شیشے کے گھر میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو پتھر مارنے والے سبھی سیاسی رہنما شاید پتھر دل ہو چکے ہیں۔خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی دھن میں مخالفین کو دھوئے چلے جارہے ہیں۔مملکت خداداد پر حکمرانی کے جوہر دکھانے والوں کے فیصلوں اور اقدامات کی فصل کاٹتے کاٹتے عوام کے ہاتھ جہاں لہولہان ہو چکے وہیں یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ پون صدی میں اس زمین پر سبھی حکمران کوڑھ ہی کاشت کرتے رہے ہیں اوراس کے اثراتِ بد نے پورا سسٹم ہی کوڑھ زدہ کرڈالا ہے۔اس کوڑھ کی کاشت نے ہماری زمین قہر زدہ کرڈالی ہے۔زمین کو قحط کا سامنا ہو تو تھوڑی بہت محنت کے بعد اسے سیراب کیا جاسکتا ہے لیکن قہر زدہ زمین کو نہ زرخیز کیا جاسکتا ہے نہ ہی سیراب اور نہ ہی اس زمین سے ہریالی اور خوشحالی کی امید لگائی جاسکتی ہے۔آزمائے جانے والے حکمرانوں نے مل کر اس زمین پر جو کوڑھ کی فصل بوئی ہے اس نے زمین کے ساتھ ساتھ ماحول کوبھی زہر آلود کردیا ہے۔ملک کے طول و عرض میں طرزِحکمرانی کے اثرات ِبد ہوں یا اقتدار کی طلب میں بے تاب ہونے والوں کے ماضی کے کارنامے‘ ان سبھی کو بھگتنے والے عوام کی کتنی ہی نسلیں خاک میں مل کر خاک کا رزق بن چکی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ خاک پر رُل رہے ہیں۔ گویا کوئی خاک میں تو کوئی خاک پر۔بس اتنا سا خلاصہ ہے اس مملکت میں بسنے والی مخلوق اور اس کی حالتِ زار کا۔
آئین اور ضابطے عوام کی سہولت اور مملکت کا نظام چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر یہاں تو کچھ بھی چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک مملکت خداداد کا سیاسی منظر نامہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مملکت اور نظام دونوں پر جمود طاری ہے۔شوقِ حکمرانی کے ماروں نے ملک کی گاڑی کو ایسی دلدل میں لا پھنسایا ہے کہ سبھی حکمران کھڑی گاڑی کو کچھ اس طرح چلاتے رہے ہیں کہ دلدل میں دھنسے ٹائر برابر چلتے بھی رہے اور گھستے بھی رہے ہیں‘لیکن کیا مجال کہ گاڑی ایک انچ بھی آگے بڑھی ہو۔اس پر ستم یہ کہ کھڑی گاڑی کے ٹائر گھسانے کے علاوہ اس پر پٹرول ‘ مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات بھی بدستور برداشت کئے جارہے ہیں‘البتہ دلدل میں دھنسے ٹائر جو چھینٹے اڑا رہے ہیں ان کے اثرات ملک کے کونے کونے میں دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔اس پر کمال یہ کہ سبھی حکمران کھڑی گاڑی پر ڈرائیونگ کے کرتب دکھاتے رہے ہیں۔پون صدی گنوانے کے باوجود کوئی مائی کا لعل گاڑی چلانا تو درکنار دلدل سے بھی نہیںنکال پایا۔جب تک گاڑی ٹریک پر نہیں آئے گی تو کیونکر چلے گی؟اقتدار کی گاڑی پر تیز رفتاری کے جوہر دکھانے والے ہوں یا کرتب دکھانے والے ‘سبھی کو خبر ہو کہ وہ کھڑی گاڑی پر ہی نہ صرف پٹرول پھونکے جارہے ہیں بلکہ انجن کا انجرپنجر بھی ہلا رہے ہیں۔ ان حالات کی مزید وضاحت کے لیے افتخار عارف کا یہ شعر بجا طور پر حسب ِحال ہے ؎
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
گھر کیوں نہیں آیا؟ اس کا جواب کھڑی گاڑی دوڑانے والوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی نہیں۔خدارا ایک دوسرے کی ڈرائیونگ میں نقص نکالنے کے بجائے یہ تو دیکھ لیں کہ گاڑی کسی دور میں ایک انچ بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔شیشے کے گھر میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر پتھرائوکے منظر نے نہ صرف عوام کی آنکھیں پتھرا ڈالی ہیںبلکہ اب تو عوام بھی پتھر کے ہو چکے ہیں۔پون صدی سے ایک کے بعد دوسرا‘دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد پھر پہلاڈرائیور ہی اقتدار کی گاڑی پر آن بیٹھتا ہے۔