آج مصمم ارادہ تھاکہ مجہول سیاست پر بات نہیں کریں گے نہ ہی ملک بھر میں لگے سیاسی دنگل پر کوئی تبصرہ کریں گے‘ بیانیہ سازوں اور بیانیہ فروشوں پر بھی الفاظ ضائع نہیں کریں گے۔ کوئے سیاست کے شرمناک مناظر سے لے کر اقتدار کی غلام گردشوں تک کسی کو بھی زیر بحث نہیں لائیں گے۔ حصول اقتدار کے لیے دھمال ڈالنے والے ہوں یا طولِ اقتدار کے لیے کمال کرنے والے‘ کسی کے بارے میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کریں گے۔ گورننس کے گورکھ دھندے پر بات کریں گے اور نہ میرٹ کے تار تار ہونے کا رونا روئیں گے۔ اپنے اپنے سیاسی دیوتائوں کی اندھی تقلید کرنے والی قوم نما رعایا کی بھیڑ چال اور اندھی تقلید کا ماتم بھی نہیں کریں گے۔ مگر کیا کریں‘ راج نیتی کے اس کھیل میں کیسے کیسے کھلواڑ اخلاقی قدروں سے لے کر آئین اور قانون کی پامالی کا باعث بنتے چلے آ رہے ہیں۔ پتا ہی نہ چلا کہ رحمتوں اور برکتوں والا ماہ رمضان کب شروع ہو کر اختتام کو آ پہنچا۔ نفسا نفسی اور گھمسان کے رَن میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ سبھی دینی و اخلاقی تعلیمات اور رمضان کی فضیلت اور ماہِ مقدس کی روح کے منافی ٹھہرا۔ رواداری سے لے کر صبروتحمل تک بنیادی اوصاف سے انحراف کرنے والی سیاسی اشرافیہ کو آئین اور ضابطوں کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ اقتدار کی لت میں لت پت یہ سبھی ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں اس حد تک جا چکے ہیں کہ احترامِ آدمیت سے لے کر اداروں اور ایوانوں کا تقدس تک سب پامال ہو کر رہ گیا ہے۔
کیسے کیسے مغالطے دور ہونے کے ساتھ ساتھ روپ بہروپ بھی کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ خاندانی روایات سے لے کر سیاسی رواداری تک ‘ رکھ رکھائو سے لے کر مان سمان تک سبھی کی قلعی کھلنے کے ساتھ ساتھ زمانوں سے بنے بھرم بھی شرم سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا معاملہ اکھاڑے سے اگلے مرحلے میں داخل ہوکر وار زون بن چکا ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں کیسے کیسے قد کاٹھ والے بونوں کو مات دے چکے ہیں۔ سکیورٹی اور انتظامی مشینری کے کل پرزے سرکار کے ملازمین بننے کے بجائے ذاتی ملازم بنے پھر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسمبلی کی عمارت بھی سراپا احتجاج ہو گی کہ اس کے سینے پر مونگ دلنے والوں نے کہاں کمی چھوڑی ہے۔ ان سبھی کو خدا جانے کس بات کا زعم ہے۔
سقراط نے کیا خوب کہا تھا کہ میں جاہل ہوں اور میرے ارد گرد رہنے والے بھی جاہل ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنی جہالت کو جان گیا ہوں۔ کاش اس قوم کو بھی اپنی جہالت کا ادراک ہو سکتا۔ انہیں بھی یہ یاد ہوتا کہ جنہیں بے پناہ چاہتے اور سروں پر بٹھائے پھرتے ہیں پھر انہی سے پناہ مانگتے ہیں۔ سقراط کا یہ قول کتنا بڑا الارم ہے جو صبح‘ دوپہر‘ شام بجتا ہی چلا جا رہا ہے لیکن کوئی اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ بوئے سلطانی ہو یا شوقِ حکمرانی‘ آدم بیزاری ہو یا انکارِ رواداری‘ خود پسندی ہو یا خود فریبی‘ منصب کا رعب ہو یا علمیت کا زعم‘ یہ سبھی جہالت کی اقسام ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی جہالت کو کھوجنا ہو گا اور جو اپنی جہالت کو جان گیا وہ اپنا آپ پہچان گیا۔ اسی جان پہچان کا نام زندگی ہے۔
ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر ایک بار پھر لوٹ کر آنے والوں تک سبھی نے مملکت خداداد کو خدا جانے کیا سمجھ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کی جائیداد کے لیے لڑے جا رہے ہیں۔ اقتدار کو اپنا حق سمجھنے والے حقوق العباد کے معاملے میں صفر پائے گئے ہیں۔ یہ جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے مینڈیٹ دینے والی رعایا کو کبھی ثانوی حیثیت بھی نہ دی۔ سیاست کو تجارت بنانے والوں نے اس گورکھ دھندے کو اس طرح پروان چڑھایا کہ آئین اور قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدریں تک زمیں بوس ہوتی چلی گئیں۔ ایک ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی بد ترین بحران کے بعد انگار وادی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جمہوریت کے حسن کو مزید چار چاند لگانے کے لیے مزید کارنامے بھی جاری ہیں۔ ایسے میں دھرتی بھی غم اور صدمے سے صرف نڈھال ہو کر بین کرتی ہو گی کہ اس کے سینے پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں۔ صدمات اور سانحات ہیں کہ عذابِ مسلسل کی طرح نجانے کب سے مسلط چلے آ رہے ہیں۔ اب تو کہیں آسمان گرتا ہے اور نہ ہی زمین پھٹتی ہے۔ آسمان کہاں کہاں گریں اور زمین کہاں کہاں پھٹے؟ دلخراش واقعات سے لے کر المناک سانحات تک‘ بربریت سے لے کر حشر اٹھانے تک کیسے کیسے صدمات مقدر بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف افراتفری‘ نفسا نفسی‘ مارومار اور ادھم کا سماں ہے۔ سماجی قدریں لیرولیر ہیں تو اخلاقیا ت پامال ہو چکی ہیں۔ کہیں آئین لب بستہ ہے تو کہیں قانون اور ضابطے گونگے بہرے دکھائی دیتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں۔ حروف لہو لہو ہیں تو کاغذ چھلنی چھلنی۔ قلم سے نکلتی سیاہی بھی آنسوئوں کی طرح دکھائی دیتی ہے‘ جیسے ہر سطر سے خون ٹپک رہا ہو۔ اعراب آبلہ پا ہیں اور پورا کالم ہی سینہ کوبی پر آمادہ ہے۔ برسہا برس بیت گئے‘ کتنی ہی رتیں اور موسم بدل گئے لیکن اس خطے کے بخت جوں کے توں ہیں۔ سانحات اور صدمات وطن عزیز کے کونے کونے میں گھات لگائے نظر آتے ہیں۔ اقبال کی روح بھی پریشان اور سراپا احتجاج ہو کر یقینا یہ کہتی ہو گی‘ بخدا میں نے ایسے ملک کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جس ملک کا خواب دیکھا تھا وہ تو بنا ہی نہیں‘ اور جو بنا برباد کرنے والوں نے اسے وہ رہنے ہی نہیں دیا۔ نہ پاکستان وہ رہا نہ نظریہ پاکستان۔ نیتِ بد اور نظر بد دونوں ہی ان سبھی کو کھاتی چلی گئیں اور اب یہ عالم ہے کہ کھانے والے تو اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور جس وطن کو روزِ اول سے کھاتے چلے آئے ہیں اس کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔
ملول دل اور اداس طبیعت کے ساتھ گھنٹوں اکثر عجیب و غریب سی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی ڈپریشن ہے یا کوئی ناسٹلجیا‘ اور یہ خیال تو دل کا کام تمام کئے دیتا ہے کہ اس دھرتی پر کیسا کیسا ادھم اور کہرام مچایا جا رہا ہے۔ ان کیفیات میں پیدا ہونے والے وسوسے ہوں یا واہمے‘ یہ سبھی کیسے کیسے اندیشوں اور خدشات سے دوچار کر ڈالتے ہیں۔ بے یقینی کی تاریکی اور اندھیروں کے ڈیروں نے ماحول اس قدر سوگوار اور مایوس کن بنا ڈالا ہے کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے‘ یا الٰہی بس تیرا ہی آسرا ہے۔ اس ملک میں بسنے والوں نے اسے ایک ایسی بستی میں بدل ڈالا ہے جہاں سبھی اپنی اپنی مستی میں جی رہے ہیں۔ کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ‘ کیا حاکم کیا محکوم‘ کیا آجر کیا اجیر‘ سبھی اس دھرتی سے خدا جانے کون سا خراج وصول کر رہے ہیں۔ انہیں اس سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ کوئی خدائی قہر ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ دھرتی کا خون پینے والے خون شریک بھائی ہیں۔ نسل در نسل ملک پر کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے ہے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیر پھاڑ کر رہا ہے۔ ان بھائیوں کے منہ کو لگا خون چھڑائے نہیں چھٹتا۔