پسپائی‘ رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے فیصلوں اور اقدامات کے پس پردہ کردار کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ ان حکمرانوں کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں عرفِ عام میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے چکر میں حکمرانوں کو بھی چکر دے جاتے ہیں جس کا خمیازہ اور نتائج بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے سیاسی ہوں یا انتظامی ان کے نتائج حکمرانوں کی سیاست اور ساکھ دونوں کو ہی یکساں متاثر کرتے ہیں۔ طرزِ حکمرانی اور کارکردگی روز بروز سوالیہ نشان بنتی چلی جائے تو گورننس اور میرٹ کے ساتھ ساتھ دعوے اور بیانیے بھی الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتے ہیں۔ اقتدار کی مٹھی سے مہلت کی ریت بھی تیزی سے سرکتی چلی جارہی ہے۔ ہرنئے دن کا سورج اختتام کی طرف سفر کا نیا پیغام لے کرآتا ہے۔
سیاسی تھیٹر کے سبھی کردار متحرک اور پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ مفاہمتی ملاقاتوں کے علاوہ جوڑ توڑ کے لیے سر جوڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ق) بھی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں سے ملاقاتوں اور رابطوں کی وجہ سے ممتاز اور اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت کو گرانے اور گھر بھجوانے کے دعوے اور بیانیے سیاسی ایوانوں میں ہلچل اور کھڑکی توڑ رش کا باعث ہیں۔ اقتدار کے سورج کی تمازت دھندلکوں میں کہیں کھوئی چلی جارہی ہے۔ دن ڈھلنے اور شام گہری ہونے جا رہی ہے۔ سیاسی جھکڑ کے ساتھ کچھ بجلیاں بھی چمک کر اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ خوف اور دھڑکے میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ کہیں عدم اعتماد کا شور ہے تو کہیں لانگ مارچ کا۔ حلیفوں کے حریفوں سے رابطے حکومت کے لیے باعثِ پریشانی ہونے کے باوجود 'میں نہ مانوں‘ کی من مانی بھی زوروں پر ہے۔
سیاسی تھیٹر کے کردار اور تیور بدلے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی موسمیات اقتدار کے مطلع کو ابر آلود اور گردآلود ہونے کے اشارے اور آنے والے دنوں میں طوفانی آندھیوں اورگرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش اور ژالہ باری کے خطرات سے مسلسل خبردار کررہا ہے۔ سیاسی محاذ پر جھڑپوں سے قبل کا منظرہے۔ صف بندی جاری ہے۔ درجہ بندی کے لیے مفاہمتی ملاقاتیں اور عہدوپیماں بھی عروج پر ہیں۔ جنگ سرپر مسلط ہے۔ لفظی گولہ باری اب مزاحمت اوراقدامات کی بمباری میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔ کائونٹ ڈائون کا طویل سفر طے کرنے کے بعد مہلت کے بچے کھچے مہینوں میں حکومت آج بھی قابلِ ذکر کارکردگی سے محرومی کے حیلے اور جواز گھڑتی اور پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔
حکومتی لوگ کبھی کہتے ہیں کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں اور کبھی اپنے کپتان کا ڈٹ کر دفاع کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ حکومت کی ڈی میں اپوزیشن کے کھلاڑی اکٹھے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ گول کیپر گول بچانے کے لیے شست باندھے ہوئے ہیں جبکہ شریک اقتدار اور حلیف جماعتیں بھی بڑے اپ سیٹ کا باعث بن سکتی ہیں۔ حالتِ جنگ میں انصاف سرکار کسی ٹھوس حکمتِ عملی کے بجائے اپنے وزرا کی کارکردگی جانچنے اور تلاش کرنے میں مگن ہیں جبکہ وزیر خارجہ سمیت کئی وزرا حکومتی رپورٹ اور طریقہ کار پر نالاں اور تائو کھائے پھرتے ہیں۔ وزرا کی کارکردگی کی حکومتی رپورٹ میں گیارہویں نمبر پرآنے والے شاہ محمود قرشی نے تو کارکردگی رپورٹ کے خالق ارباب شہزاد کو احتجاجی خط بھی ڈالا ہے کہ خارجہ محاذ پر میری خدمات اور کارکردگی کو کیوں تسلیم نہیں کیا گیا۔
