"AAC" (space) message & send to 7575

پہچان بدلتی گئی اور جان نکلتی گئی

کھڑکی توڑ رش چوہدری برادران کی رہائش گاہ سے نکل کر‘ راستہ بدل کر علیم خان اور جہانگیر ترین کے گرد طواف کرتا نظر آرہا ہے۔ چار دن توجہ اور ناگزیر اہمیت کا محور بننے کے بعد ایک بارپھر ظہور الٰہی ہائوس کی رونقیں ماند پڑچکی ہیں۔ کیسی کیسی انائوں، بغض اور ضد کو سُلا کر چوہدریوں کے پاس سوالی بن کر آنے والے شہباز شریف ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری اور بیزار و بے نیاز عمران خان‘ سبھی نے چوہدری برادران کے گھر کے چکر لگا کران کی اہمیت اور وزن کو فیصلہ کن بنا ڈالا تھا‘ لیکن عبدالعلیم خان نے جہانگیر ترین کے گھر جاکر ساری بازی ہی پلٹ دی ہے۔ میڈیا سے کی گئی گفتگو اور باڈی لینگویج سے یہ کھلا پیغام ضرور ملا ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے تحریک انصاف کو نہیں چھوڑا‘ بلکہ تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے کے بعدان دونوں کو چھوڑ دیا۔ ان کے لب و لہجے کے ساتھ ساتھ بلا کا اعتماد اس امر کا غماز تھاکہ ان کا یہ اقدام 'تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے اجنبیت، بیزاری اور بے وقعتی کے مسلسل مظاہرے کا نتیجہ ہے۔
جہانگیر ترین کے ساتھ بھی حالیہ اکثر ملاقاتوں میں حکومتی رویے پر غصہ کے بجائے دکھ اور صدمہ ہی نظر آیا۔ سیاسی جدوجہد سے لے کر طویل ترین دھرنوں تک‘ پارٹی انتخابات سے لے کر عام انتخابات تک‘ حکومت سازی سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک‘ جوڑ توڑ سے لے کر ساز باز تک‘ رائے عامہ سے لے کر منظرنامہ بدلنے تک‘ گاڑیوں سے لے کر جہازوں تک‘ ایک ہی نام اہم ترین رہا ہے۔ جدوجہد سے لے کر برسر اقتدار آنے تک‘ پارٹی میں ان کی موجودگی تحریک انصاف کو یوں ممتاز کرتی تھی کہ بس‘ حالانکہ جو کاروبار وہ ماضی میں کیا کرتے تھے وہی کاروبار ان کے آج بھی ہیں۔ جو شوگر ملیں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے چلا رہے تھے وہی آج بھی ہیں۔ یہی شوگر ملیں تھیں‘ یہی ان کی کمائی تھی جو وہ دھرنوں اور انتخابات میں صرف کرتے رہے۔ حکومت سازی کے لیے رائے عامہ سے لے کر منظرنامہ بدلنے تک‘ جہانگیر ترین کی لگژری گاڑیوں سے لے کر جہازوں سمیت دیگر وسائل تک‘ کیا کچھ نچھاور نہیں کیا گیا‘ ان اَن گنت خدمات کی وجہ سے ہی خان صاحب کے مخالفین انہیں جہانگیر ترین کا نام لے کر اے ٹی ایم کا طعنہ بھی دیتے رہے ہیں۔
برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان پر گویا اچانک ہی انکشاف ہوا کہ جہانگیر ترین کی ساری کمائی شوگر‘ سٹہ اور بلیک مارکیٹنگ کی مرہون منت ہے اور وہ اپنی صفوں میں کوئی ایسا شخص برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں جو بلیک مارکیٹنگ اور سٹہ کا مرتکب ہو۔ اس لیے ان کی خدمات کا حساب چکانے کے لیے انہیں مشکل ترین حالات سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کو جہانگیر ترین سے متنفر کرنے کے لیے چیمپئنز نے کیسی کیسی قلابازیاں اور کیسے کیسے کمالات نہیں دکھائے۔ قریبی ترین بابوز سے لے کر مصاحبین اور مشیروں تک سبھی نے بداعتمادی اور غلط فہمیوں کی چنگاریوں کو ہوا دے کر اس پر اس طرح تیل ڈالا کہ باہمی احترام سمیت سبھی وفاداریاں اور جاں نثاریوں کے علاوہ نجانے کیا کچھ بھسم کرڈالا۔
احتساب کے نام پر ملک وقوم کو چونا لگا کر رفوچکر ہونے والے مشیر نے وزیراعظم کو خدا جانے کس طرح شیشے میں اتار رکھا تھاکہ وہ قائل ہوگئے کہ جہانگیر ترین کے خلاف ہر طرح کی کارروائی نہ صرف حکومت کی ساکھ کو چار چاند لگا رہی ہے بلکہ بلاامتیاز احتساب کا تاثر بھی خوب اجاگر ہو رہا ہے۔ اس طرح ہر خاص و عام کو اچھی طرح کان ہو جائیں گے کہ جب جہانگیر ترین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں برتی گئی تو باقی کس کھیت کی مولی ہیں؟ گزشتہ برس جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ درج ہونے تک وزیراعظم کو اسی لیے بے خبر رکھا گیا تھا کہ ان چیمپئنز کا کہیں نشانہ چوک نہ جائے۔ بعدازاں وزیراعظم کوتوجیہ کے طور پر یہ جواز پیش کیا گیا کہ شہباز شریف کے خلاف کارروائی کے لیے جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ درج کرنا ضروری تھا‘ بصورت دیگر جانبداری کا سوال اٹھایا جا سکتا تھا۔ یہ کہ احتساب میں جانبداری کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو بَلی کا بکرا بنایا ضروری ہے اور وزیراعظم بھی اس نرالی منطق کو تسلیم کر لیا بلکہ ان کے صاحبزادے علی ترین پر بھی مقدمے کے علاوہ خاندان بھر کے اکائونٹ بھی منجمد کرڈالے۔ عمران خان کو جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت نجانے کتنے جاں نثاروں سے بدگمان ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کا حساب اور احتساب کون کرے گا۔ بدگمانیوں کا بیج بونے والے ہوں یا اختلافات کو ہوا دے کر متنفر کرنے والے۔ سبھی کے ایجنڈوں اور دھندوں کا خمیازہ بہرحال حکومت کو ہی بھگتنا ہے۔ ماضی کے جاں نثاروں کا حشر نشر دیکھ کر کوئی جاں نثاری کی تمنا اور اعتبار کون کر سکتا ہے؟
جس طرح کوئی اپنی کمر کا تل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح حکمران بھی اپنے ہی کیے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لاعلم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں گے اور یہ کیسے کیسے مسائل اور انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ عزائم بھی کمر کے اُس تِل کی طرح ہی اوجھل ہوتے ہیں‘ جلد یا بدیر جن کے نتائج بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تارتار کرنے کے علاوہ بدنامیاں اور لمبا مال سمیٹ کر اکثر مشیر تو اڑن چھو ہو چکے جبکہ ایوان وزیراعظم میں ایک سرکاری بابو تاحال بااختیار اور براجمان ہے۔
کئی مرتبہ عرض کرچکا ہوں کہ کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں جبکہ بھنور میں پھنسی ہچکولے کھاتی اقتدار کی کشتی پر سوار سبھی چیمپئنز ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کیسے کیسے عذر اور جواز تراشتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاں کا بنایا گیا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا ہے۔ سوراخ کرنے کے اس مقابلے میں ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلے کا سماں ہے۔ پنجاب سیاسی اکھاڑے کا مرکز بن چکا ہے۔ بزدار سرکار پر سہم کا عالم ہے جبکہ خود کو عثمان بزدار کا متبادل تصور کرنے والوں کے خواب بھی نہ صرف چکنا چور ہوتے دکھائی دیتے بلکہ سودے بازی کی سیاست کے ساتھ ساتھ حلیفوں کے ناز نخروں کے بھی حصے بخرے دکھائی دیتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب کو ان اسباب اور عوامل کے ساتھ ساتھ ایسے کرداروں پر بھی نظرثانی کرنی چاہئے جن کی وجہ سے آج وہ اندرونی مزاحمت کے ساتھ مشکل ترین حالات سے دوچار ہیں۔ کئی کردار تو نظرثانی سے پہلے ہی اپنا ایجنڈا اور دھندا کرکے دکان بڑھا چکے جبکہ دیگر شریک اقتدار اپنی دھن میں بدستور مگن ہیں۔ وزیر ہوں مشیر‘ سرکاری بابو ہوں یا دیگر سر چڑھے مصاحبین‘ سبھی نے مل کر وزیراعظم کو ناصرف گمراہ کیا بلکہ ان جاں نثاروں سے بھی بدگمان اور دور کرڈالا جو تحریک انصاف کی اصل جان اور پہچان تھے۔ وزیراعظم جوں جوں تحریک انصاف کی پہچان بدلتے گئے توں توں جان ہی نکلتی چلی گئی۔ اب یہ عالم ہے کہ فیصلہ سازی پر فائز غیرمقبول اور غیرمنتخب مشیروں نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات تو دور کی بات سر پر آئے پنجاب کے بلدیاتی انتحابات تحریک انصاف کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ پہچان بدلنے کے نتیجے میں ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز اور پختونخوا کے بلدیاتی نتائج تو پہلے ہی جان نکال چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں