پسارے بیٹھی ہے۔ سانحات اور صدمات وطن عزیز کے کونے کونے میں گھات لگائے نظر آتے ہیں۔ شہر اقبال میں تیسرے دلخراش واقعہ پر اقبال کی روح بھی پریشان اور سراپا احتجاج ہوکر یقینا یہ کہتی ہوگی‘ بخدا میں نے ایسے ملک کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جس ملک کا خواب دیکھا تھا وہ تو بنا ہی نہیں‘ اور جو بنا برباد کرنے والوں نے اسے وہ رہنے ہی نہیں دیا۔ نہ پاکستان وہ رہا نہ نظریہ پاکستان۔ نیتِ بد اور نظر بد دونوں ہی ان سبھی کو کھاتی چلی گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ کھانے والے تو اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور جس وطن کو روز اول سے کھاتے چلے آئے ہیں اس کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔
ملول دل اور اداس طبیعت کے ساتھ گھنٹوں اکثر عجیب و غریب سی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی ڈپریشن ہے یا کوئی ناسٹلجیا‘ اور یہ خیال تو دل کا کام تمام ہی کیے دیتا ہے کہ اس دھرتی ماں پر کیسا کیسا اودھم اور کہرام مچایا جا رہا ہے۔ ان کیفیات میں پیدا ہونے والے وسوسے ہوں یا واہمے یہ سبھی کیسے کیسے اندیشوں اور خدشات سے دوچار کر ڈالتے ہیں۔ بے یقینی کے تاریکی اور اندھیروں کے ڈیروں نے ماحول اس قدر سوگوار اور مایوس کن بنا ڈالا ہے کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے۔ یا الٰہی! بس تیرا ہی آسرا ہے۔ اس خطۂ سیاہ بخت پر بسنے والوں نے اسے ایک ایسی بستی میں بدل ڈالا ہے جہاں سبھی اپنی اپنی مستی میں جی رہے ہیں۔ کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ‘ کیا حاکم کیا محکوم‘ کیا آجر کیا اجیر‘ سبھی اس دھرتی ماں سے خدا جانے کون سا خراج وصول کر رہے ہیں۔ انھیں اس دھرتی سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ کوئی خدائی قہر ہے۔
ان ماتمی حالات میں غالب کے اس مصرعہ کا سحر یوں جکڑ لیتا ہے کہ ہر آنے والے خیال پر غالب کا غلبہ یوں نظر آتا ہے: ع
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
سوگواری کے اس عالم میں خدا جانے یہ خیال کہاں سے آن ٹپکا کہ رضاعی ماں کے دودھ کا حق ادا نہیں ہوتا۔ جس عورت نے جنم نہ دیا ہو اور صرف چند گھونٹ دودھ پلایا ہو اس کا درجہ ماں سے کم نہیں۔ یہاں تو غیر ماں کا چند گھونٹ دودھ پینے والا اس رضاعی ماں کا حق ادا نہیں کر سکتا‘ اس عورت کی اولاد دودھ شریک ٹھہرتی ہے۔ ایک زمانے میں دودھ شریک بھائیوں کا بڑا مان اور سمان ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانہ بدلتا چلا جا رہا ہے اور اب دودھ شریک بھائی کم ہی دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں‘ لیکن حالات کی ستم ظریفی اور بدلتے ہوئے تیور نے خون شریک بھائی ضرور پیدا کر دیے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ جس طرح ایک عورت کا دودھ پینے والے سگے بھائی نہ بھی ہوں تو دودھ شریک بھائی کہلاتے ہیں اسی طرح دھرتی ماں کا مل کر خون پینے والے خون شریک بھائی ہوتے ہیں۔ ان بھائیوں کے منہ کو لگا خون چھڑائے نہیں چھوٹتا۔ نسل در نسل ملک پر کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے ہے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیرپھاڑ کر رہا ہے۔