وزرا کی انفرادی کارکردگی ہو یا مجموعی‘ سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کسی کے پلے کچھ نہیں۔ جن حکومتوں کی کارکردگی ہوتی ہے انہیں اپوزیشن سے نہ کوئی خطرہ ہوتا ہے نہ ہی اپوزیشن کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ یہ بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ اپوزیشن کی وجہ سے نہیں ہے۔ دل کے ڈوبنے کی وجہ وہ دعوے اور وعدے ہیں جن کا چند فیصد بھی پورا نہیں ہوسکا۔ راتوں کی نیندیں اس لیے اڑی ہوئی ہیں کہ جس طرزِ حکمرانی کے سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ طرزِ حکمرانی تو من مانی کی نذر ہوگئی۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے جس مہارت اور قابلیت کا صبح شام ڈھول پیٹا جاتا تھا کہ ہمارے ماہرین کی ٹیم ہوم ورک میں مصروف ہے‘ وہ سبھی دعوے اور باتیں جھانسے اور ڈھکوسلے ہی ثابت ہوئے۔ ہوائیاں اس لیے اڑی ہوئی ہیں کہ سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا بیانیہ تو منہ چھپائے پھررہا ہے۔ حواس اس لئے گم ہیں کہ قانون اور ضابطوں کی حکمرانی کے سبھی بھاشن قول و فعل کی ضد بن چکے ہیں۔ گویا ماضی کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑے جاچکے ہیں۔
ریکارڈ توڑنے کی دھن میں انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ اقتدار کی نصف سے زائد مدت گنوائی جاچکی ہے۔ کارکردگیاں جانچنے کا وقت توکب کا گزر چکا۔ آنے والا وقت تو کارکردگیاں دکھانے کا ہے۔ اڑھائی سال قبل وزیراعظم آفس سے ستائیس وزارتوں کو ریڈ لیٹرز جاری کئے گئے تھے۔ یہ ریڈ لیٹرز وزیراعظم ہائوس سے عدم تعاون اور ہٹ دھرمی کی بنا پر جاری کئے گئے تھے۔ کارکردگی تو درکنار یہ وزارتیں خالی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کرنے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی تھیں۔ خدا جانے مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میںکیا امر مانع اور کیا خطرات لاحق تھے۔ پوت کے پائوں تو پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ وزیراعظم کو پہلے سال ہی احساس ہو جانا چاہئے تھا کہ جن وزرا کو ایک سال میں ہی اقتدار سر کو چڑھ گیا وہ آگے جاکر کیاگل کھلائیں گے۔ صفر کارکردگی اور نامعلوم اہلیت کے حامل وزیروں اور مشیروں کی اس فوج کو نہ کسی وارننگ کی پروا ہے اور نہ ہی کسی لیٹر کی۔ ان کے نزدیک ریڈ لیٹر تو کیا کسی بھی سخت سے سخت لیٹر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے لیے نیلا‘ پیلا‘ لال‘سب برابر ہے۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آرہا۔ گویا وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمارا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بدحالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظرنامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
جہاں حال ماضی سے بدتر ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا آسیب‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔ مملکتِ خداداد کی حالتِ زار ڈھکی چھپی نہیں‘ تاہم اس کا مستقبل زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ عوام کا مستقبل اور خانہ خراب کرنے والے حکمرانوں کا اپنا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی ایک دوسرے کا عکس اور تسلسل نظر آتے ہیں اور ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔ اذیت کا یہ سفر عوام کو خدا جانے کب تک جھیلنا ہوگا۔ کوئی پرانے پاکستان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے تو کوئی نئے پاکستان پر نازاں ہے اور اترائے پھرتا ہے۔کاش عوام کا بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید نہ نئے پاکستان کا چورن بکتا اور نہ پرانے پاکستان کو کبھی یاد کیا جاتا۔