خدا جانے یہ اقتدار سے نکالے جان کا صدمہ ہے یا اقتدار میں دوبارہ آنے کی شدتِ طلب‘سبھی کچھ دائو پر لگانے کے علاوہ ایسے ایسے دائو پیچ کھیلے جارہے ہیں کہ الامان الحفیظ۔عام انتخابات میں جن اداروں کی عزت اور توقیر کو سلامیاں پیش کرتے نہیں تھکتے تھے آج ان کے خلاف کھلے عام ہرزہ سرائی کے لیے ایسا سٹیج لگایا جاچکا ہے کہ سبھی کردار بے نقاب ہوچکے ہیں۔ کئی بار عرض کرچکا ہوں پاکستان کے استحکام اور بقاسے لے کرسارا بھرم قومی اداروں کے مرہونِ منت ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کی کردار کشی کرنے والوں نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو انہیں ہی نہیں آئندہ نسلوں کو بھی وہ قیمت چکانا پڑ سکتی ہے جو ان کی اوقات اور بساط سے باہر ہے۔سپہ سالار سے لے کر مورچوں میں جانیں ہتھیلی پر لیے سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سرفروشوں کے بارے میں زہر اگلنے والوں سے لے کر ان کے پیروکاروں تک خدا جانے کس بھول میں ہیں۔کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ یہ مملکت خداداد کسی کے باپ دادا کی وراثتی جائیداد نہیںجس پر یہ شوقِ حکمرانی پورا کرنے سے لے کر اپنے مصاحبین کو پالتے ر ہیں۔
غیر مہذب اور اخلاق باختہ گفتگو سے لے کر گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے کے علاوہ سرچڑھے مصاحبین اور شریکِ اقتدار وزیروں مشیروں کو کیسے کیسے لائسنس دے رکھے تھے‘اس بارے اب کون نہیں جانتا۔ کسی نے احتساب کے نام پر تو کسی نے گورننس کے نام پر‘ کسی نے اصلاحات کے نام پر تو کسی نے نام نہاد قابلیت کے نام پروہ اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف دکھائی دیتا تھا۔ اگر کسی کو نظر نہیں آیا تو صرف سیاسی رہنماؤں کو نظر نہیں آیا۔ تخت پنجاب میں وہ ادھم مچایا گیا کہ صادق اور امین کے معنی الٹ کر رکھ ڈالے گئے۔پوسٹنگ اور ٹرانسفر سے لے کرمفاد عامہ کے ٹینڈروں تک ہائوسنگ سوسائٹیوں پرکڑے اعتراضات کے باوجود ان کی سہولت کاری سے لے کر آبادکاری تک‘سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندربانٹ تک‘ایسی ایسی انجینئرڈ واردات کے قصے زبان زد عام رہے گویا کوئی لوٹ مار کی گینگ وار چل رہی ہو۔تختِ پنجاب سے لے کر وزیروں اور مشیروں اور سرچڑھے سرکاری بابوئوں سے چشم پوشی تو رہی ایک طرف اب ان کے دفاع میں بھی کود پڑے ہیں۔مگرواقفانِ حال سے لے کر عوام الناس تک کون نہیں جانتا کہ سابقہ دور میں اہم ترین تقرریاں تبادلے ہوں یا سرکاری دفاتر میں بڑے پیداواری کام‘ ان سبھی کے پیچھے کچھ خاص نام زبان زدِ عام رہے۔ اب ان ساری کہانیوں کے کیسے کیسے ناقابل تردید ثبوت نہ صرف منظر عام پر آچکے ہیں بلکہ احتساب کرنے والا ادارہ بھی حرکت میں آچکا ہے مگر سابق حکمرانوں کی طرف سے دفاعی بیانات پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ جانے نہ جانے‘ گل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے۔
کون نہیں جانتا کہ سابقہ دور میں بعض خاص لوگوں کس طرح کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔ وزیر اور اعلیٰ سرکاری عہدیدارو ں تک ہر ایک ان کے جائز ناجائز حکم کی تعمیل کرتا نظر آتا تھا۔ انتظامی مشینری میں بھی مذکورہ شخصیات کی مداخلت کے اثرات پر خاموشی اورچشم پوشی اختیار کی جاتی رہی۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت چاپلوسی اور خوش آمد پر کیوں مجبور تھی؟مال بنانے سے لے کر انتظامی رِٹ کو تہ و بالا کرکے خود کو بلند و بالا ثابت کرنے والے‘ مگراعلیٰ ایوانوں تک رسائی اور پذیرائی کے سوال پر لاجواب دکھائی دینے والے‘ کس منہ سے کرپشن کا بیانیہ فروخت کررہے ہیں؟ قومی اداروں کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے کے بجائے انہیں وہ اسباب اور وجوہات تلاش کرنی چاہئیں جن کی وجہ سے کوئے اقتدار سے ان کی بے دخلی ہوئی۔ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ سے لے کر امورِ حکومت چلانے کے لیے جن وزیروں اور مشیروں پر مسلسل انحصار کرتے رہے ان کی اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر ہی نکلتی رہی‘لیکن ضد اور اصرارکے باعث اصلاح سے مسلسل کتراتے رہے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ قومیں غلطیوں سے نہیں غلطیوں پر اصرار اور ضد سے برباد ہوتی ہیں۔
