قوم کو مبارک ہو‘ اس کے محبوب حکمران عالمی برادری سے دس ارب ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہم وہ زندہ قوم ہیں جسے اس کے عظیم حکمران قرضے اور امداد ملنے کی خبریں بھی ایسے سناتے ہیں جیسے کوئی خزینہ دریافت کر لائے ہوں‘ دودھ اور شہد کی نہریں بہا ڈالی ہوںیا بیش قیمت معدنیات کے ذخائر کھوج ڈالے ہوں۔ جہاں قرض کی قسط دینے کے لیے بھی مزید قرض درکار ہو‘ وہاں سیلاب اور زلزلے جیسی آفات پر امداد طلب نہ کرنا کہیں زیادہ بڑی خبر ہے۔ امداد کا اعلان خوشخبری بنا کر پیش کرنے والوں کو خبر ہونی چاہیے کہ یہ تو وہ معمول کی خبر ہے جو ہم نسل در نسل سنتے چلے آئے ہیں۔ عرب ممالک‘ امریکہ بہادر یا چین سمیت دیگر ممالک سے امداد تو رہی ایک طرف ہمارے ہاں تو بھاری سود پر ملنے والے قرض کی خبر بھی بریکنگ نیوز سے کم نہیں ہوتی۔ یہ سبھی خبریں ہماری انا اور غیرتِ قومی کو ہر بار چار چاند لگا دیتی ہیں۔
آج کل ہر خاص و عام کے منہ پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا ہم دیوالیہ ہونے جارہے ہیں؟ اس سوال پر ایک جواب آتا ہے کہ نہیں۔ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ فلاں ملک نے امداد دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ فلاں عالمی ادارے نے مزید قرضوں کے لیے نیم رضا مندی ظاہر کردی ہے‘ اگر ان کی کڑی شرائط چپ چاپ مان لی جائیں تو شاید قرضہ بھی مل جائے گا۔ جہاں ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت آئندہ پر ڈالنے کو بہترین معاشی حکمت عملی سمجھا جاتا ہو وہاں ایسے خطرات بدستور منڈلاتے ہی رہتے ہیں۔جو قومیں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جائیں‘ انہیں اصلاحات اور اقدامات کتنا اور کیسے بچا لیں گے؟ جہاں اقتدار کے حصول کے لیے جھوٹ اور گمراہ کن اعداد و شمار اور پروپیگنڈا کو زینہ سمجھا جاتا ہو‘ انتخابی اخراجات یہ سوچ کر کھلے ہاتھ سے کیے جاتے ہوں کہ برسراقتدار آتے ہی سبھی پورے ہو جائیں گے‘ جہاں سیاستدانوں کا ذریعہ معاش ہی سیاست ہو‘ جہاں سیاست تجارت اور تجارت سیاست کے گرد گھومتی ہو‘ اصلاحات اور اقدامات ذاتی فائدے کو مدِنظر رکھ کر کیے جاتے ہوں‘ ہوسِ زر کے مناظر جابجا صبح و شام دیکھنے کو ملتے ہوں‘ ریڑھی والے سے لے کر دکاندار تک‘ آڑھتی سے لے کے کارخانے دار تک سبھی ماپ تول میں ڈنڈی مارنے‘ ملاوٹ اور جعلسازی کو کاروباری گر سمجھتے ہوں وہاں سدھار کیونکر آئے گا۔ وطنِ عزیز کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ اخلاقیات ہیں۔ جس دن ہمارے اخلاقی معاملات سدھر گئے‘ ہماری معیشت اور اقتصادیات آٹو پر ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے معاشی اقدامات اور اقتصادی اصلاحات سے پہلے اخلاقیات میں بہتری لانا ہو گی۔ یہاں تو سرکاری مشینری مال بنانے کی مشین بن چکی ہے اور حقوق العباد فراموش کرنے سے لے کر اپنے پرائے کا حق مارنا حق سمجھا جاتا ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشرافیہ اور عوام کے درمیان کانٹے دار مقابلہ جاری ہے کہ کارِ بد میں کون آگے نکلتا ہے۔ جس کا جہاں جتنا داؤ لگ رہا ہے‘ وہ برابر لگا رہا ہے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیر پھاڑ کررہا ہے۔ کوئی ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنائے ہوئے ہے تو کوئی قوم کی دھلائی کو مقصد بنائے ہوئے ہے۔ الغرض حکمران اور عوام حصہ بقدر جثہ اس مٹی سے اپنا اپنا حصہ اور قیمت وصول کررہے ہیں۔
تعجب ہے‘ مملکتِ خداداد پر حکمرانی کے سبھی شوق پورے کرنے والوں کی مال و دولت ہو یا فیکٹریاں اور جائیدادیں‘ جس تیزی سے بڑھتی چلی آئی ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ملکی خزانہ گھٹتا چلا آیا ہے۔ انتہائی فعال اور نفع بخش سرکاری ادارے جوں جوں خسارے کا شکار ہوتے چلے گئے‘ توں توں ان کے اپنے کاروباری ادارے ہوشربا ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔ ریلوے اور قومی ایئرلائن کا رونا روئیں یا ٹیلی کام اور پوسٹل سروس کا‘ ان قومی اداروں کو ڈبو کر نجی شعبہ میں ان سبھی کے متبادل کاروبار کو وہ دوام بخشا گیا کہ سرکاری محکموں میں خسارے اور اجاڑے بڑھتے چلے گئے۔ قومی اداروں اور املاک کی نجکاری کرنے والوں نے سبھی کچھ بیچ ڈالا۔ بولی لگوانے والے ہوں یا بولی دینے والے‘ سبھی نے ایک دوسرے کے معاون اور سہولت کار بن کر وہ اندھیر مچایا کہ بند آنکھ سے بھی صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ادارے اونے پونے خریدنے والے کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ جہاںشہری سہولیات کمپنیوں اور اتھارٹیوں کے رحم و کرم پر ہوں۔ جب بھاری تنخواہوں اور پُرکشش مراعات پر منظورِ نظر سربراہ بنا دیے جائیں اور حکمران کمپنیاں بنا کر سرکاری اداروں پر ہاتھ صاف کریں تو یوں لگتا ہے کہ وطنِ عزیز پر کمپنی کی حکومت ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا انتظام چلانے کے لیے معاملات 56کمپنیوں کے سپرد کرنے والے ہوں یا ان کمپنیوں کو جاری و ساری رکھنے والے۔ صحتِ عامہ سے لے کر شہر کی صفائی سمیت پارکنگ اور میٹ کمپنیوں کے علاوہ دیگر شہری سہولیات کی کمپنیاں بنا دی جائیں اور جہاں کمپنی نہ بن سکے وہاں اتھارٹی بنا ڈالی ہو تو ایسے میں کہاں کی حکومت اور کونسی گورننس۔
جہاں ہر کمپنی کے اپنے ضابطے اور پالیساں ہوں اور ہر اتھارٹی کی اپنی اتھارٹی ہو۔ لگژری گاڑیاں کرائے پر حاصل کرنا‘ کوٹھیوں اور پلازوں میں مہنگے دفاتر‘ جدید سہولیات‘ تام جھام‘ سیر سپاٹے ہوں اور عوام کو اس کارپوریٹ کلچر میں دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہ ملتا ہو تو وہ کہاں جاکر سر پھوڑیں اور دہائی دیں۔ کمپنیوں اور اتھارٹیوں کی تنخواہیں اور مراعات پوری کرنے کے لیے غیرموافق پالیسیاں اور قائدے بنا کر بے رحم اقدامات کرنے والے بھاری جرمانوں کی سزاؤں سے مالی اخراجات پورے کرنے کے علاوہ اپنے اللے تللے پورے کررہے ہیں۔
گورننس کے معنوں سے بھی کوسوں دور حکمران اور انتظامی اشرافیہ مل کر ملکی وسائل اور عوام کی وہ درگت بنائے ہوئے ہیں کہ عوام تو سچ مچ دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے بھلے جتنے بھی قرضے مل جائیں‘ عالمی برادری سے اربوں ڈالر امداد بھی آجائے‘ دوست ممالک بھی بڑے ریلیف دے دیں‘ سیلاب زدگان ہوں یا زلزلہ زدگان‘ ناقابلِ برداشت مہنگائی کے مارے ہوں یا طرزِ حکمرانی کے ستائے ہوئے عوام‘ سب مصیبت زدہ ہی رہیں گے۔ اس سے پہلے بھی امدادیں آتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہم امدادوں کے ہی منتظر رہیں گے لیکن مصیبت زدگان کی مصیبتوں کے دن بڑھتے رہیں گے۔ خزانے خالی ہوتے رہیں گے۔ حکمرانوں کے بینک بیلنس برق رفتاری سے بڑھتے رہیں گے۔ بے نامی اثاثے اور کالا دھن ان کے نام سے منسوب رہیں گے۔ اور عوام جانتے بوجھتے بھی انجان ہی بنے رہیں گے۔ ان کی فیکٹریاں‘ ملیں اور کاروبار برق رفتار سے ترقی کی منازل طے کرتے رہیں گے۔ ظاہری و پوشیدہ‘ ملکی و غیر ملکی جائیدادیں اور مال و دولت انڈے بچے دیتی رہیں گی۔ اور عوام دیوالیہ ہی رہیں گے۔ دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی مقدر رہے گی۔ حکمران آتے جاتے رہیں گے۔ باریاں لگتی رہیں گی۔ چہرے بدلتے رہیں گے اور یہی خاندان مسلط رہیں گے۔ جمہوریت کے راگ الاپے جاتے رہیں گے۔ غیر جمہوری ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہیں گے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی اور مار دھاڑ جاری رہے گی۔ اسمبلیاں مزید غیر مؤثر ہوتی چلی جائیں گی؛ تاہم سرکاری بنچ اپنے مفادات اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے یکطرفہ بل پاس کرتے رہیں گے۔
کاش! ملک وقوم کو کنگال کرنے والے بھی دیوالیہ ہو سکتے۔ کاش! انہیں بھی یہ فکر کھاتی۔ یہ بھی راتیں جاگ کر اور دن بے چینی میں گزارتے۔ یہ بھی سر جوڑ کر بیٹھتے کہ کہیں ہم دیوالیہ تو نہیں ہونے والے۔ یہ سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیسے کیسے بھیانک حالات عوام کو بھگتنا پڑیں گے۔ حقیقت جاننے کے باوجود ماننے سے انکاری یہ سبھی جانتے ہیں کہ ان حالاتِ بد کے ذمہ دار اور اصل بینی فشری وہ خود ہیں۔ کسی ایک نے تو ان حالات کو پہنچنا ہی تھا۔ ملک نے یا حکمرانی کرنے والوں نے۔