نتیجہ اور مسافت کل بھی صفر تھی اور آج بھی صفر ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نظام حکومت اور سیاستدان ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ سوال دن بہ دن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ آخر کب تک دلدل میں دھنسی گاڑی پر پٹرول‘ مرمت اور دیکھ بھال کے بھاری اخراجات ہوتے رہیں گے؟گاڑی چلانے والو ں کا کمال یہ بھی ہے کہ صفر مسافت کے ساتھ گاڑی کے ٹائر بھی برابر تبدیل ہورہے ہیں، اکثر نئے ٹائروںکی قیمت وصول کرنے کے بعد پرانے ٹائر پھر لگا دیے جاتے ہیں۔ بار بار آزمائے ڈرائیوروں اور نئے کی قیمت میں پرانے ٹائروں پر اخراجات کرنے کے بجائے گاڑی کو پہلے دلدل سے نکالنا ہوگاپھر کہیں جا کر وہ سفرشروع ہوگا جس کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا۔ویسے بھی دلدل میںکئی دہائیوں سے دھنسی یہ گاڑی اس قدر تعفن زدہ ہوچکی ہے کہ اس کی بُو نے پورے ملک کی فضاکواس طرح مکدر کرڈالا ہے کہ سانس لینا بھی محال ہے۔
تعجب ہے کہ ہر دور میں شریکِ اقتدار رہنے والے کس ڈھٹائی سے اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں۔ نسل در نسل ملک و قوم پر حکمرانی کے شوق پورے کرنے والوں کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ ان کی نیت اور ارادوں کے سبھی بھید تو کھل چکے ہیں۔ ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ذاتی مفادات اور موجیں مارنے والے سیاسی رہنماؤں کا کوئی تو انت ہونا چاہیے ۔ملک و قوم سے کھلواڑ کرنے والوں کا کوئی تو انجام ہونا چاہئے۔ جہاں طرزِ حکمرانی ہی کوڑھ زدہ ہو وہاں ہر طرف قہر اور زہر ہی ہوتا ہے۔عوام سے بد عہدیوں کی طویل تاریخ ہو یا غیرتِ قومی سے بے نیازی ‘ان سبھی سے کوئی تو پوچھنے والا ہونا چاہئے۔تمام سیاسی اشرافیہ آزمائی جاچکی ہے۔ ان میں سے کئی خاندان تو نسل در نسل عوام کی کتنی ہی نسلیں برباد کر چکے ہیں۔ شوقِ حکمرانی اور اقتدار کی ہوس سے کوئی بھی نہیں بچا ۔کیا نئے کیا پرانے۔سرکاری خرچ پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے والے جمہوریت کے ہر چیمپئن کے اللوں تللوں سمیت تمام اخراجات قومی خزانے سے پورے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے انہوں نے عوام کوآج تک کیا دیاہے؟ ایوان کے اجلاسوں کے سبھی منظرگواہ ہیں کہ قانون سازی اور مفادِ عامہ کے سوا وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا‘ کڑھتا اور شرمسار بھی ہوتا ہے۔ عوام کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مزے کی بات یہ کہ ان کے مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہو وہاں یہ سبھی آن کی آن میں اکٹھے نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف کیا حریف ‘باہمی مفاد کے جھنڈے تلے سبھی ایک ہو جاتے ہیں۔
ان سبھی سیاسی رہنماؤں کے بیانیے ایک بار پھر مارکیٹ کیے جارہے ہیں۔نئی بساط بچھائی اور گھات لگائی جاچکی ہے۔ایک بار پھر دلدل میں دھنسی گاڑی کو چلانے کیلئے ڈرائیوروں میں کشمکش جاری ہے‘ مگرگاڑی کو دلدل سے نکال کر ٹریک پر رواں دواں کرنے اور کوڑھ زدہ زمین کو زرخیز کرنے کیلئے من مانی کی طرزِ حکمرانی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔پون صدی کی بدعہدیاں ہوں یا بداعمالیاں‘ان سبھی کے ازالے اور مداوے کیلئے عوام کا بیانیہ بھی مارکیٹ ہونا چاہئے۔ مقتدر حلقوں کو کم از کم 10سے 15 سال پر محیط ریلیف پلان لانا ہو گا۔ بلا تمیزو لحاظ اور مصلحت سے پاک‘ ملک و قوم کے مفادات کے عین مطابق عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو ملک و قوم کا دشمن ڈکلیئر کر کے ریاستی عملداری کو حرکت میں لانا ہو گا۔ تب کہیں جا کرکوڑھ زدہ زمین زرخیز ہو گی اور ملک کی گاڑی دلدل سے نکل پائے گی۔