زبان و بیان کی احتیاط سے عاری اور اخلاق سے تہی‘ کیسے کیسے بدزبان شعلہ بیانوں نے اس ملک کے حکمرانوں کو مسلسل آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے۔ خوش آمد اور شخصیت پرستی کی دوڑ میںایک دوسرے پر سبقت لے جانے والوں نے زمینی حقائق کے برعکس بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے زور پر کیسے کیسے ناموافق اور غیر مقبول فیصلے کروا ڈالے۔ان فیصلوں کا بوجھ اٹھانے والے آخر کب تک یہ بوجھ اٹھائے چلے جاتے؟پیش بندی کے طور پرجاری کیے جانے والے بیانیے عمران خان صاحب کے ہوںیا ان کے پیروکاروں اور مصاحبوں کے‘ سبھی کے اندر ایک ایسا انجانا خوف انہیں پریشان اور بے چین کیے ہوئے ہے جس کی حقیقت بس یہ خود ہی جانتے ہیں۔افشاہونے کا خوف ہو یا بے نقاب ہونے کا‘خوف تو خوف ہی ہوتا ہے۔مگرخوف اور خواہش کے درمیان جھولنے والے انسان اکثر پنڈولم بن کر رہ جاتے ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔اسی لیے کہتے ہیں کہ اقتدار انعام سے کہیں بڑھ کرامتحان ہوتا ہے‘ جو حکمران اسے امتحان کے طور پر نہیں لیتا اسے کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے اوراس امتحان کا نتیجہ نامرادی‘ناکامی‘ پسپائی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے مملکت خداداد میں قدرت نے جسے بھی گورننس جیسی نعمت سے نوازا وہ اسے عطا کے بجائے اپنی ہی کسی ادا کا چمتکار سمجھ بیٹھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ارد گرد اکٹھے ہوجانے والے چاپلوسوں اور خوش آمدیوں سے لے کر سرکاری بابوئوں تک سبھی مل کر اقتدار کا ایسا نشہ چڑھاتے ہیںجو اقتدار سے اترنے کے بعد ہی اترتا ہے۔گویا؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
دیوانہ بنانے والے ہر دور میںنہ صرف کثرت سے پائے جاتے ہیںبلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر ایسی مت مارتے ہیں کہ شاہ کو ان کے سوا نہ کچھ سجھائی دیتا ہے اورنہ ہی کچھ سنائی دیتا ہے۔تاہم قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف خوامخوا ہ محاذ کھولنے کے بجائے ان مت مارنے والوں کی نشاندہی کریں جو آج بھی مزید مت ماررہے ہیں۔ ممنوعہ علاقوں میں خلاف قانون سیاسی پارٹی کے جھنڈے لیے داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کا ویڈیو کلپ ہو یا ایک نجی چینل پر فیصل واوڈا کی خان صاحب کے بارے گفتگو‘ یہ سبھی کردار مت مارنے والے ہی نہیںبلکہ ہرمحاذ پر مروانے والے بھی ہوتے ہیں۔
خدارا اقتدار کی طلب میں اس قدر خود غرض ہوکر دیوانہ وار پتھر مارنے سے پہلے اپنے شیشے کے وہ گھر یادرکھیںجو اپنے دور ِاقتدار میں بناتے چلے گئے۔وہ کانٹے نہ بچھائیں جنہیں چنتے چنتے عوام کے ہاتھ ہی لہولہان ہوجائیں۔گمراہ کن بیانیہ فروشی ملک و قوم کو بڑی آزمائش سے دوچار کرسکتی ہے۔اس ملک و قوم کے علاوہ اس کی سلامتی کے ذمہ داروں کی خیر مانگیں۔ انہیں کمزور کرکے اقتدار میں آنے کی دھن میں یہ ضرور یادرکھیں کہ کسی کی حکمرانی کے بغیر ملک چل سکتا ہے لیکن ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا۔اپنے ماضی اور حال پر غور کرنے کے لیے کچھ وقت نکالا کریں۔پورے ملک کا احتساب کرنے سے پہلے خوداحتسابی‘ریکارڈ کی درستی کے علاوہ درست سمت کے تعین میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ مت مارنے والے بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