لوگ وہ نہیں ہوتے جیسا خود کو دکھاتے اور ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ سڑکوں اور چوراہوں پر گداگری کے نت نئے ماڈل آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ معصوم بچوں کے ننھے منے ہاتھوں میں وائپر پکڑا کرگاڑیوں کے شیشے صاف کروانے والے ہوں یا گاڑی کی بند کھڑکی پر دستک دے کر بھیک طلب کرنے والے‘ شیرخوار بچوں کو گود میں اٹھائے راہگیروں اور گاڑیوں کے پیچھے بھاگتی عورتیں ٹریفک حادثات کا سبب بننے کے علاوہ کیسے کیسے جذباتی مناظر کا بھی باعث ہیں۔ یہ سبھی کھلے اور ننگے ضرورت مند کسی لاج اور جھجک کے بغیر دستِ سوال دراز کر ڈالتے ہیں۔ اس تمہید اور تجسس کو مزید بڑھانے کے بجائے اصل مدعے کی طرف چلتے ہیں کہ صرف اپنی ضرورتوں سے عاجز ہی ضرورت مند نہیں ہوتا بلکہ زائد از ضرورت سامانِ زندگی کے باوجود قیمتی پوشاکوں‘ لگژ ری گاڑیوں اور وسیع و عریض محلات کے اندر بھی ضرورت مندوں کا ہجوم پایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک ہی ضرورت مندوں کا جمِ غفیر ہے۔ اونچے شملے والا ہو یا رعب و دبدبے والا‘ کوئی بھلے کتنا ہی بااختیار کیوں نہ ہو‘ وہ بھی ضرورت مند ہی پایا گیا ہے۔ کوئی اہم ترین قلمدان کے لیے تو کوئی پُرکشش منصب کے لیے اور کوئی پہلے سے موجود درجنوں فیکٹریوں اور لمبے کاروبار کو مزید چار چاند لگانے کے لیے ضرورت مند نظر آتا ہے۔ کوئی اپنا پندار بیچ کر دنیا سنوارنے کے لیے بے چین ہے تو کوئی غیرت پر ضرورت کو فوقیت دینے پر۔ یہ سبھی ضرورتوں کے مارے اپنی اپنی حاجت لیے کسی نہ کسی در پر حاضری اور تابعداری اس قدر عقیدت سے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ الفاظ میں بیان ممکن ہی نہیں۔
سہولت کاری اور جان نثاری کے یہ مناظر صرف ضرورت اور غرض تک ہی محدود ہوتے ہیں‘ جب تک غرض باقی رہتی ہے تعلق چلتا رہتا ہے۔ جوں جوں غرض کم ہوتی چلی جاتی ہے تعلق کے آہنی ہاتھوں پر رعشہ طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر غرض کا تعلق ایک در سے دم توڑنے کے بعد تازہ دم ہوکر کسی اور در پر تابعداری کی اداکاری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ الغرض سبھی ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں اور ہر طرف آدمی کا شکار آدمی ہی نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ ضرورت مندوں کا کلب بن چکا ہے۔ اہداف کے حصول کے لیے کمزور کو کچلنا اور طاقتور سے ہاتھ ملانا اس کلب کا مین مینیو ہے۔ یہی ہمارا اصلی اور پورا سچ ہے۔ جس معاشرے میں سب چلتا ہو وہ معاشرے بس اسی طرح چلتے ہیں۔ حالانکہ آدمی آدمی کوکیا دے سکتا ہے۔ اگر غرض اور ضرورت کا آپس میں دھندہ نہ ہو تو یہ سبھی بیکار اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کی خرید و فروخت کرکے یہ سبھی چھوٹے موٹے زمینی خدا بن جاتے ہیں۔ انہی چھوٹے موٹے زمینی خداؤں میں سے جو خود کو زیادہ طاقتور‘ بااختیار اور بڑا سہولت کار ثابت کردیتا ہے وہ پھر انہی کا خدا بن جاتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ضرورت مندوں کے اس گٹھ جوڑ نے معاشرے کی شکل اور ہیئت ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ انا اور خود داری سے لے کر غیرت سمیت نجانے کیا کچھ دے کر ضرورت مندوں کے کلب کا ممبر بننے والوں نے اپنی دنیا تو سنوار لی ہے لیکن اپنی زمین اور اصل سے بہت دور جا چکے ہیں۔ اکثر نے تو اتنا مال و دولت اکٹھا کر لیا ہے کہ عزت کے لیے جگہ ہی نہیں بچی۔
