سیاسی بساط پر چلی جانے والی چالیں بادشاہ اور وزیروں سے لے کر گھوڑوں اور پیادوں تک سبھی کے حال اور مستقبل کی طرف واضح اشاروں کے ساتھ ڈرامائی اور جادوئی مرحلے میں داخل ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ Love & Hate کی پالیسی پر رواں دواں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر نئے عہد و پیمان کے ساتھ مفاہمت کی پینگیں بڑھانے پر متفق اور راضی نظر آتی ہیں۔ ایک طرف باپ بیٹا تو دوسری طرف چچا بھتیجی‘ سبھی کی آنیاں جانیاں اور مہمان نوازیاں حکومت کو گرانے اور گھر بھیجنے کے لیے ہی ہیں۔ طویل سرد مہری اور اختلافِ رائے کے بعد آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ شہباز شریف کی رہائش گاہ پر آئے جبکہ استقبال اور مذاکرات کرنے والوں میں مریم نواز صاحبہ بھی اپنے چچا اور چچا زاد کے ہمراہ تھیں۔
سیاسی رہنماؤں کا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اس طرح اکٹھے ہونا ہمارے ہاں نئی بات نہیں۔ مفادات اور اہداف مشترک ہوں تو ایسی سرگرمیاں ہماری سیاسی تاریخ کا پرانا رواج ہے۔ ماضی کے اوراق پلٹیں تو کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دوسرے کو عوام دشمنی سے لے کر وطن دشمنی تک کے طعنے دینے اور جھوٹے سچے مقدمات بنانے اور بد کلامی کی سبھی حدود پار کر جانے والی دو پارٹیاں 2007ء میں بحالیٔ جمہوریت کی مشترکہ کوششوں پر آمادہ ہو جائیں گی۔ واقفانِ حال سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہ تصور بھی محال تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت کے لیے کبھی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قرار دینے والے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو حصولِ اقتدار کے لیے میثاق جمہوریت کے نام پر بالآخر کیسے ایک ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے بعد آصف علی زرداری اور نواز شریف نے کس طرح بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی بن کر اقتدار کا بٹوارہ کیا اور چند ماہ بعد ہی یہ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کس طرح ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے۔
یہ سیاست ہے پیارے اس میں کسی کا کوئی بھائی ہے نہ بہن‘ کوئی دوست ہے نہ رفیق‘ ہم نوا ہے نہ کوئی ہم راز۔ ان کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہوتا ہے‘ وہ ہے مفادات کا رشتہ۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے شیروشکر ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے۔ جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہوا وہاں اصولی سیاست کا بخار اور عوام کا درد جاگ جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر واری واری جانے والے ایک دوسرے کو گھسیٹنے‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ آف دی ریکارڈ راز و نیاز پَل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس قدر گندا کیا جاتا ہے کہ کوئی حد نہیں۔
موجودہ سرکار کی احتساب آندھی میں تنکوں کی طرح اڑنے والوں نے خود کو آندھی کے اثرات اور نقصانات سے بچانے کیلئے کیسے کیسے حیلے کئے اور راستے نکالے۔ کھال بچائو پروگرام کے تحت حکومتِ وقت سے تعاون ہو یا سہولت کاری‘ سبھی کے عوض کسی نے امان پائی تو کسی نے جان بچائی۔ آج کے دوست کل کے دشمن۔ کل کے دشمن آج کے دوست۔ سیاست میں یہ دوستیاں دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں۔ نوازشریف کی بیماری اور وطن واپسی کو لے کر سیاسی پنڈت اور جغادری‘ سبھی اپنی اپنی ہانک رہے اور قلابے ملائے چلے جا رہے ہیں جبکہ نوازشریف بھی زرداری صاحب کی طرح اپنی چالیں خوب سوچ سمجھ کر اور جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے چلتے نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کی رپورٹیں ہوں یا واپسی‘ دونوں ہی اشارے اور مخصوص وقت سے مشروط ہیں۔
