اخبارات کے ڈھیر میں اکثر خبریں کبھی منہ چڑاتی نظر آتی ہیں تو کبھی تمسخر اُڑاتی۔ عمران خان کئی ماہ سے اپنی حکومت گرائے جانے کے اسباب اپنے جلسوں اور بیانیوں میں تواتر سے بتارہے ہیں۔ قوم کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں کس کا کیا کردار تھا۔ عدم اعتماد کے بعد مقبولیت کا جو سفر عمران خان نے ریکارڈ مدت میں طے کیا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غیرمعمولی پذیرائی اور مقبولیت کے باوجود عمران خان کو اپنے ہدف کے حصول کے لیے جس مزاحمت کا سامنا رہا ہے اس کی اہمیت اور کھلی حقیقت ان پر آشکار ہوتی چلی جارہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کو اپنی حکومت جانے کے محرکات کے ساتھ ساتھ 2018ء کے عام انتخابات بھی شدت سے یاد آنے لگے ہیں۔ اُن کے حافظے کے کسی کونے میں سوئی اس حقیقت نے بھی انگڑائی لی ہے کہ تحریک انصاف نے کس طرح الیکشن لڑا اور کیونکر حکومت سازی ممکن ہوئی۔ گویا انہیں یہ ادراک بھی ہو چلا ہے کہ حکومت کے جانے کا واویلا کرنے کے بجائے حکومت میں آنے کے حالات اور اسباب بھی ضرور یاد کر لینے چاہئیں۔ کوئے اقتدار سے چلتا کرنے والوں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اقتدار میں لانے والوں کو فراموش کرنا خود فریبی کے مترادف ہے۔
کیسی کیسی زندہ اور چلتی پھرتی حقیقتیں اپنی موجودگی اور ناقابلِ تردید اہمیت مسلسل باور کروا رہی ہیں کہ حضور جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں لیکن مت مارنے والوں نے ایسی مت ماری کہ کچھ سجھائی نہ دیا کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اگر انہوں نے عمران خان کی مت نہ ماری تو شاید انہیں مارا مارا پھرنا پڑے گا۔ اسی لیے بیانیہ سازی کے بعد بیانیہ فروشی کا جوگرینڈ پلان تیار کیا گیا اسے غیر متوقع طور پرغیر معمولی پذیرائی کے پر لگ گئے۔ مقبولیت کے مینار پر چڑھ کر پُرہجوم جلسوں کا نظارہ یقینا ہوش گنوانے کا باعث تو بنتا ہے لیکن ہوش گنواتے گنواتے کیا کچھ گنوا ڈالا ہے اس کا احساس بھی پچھتاوے کی صورت میں آج نہیں تو کل ضرور ہوگا۔ عمران خان صاحب کا طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی‘ دونوں کا بغور جائزہ لیا جائے توایک لطیفہ بے اختیار یاد آتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ باپ گھر میں داخل ہوا تو بیٹا لپک کر پاس آیا اور بولا: پاپا میرے پاس آپ کے لیے دو خبریں ہیں‘ ایک اچھی اور ایک بری خبر۔ باپ نے تجسس سے کہا کہ پہلے اچھی خبر سناؤ۔ بیٹے نے کہا کہ میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا ہوں۔ باپ نے خوش ہوکر سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولا: اب بری خبر سناؤ‘ جس پر بیٹے نے انتہائی سادگی سے کہا کہ پہلی خبر جھوٹی ہے!
خلقِ خدا کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے۔ ربِ کائنات یہ اعزاز اپنے منتخب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ گورننس کے مواقع قدرت نے سبھی کو عطا کیے ہیں۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں۔ خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دے رہی ہے۔ اس مہلت کو نعمت اور غنیمت جان کر طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر نظرثانی ضرور کر لینی چاہیے۔ کہیں کوئی بھول چوک اور خطا تو سرزد نہیں ہوگئی۔ بدقسمتی سے مملکتِ خداداد میں روزِ اول سے لمحۂ موجود تک جسے بھی گورننس کی نعمت عطا ہوئی وہ اس عطا کو اپنی مہارت اور اہلیت سے منسوب کرکے اپنی ہی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ اس کی کسی ادا کا چمتکار ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وژن کا فقدان ہو اور خیالات کی یافت نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی سے گریز کرنا چاہیے‘ خصوصاً حکمرانوں کی زبان و بیان عملی تصویر نہ بنے تو سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندا ہی ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اس پر کنبہ پروری سمیت نجانے کیسے کیسے اللے تللے پورے کرنے والے سیاستدانوں نے خدا جانے ملک بھر میں تماشا کیوں لگا رکھا ہے حالانکہ سبھی اقتدار میں ہیں اور لمبی موجیں مار رہے ہیں۔ یہ سبھی مل ملا کر بالآخر ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سیاست سے لے کر اخلاقیات‘ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور تک سبھی کچھ بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ نہ احترامِ آدمیت ہے نہ شرم و حیا۔ نہ کہیں برداشت ہے اور نہ ہی تحمل و بردباری۔ نہ منصب کا احترام ہے نہ مرتبے کا لحاظ۔ قول و فعل سے لے کر زبان و بیان تک انہوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلہ ہی ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے کا منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہے کہ یہ خوف بڑھائے جا رہا ہے کہ ان سیاستدانوں کی بیان بازی کہیں وہ آگ نہ لگا ڈالے کہ رہا سہا بھرم بھی خاکستر ہو جائے۔ ان کے اشتعال انگیز بیانیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی قومی سطح کے سیاستدان نہیں بلکہ گلی محلوں کے گینگسٹر ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ گینگ وار چل رہی ہے۔ جوں جوں سیاسی اکھاڑے میں کشیدگی اور تناؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے توں توں اس اکھاڑے کے اثرات گلی محلوں اور سڑکوں پر نمودار ہونے کے آثار بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار آئندہ کسی سیاسی معرکہ میں خود تو ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور حلیف تو بجا طور پر بن سکتے ہیں‘ لیکن ان کی یہ چالاکیاں عوام کو ایک دوسرے سے دست و گریباں اور متشدد حالات سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ کس کو معلوم کہ یہ حالات کس نہج تک جا پہنچیں۔
جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل‘ پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔ ایک بار پھر عوام کا مینڈیٹ بیچنے والے اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم‘ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اشرافیہ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اُس طرزِ حکمرانی کے رحم و کرم پر ہیں جس کی طرف سے آنے والی پہلی خبر ہی نہیں ہر خبر جھوٹی ہے۔