کسی کا طرز حکمرانی خون پینے کے مترادف ہے تو کوئی منافرت پھیلا کر خون چوس رہا ہے۔ کوئی وسائل کو بھنبھوڑ رہا ہے تو کوئی ذاتی فائدوں کے لیے مسائل سے دوچار کیے چلا جا رہا ہے۔ کوئی فکری طور پر تباہ و برباد کررہا ہے تو کوئی نفسیاتی طور پر پارہ پارہ کررہا ہے۔ اس زمین پر دندناتے پھرتے یہ سبھی کردار وہ خون شریک بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو جائیں تو خون دھرتی ماں کا ہی پیتے ہیں۔ دھرتی کا خون پینے کی لت میں ایسے لت پت ہیں کہ حرام حلال‘ جائز ناجائز سے بے پروا سب کچھ بھنبھوڑے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی بنام دین تو کبھی بنامِ وطن۔ کوئی عاجزی کے تکبر میں مبتلا ہے تو کوئی تقویٰ کے تکبر میں۔ کوئی اس روش پر اندھا دھند بھاگ رہا ہے جس کا دین اور اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کوئی فروغ ثقافت میں اس طرح غلطاں ہے کہ اخلاقی و سماجی قدریں کرچی کرچی ہو چلی ہیں۔ نصاب اور تعلیم کے نام پر کہیں تاریخ مسخ کی جا رہی ہے تو کہیں شاندار روایات‘ کوئی شوقِ حکمرانی میں اپنے ایسے ایسے شوق پورے کیے چلا جا رہا ہے جو کبھی دیکھے نہ سنے۔ اختیارِ افسران اس قدر جارحانہ ہیں کہ سائل ان کی تاب نہیں لا سکتا۔ ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف ہوں یا ازلی دشمن دھرتی ماں کے وسائل کو بھنبھوڑنا ہو یا خون نچوڑنا ہو‘ اس کارِ بد میں سبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے خون شریک بھائی ہی ہوتے ہیں۔ روز اول سے لمحہ موجود تک‘ حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے ان سبھی میں خون شریک بھائی ہر دور میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ حکمران بدل جائیں یا خاندان‘ چہرے بدل جائیں یا وفاداریاں‘ ان سبھی خون شریک بھائیوں میں بس ایک خصلت مشترک ہے‘ دھرتی ماں کا خون پینا ہو یا خون نچوڑنا‘ خون چوسنا ہو یا بے جان جسم کی ہڈیوں کو بھنبھوڑنا‘ اس خونخوار کھیل میں ایک ہی ٹیم کے کھلاڑی اور خون شریک بھائی ہیں۔
شہر اقبال میں سڑکوں پر بربریت اور سفاکی کا ننگا ناچ ہمیں دنیا بھر میں ایک پھر رسوا کر چکا ہے۔ اس واقعہ پر لکھنے کی ہمت ہے نہ الفاظ۔ یہ المناک سانحہ کوئی انہونی اور نیا نہیں۔ ایسے واقعات تواتر سے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا حکمران کیا عوام سبھی کے درمیان مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر کچھ کرتے ہیں‘ اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ نبیﷺ کو ماننے والے‘ نبیﷺ کی ناموس پر اپنی آل اولاد اور جانیں قربان کرنے کے دعویدار ان کی تعلیمات کو کیسے فراموش کر جاتے ہیں۔ سیالکوٹ کی سڑکوں پر کس بے دردی سے ایک نہتے سری لنکن شہری کو مشتعل ہجوم نے اذیت ناک موت سے دوچار کرنے کے بعد لاش کو نذر آتش کر ڈالا۔ یہ ہولناک منظر آسمان نے کیسے دیکھا ہوگا اور زمین نے کیسے برداشت کیا ہو گا۔ بربریت کی بھینٹ چڑھنے والے کی بھٹکتی روح عالم ارواح میں یہ ضرور فریاد کرتی ہوگی کہ اے رب! یہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے نبیﷺ کی تعلیمات کے برعکس مجھے کس قیامت سے دوچار کر ڈالا۔ جس نبی رحمتﷺ نے ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اس کے امتی زمین پر کیا کر رہے ہیں۔
رحمت سید لولاکﷺ پر کامل ایمان
امت سید لولاکﷺ سے خوف آتا ہے