جارحانہ حکمت عملی اور شعلہ بیانیوں کا رسک لینے والے نواز شریف خوف اور خواہش کے درمیان اب پنڈولم نہیں رہے۔ سیاسی بساط پر ان کی بیشتر چالیں دوررس اور کارگر ثابت ہو رہی ہیں۔ خوف اور خواہش سے بے نیاز سیاسی منظرنامے پر نواز شریف کی اہمیت اور کردار وقت کے ساتھ اہم سنگ میل بنتا چلا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں نوازشریف غیرمتوقع طور پر ایسی لائن لے سکتے ہیں جوبعید ازقیاس اور وہم و گمان سے کوسوں دور ہو۔ وہ اقتدار سے کئی بار نکالے گئے۔ کئی بار لائے گئے۔ وہ اس طرح باربار لائے جانے اور نکالے جانے پر گھائل اور ملول ہیں۔ ان کے اندر مزاحمت اور عناد بڑھتا گیا ہے۔ ان سے یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ عمران خان سے تمام تر اختلافات کے باوجود مخصوص حالات میں تعاون کی پیشکش ہی کرڈالیں۔ ممکن ہے یہی وہ مخصوص حالات ہوں‘ جن کا وزیر اعظم نہ صرف اشارہ دے چکے ہیں بلکہ یہ تنبیہ بھی کرچکے ہیں کہ اگر مجھے نکالا تو میں زیادہ خطرناک ہوسکتا ہو۔
میرے خیال میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی اس جانشیں کو محفوظ حالات اور ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں‘ جسے وہ تخت نشیں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد کیسے کیسے حالات اور کون کون سے مصائب اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈرامائی حالات اور جادوئی تبدیلیاں کوئے سیاست میں ایسے حالات بجا طور پر پیدا کر سکتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)‘ جنہیں ایک دوسرے کی ضد سمجھا جاتا تھا‘ جب میثاق جمہوریت کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوسکتے ہیں توتحریک انصاف کیوں نہیں؟
سالِ رواں کئی حوالوں سے انتہائی اہم تبدیلیوں کا سال قرار دیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ان تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں جن کا سامنا اقتدار میں آنے اور نکالے جانے کے بعد کرنا پڑتا ہے۔ ان سبھی تجربات سے گزرنے کے بعد دونوں پارٹیوں کے سربراہان اپنے جانشینوں کو تخت نشین دیکھنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ مصائب اور جبر کے آگے کوئی پیش بندی یا بند بھی ضرور باندھنا چاہتے ہیں؛ تاہم خان صاحب کو بھی ایسے حالات کا تجربہ بھلے نہ سہی لیکن وہ مشاہدہ تو ضرور رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں ڈرامائی حالات اور جادوئی تبدیلیاں سیاسی شطرنج پہ چلی جانے والی چالوں میں تیزی سے اور غیرمتوقع شہ مات کا باعث بن سکتی ہیں؛ تاہم میرا اندازہ ہے کہ نواز شریف نہ تو کسی جلد بازی کا مظاہرہ کریں گے اور نہ ہی حکومت کو گھر بھجوانے کے لیے کوئی فیصلہ عجلت میں کریں گے۔ ان کے پیش نظر حصول اقتدار سے کہیں بڑھ کر وہ پیش بندی ہے جسے وہ کرگزرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کے ساتھ ساتھ کسی سے بھی ہاتھ اور قدم ملا سکتے ہیں‘ چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سبھی نیتا ایک دوسرے سے نمٹ اور بھگت لیتے ہیں‘ دلوں میں منافقت‘ بغض اور عناد رکھتے ہوئے بھی چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ایک دوسرے سے معانقے اور مذاکرات کرتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے کیونکہ ان سبھی کے اہداف اور مفادات مشترک ہیں‘ اور مفادات کے جھنڈے تلے یہ سب ایک ہیں۔
اس تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ اگر چشم تصور میں لایا جائے تو شوقِ اقتدار کے ہاتھوں مجبور یہ سارے سیاستدان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی ڈھال بنے اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مصیبت ہے جو عوام سے تغافل‘ بدعہدی اور بے وفائی کے نتیجے میں ان سب پر نازل ہونے والی ہے۔ جو جمہوریت ان سبھی نے عوام کے لیے مصیبت بنا ڈالی ہے وہ ان کے آگے آنے والی ہے اور یہ سب مل کر اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے ''میثاق مصیبت‘‘ کرتے نظر آئیں گے۔