جناب وزیر اعظم نے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھجوانا ان کی بڑی غلطی تھی۔ انہوں نے شہباز شریف کو کمزور دل قرار دینے کے علاوہ مریم نواز پر ججز کو ڈرانے کا الزام بھی لگایا۔ ان کا ایک اور دلچسپ بیانیہ توانائی کے دو ذرائع اور اسمبلی کو چلانے کے حوالے سے تھا۔ توانائی کے دو ذرائع کے نام استعارے کے طور استعمال کئے گئے اس لئے ان پر تبصرہ بھی استعاروں اور اشاروں میں ہی بنتا ہے۔ بہرحال توانائی کے ایک استعاراتی ذرائع پر چلنے والی حکومت کے بارے زبان زدِ عام ہے کہ جس توانائی سے یہ سسٹم چلایا جا رہا ہے اس کی تمازت اور روشنی میںکمی کے اشارے اب واضح نظر آرہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس سسٹم میں توانائی کے بحران کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔ توانائی کے ایک سورس پر چلنے والی مشینری ہو یا اسمبلی‘ توانائی کے متبادل ذرائع اگر مطلوبہ پرفارمنس فراہم کرنے میں ناکام ہوں تو نہ صرف اس سورس کی یاد ستاتی ہے بلکہ اکثر مشینری کو دوبارہ اسی پر منتقل کرنا بھی پڑ جاتا ہے۔ خیر یہ تو ایک مکینیکل کام ہے جسے انجینئرز اور ٹیکنیشنز ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس چیز کو توانائی کے کون سے سورس پر چلانا ہے۔ یہ فیصلہ ڈرائیو کرنے والے ہی بہتر کر سکتے ہیں کہ انہیں ہموار ڈرائیونگ کے لیے کون سے ذرائع بہتر اور موزوں لگتے ہیں۔ ماضی میں توانائی کے ایک سورس پر انحصار کیا جاتا رہا؛ تاہم اس سورس سے دوسرے سورس پر منتقل ہونے کے باوجود کے پی کے میں ڈرائیو کا مزہ بدلنے کے لیے کہیں کہیں پہلے والے سورس پر واپسی ہو رہی ہے جبکہ یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ پختونخوا میں یہ واپس منتقلی سورس سے بیزاری ہے یا ڈرائیورکی ڈیمانڈ ہے جبکہ پرفارمنس کی شکایات اور ناہموار ڈرائیونگ کے جھٹکے تو روزِ اول سے ہی محسوس ہونے لگے تھے۔ خیال رہے کہ سواریوں کی رائے اور مرضی کی تو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی حیثیت۔ بسا اوقات ڈرائیونگ کا ذائقہ بدلنے کے شوقین گاڑی میں پٹرول کی جگہ ڈیزل انجن رکھوا لیتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد واپس پٹرول انجن پر آ جاتے ہیں؛ تاہم دونوں کا متبادل گیس بھی بن سکتی ہے۔ ماضی میں سی این جی کلچر نے اکثریت کو اپنی طرف رجوع کرنے پر مجبور کر ڈالا تھا؛ تاہم گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گیس کو بطور توانائی استعمال کرنے کا زور بھی کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔
آنے والے دنوں میں سولر سسٹم کے استحکام کے حوالے سے صورتحال الارمنگ ہونے کے استعارے اور اشارے تو مل ہی رہے ہیں لیکن متبادل ذرائع پر منتقلی کے دعوے بھی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ وزرا کا کہنا ہے کہ اپوزیشن مقتدرہ سے ڈیل کی کوششیں کر رہی ہے لیکن اس دعوے پر بھی تاحال قائم ہے کہ نہ صرف ہاتھ انہی کے سر پر ہے بلکہ ایک پیج بھی برقرار ہے جبکہ اپوزیشن عدم اعتماد کو لے کر خاصی پُراعتماد ہے۔ صورتحال دن بدن ڈرامائی اور جادوئی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تختِ پنجاب کے دھڑن تختے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے جبکہ چوہدری برادران کو پہلی مرتبہ کھلی پیشکش بھی کی جا چکی ہے کہ تعاون اور مفاہمت کی صورت میں تختِ پنجاب بھی انہیں دیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد کی آبیاری سے لے کر پروان چڑھانے تک بھر بھر مشکیں ڈالنے والے اور برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت سازی میں ناقابلِ تردید کردار ادا کرنے والے جہانگیر ترین بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں اور ملاقاتوں کے بعد ترپ کا پتا بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں ان کا سیاسی وزن فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم ہائوس میں براجمان ایک اہم سرکاری بابو اور سابق مشیر احتساب کی جھوٹی سچی بریفنگز کے ساتھ ساتھ حکومتی بے رخی نے ناگزیر اہمیت کے حامل جہانگیر ترین کو صرف ترین بنانے کے لیے جس طرح گمراہ کیا‘ آج وہ عقدہ بھی کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے وہ سبھی چہرے کس کمالِ مہارت سے وزیر اعظم سے دور کر کے بدگمانی کے کیسے کیسے بیج بوتے رہے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کی وزارتِ داخلہ کے پہلے انچارج وزیر شہریار آفریدی کو کس طرح داخل دفتر کرنے کے علاوہ کیسے کیسے جانثاروں کو بد دلی اور بے وقعتی کی کھائیوں میں دھکیلتے رہے ہیں۔ آج سرکار کے اصل چہرے گمشدہ جبکہ مہمان اور درآمدی چہرے بااختیار اور فیصلہ ساز بن کر گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کئے چلے جا رہے ہیں۔
ان فیصلہ ساز مشیروں نے حالات اور مقبولیت کے گراف کو کہاں سے کہاں لا پٹخا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے عرصۂ اقتدار میں تبدیلی کے ترانے سن کر سر دھننے والے کہیں سر پیٹتے تو کہیں بال نوچتے نظر آتے ہیں۔ خوش حالی کے سہانے خوابوں سے لے کر سماجی انصاف اور کڑے احتساب کے دعووں سمیت نجانے کیسے کیسے بیانیے بدعہدیوں اور یوٹرنز کی نذر ہو چکے ہیں۔ انقلابی جدوجہد کے خطیر اخراجات اٹھانے سے لے کر سیاسی جوڑ توڑ اور سازگار حالات کی علامت‘ سبھی قریبی جاں نثاروں کو اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی نذر تو پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اگر خان صاحب کے خدشات درست ثابت ہوئے اور انہیں سڑکوں پر نکل کر اپوزیشن کا ایکشن ری پلے چلانا پڑا تو ماضی کے جاں نثاروں کا حشر نشر دیکھنے کے بعد کوئی جاں نثاری کی تمنا کیوں کرے گا؟
جوں جوں سیاسی موسم اقتدار کے مطلع کے ابر آلود اور گردآلود ہونے کے اشارے دے رہا ہے آنے والے دنوں میں طوفانی آندھیوں اورگرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش اور ژالہ باری کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی جھکڑ کے ساتھ کچھ بجلیاں بھی چمک کر اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ خوف اور دھڑکے میں اضافے کااحساس دلاتی بھی نظر آئیں گی۔ کہیں عدم اعتماد کا شور ہے تو کہیں لانگ مارچ کا۔ حلیفوں کے حریفوں سے رابطے حکومت کے لیے باعثِ پریشانی ہونے کے باوجود میں نہ مانوںکی من مانی بھی زوروں پر ہے۔ سیاسی تھیٹر کے کردار اور تیور بدلنے کے ساتھ ساتھ سولر سسٹم کو بحران کا سامنا بھی ہو سکتا ہے جس کی تمازت اور روشنی ہی لائف لائن ہے۔ وزیراعظم تین سال سے ڈیزل کے بغیر چلنے والی اسمبلی کو سولر سسٹم کا کمال تو قراردے رہے ہیں لیکن وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں۔
کوئے اقتدار میں بھی ہلچل اور بے چینی کا سماں ہے۔ ہر گزرتا دن کائونٹ ڈائون کی طرف اشارہ کر رہا ہے جبکہ سیاسی بساط پر بادشاہ اور وزیروں سمیت گھوڑے اور پیادے بھی اپنی اپنی پوزیشن پر اشارے اور اگلی چال کے منتظر ہیں۔ جنگ سر پر ہے‘ لفظی گولہ باری اب مزاحمت اور اقدامات کی بمباری میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ شمسی توانائی کی لوڈشیڈنگ یا کوئی بڑا جھٹکا سسٹم کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف ایک سسٹم شارٹ ہونے کے خطرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں بلکہ متبادل ذرائع پر منتقلی کے امکانات بھی ممکنات میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی ہے۔ کائونٹ ڈائون کا طویل سفر طے کرنے کے بعد مہلت کے بچے کھچے مہینوں میں کارکردگی دکھانے کے بجائے سرکار آج بھی کارکردگی جانچنے میں مگن ہے۔ جتنی محنت ایک پیج پر ثابت کرنے پر کی جارہی ہے کاش اس کا نصف عوام اور سرکار کو ایک پیج پر لانے پر صرف کی جاتی تو آج حیلے اور جواز تراشنے نہ پڑتے۔