زندگی کے جھمیلوں سے گہما گہمی تک‘ روزمرہ کے معمولات سے محفلِ یاراں تک‘ کہیں محفلیں اُجڑ گئیں تو کہیں بیٹھکیں بند ہو گئیں‘ کوئی جانے سے انکاری ہے تو کوئی بلانے سے گریزاں ہے۔ میل جول فاصلوں کا شکار ہے۔ سماجی رابطے اور معاشی تقاضے بھی یکسر بدل چکے ہیں۔ پبلک ریلیشننگ کا ایک نیا کلچر متعارف کروا دیا گیا ہے جو محفلِ یاراں اور بزمِ ناز کو روندتا ہوا ضرورتوں اور غرض کے گرد ہی گھومتا ہے۔ نمائشی معانقے‘ ضرورتوں کے سلام‘ مطالبوں کے خلوص اور غرض کی نوازشیں جا بجا ہرسو دکھائی دیتی ہیں۔ بناوٹی گفتگو اور واری واری جانے کی اداکاریوں کے مناظر ضرورت مندوں کے کلب میں روز مرہ کا معمول ہے۔
کیسے کیسے عالم‘ فاضل‘ فلسفی‘ دانشور‘ سقراط‘ بقراط کی ڈمی بنے پھرتے ہیں۔ زندگی کے اسرار و رموز سے لے کر سبھی بھید بھاؤ بیان کرنے والے موٹیویشنل سپیکر بھی مارکیٹ میں خاصی تعداد میں آ چکے ہیں‘ جنہیں سن کر یوں لگتا ہے کہ کائنات کے سبھی علوم اور زندگی کے سبھی گورکھ دھندے ان کی دانشوری کے مرہونِ منت ہیں۔ بعض علم اور خیال کی آمدنی کے بغیر اندھا دھند الفاظ کی فضول خرچی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لچھے دار لفاظی اور اندازِ بیان سے سامعین اور حاضرین جھومے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ان کے لیکچرز سننے کے لیے باقاعدہ بکنگ کروانا پڑتی ہے۔ منتظمین محفل کو ان کی ناز برداری اور خاطر داری کے علاوہ اچھا خاصا معاوضہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے پھر بھی حاضرین کے پلے کبھی کچھ نہیں پڑتا اور وہ اس تماشے سے ایسے خوش خوش لوٹتے ہیں کہ جیسے بہت کچھ حاصل کر لیا ہو۔
ان ضرورت مندوں کی اخلاقیات کا صرف ایک پہلو ہی دل دہلا دیتا ہے۔ انہیں کرائے پر آئے کسی موٹیویشنل سپیکر نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مسلسل خسارے میں ہی نہیں بلکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اپنے ملازمین کی دعاؤں میں نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ دعاؤں سے محروم شخص اگر اس قدر خسارے میں ہے تو اُن حکمرانوں کا کیا بنے گا جو اپنے ہی عوام کی نیک تمناؤں اور مناجات میں شامل نہیں۔ ستم یہ کہ عوام بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر عوام حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہوں تو حکمران عوام کی مناجات سے محروم کیسے رہ سکتے ہیں؟ دعاؤں سے محروم شخص کی بھی کیا زندگی ہو سکتی ہے؟ اپنی اناؤں اور خطاؤں کے خول میں بند خود پسندی کے مرضِ لا علاج میں مبتلا اپنی ہی ذات کے گرد طواف کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا اہم ترین‘ سبھی کو خبر ہو کہ سدا بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔ کیسے کیسے ناگزیروں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہی کے دم قدم سے ہے۔ یہ سبھی اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔
ماضی کے چشم کشا حالات اور انجام سے نہ کسی سابق حکمران نے کچھ سیکھا اور نہ ہی موجودہ حکمران کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ ہر چیز فانی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ تخلیقِ حضرتِ انسان سے لے کر اس کے عروج و زوال تک کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں۔ پیدائش سے موت کا سفر ہی اختتام کی ابتدا ہے‘ یعنی Beginning of the End۔ کائنات میں ہر عمل اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اختیارات سمیت بے پناہ نعمتوں کے حامل‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ سبھی کچھ نقطۂ آغاز سے ہی اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے‘ یعنی پیدائش پر پہلا سانس لینے والے بچے کا دوسرا اور تیسرا سانس اس کی موت کے سفر کا سنگِ میل ہوتا ہے۔ اقتدار ہو یا اختیار‘ شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ اس کو مستقل اور دائمی سمجھنے والے محض سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا پل اقتدار کے اختتام کا سنگ میل ہے‘ یعنی اقتدار کا پہلا دن ہی Beginning of the End تھا۔