بھائیوں جیسے دوست اور میرے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر عامر بندیشہ کی ہدایت پر ہر قسم کے دماغی اور اعصابی دباؤ سے بچنے کے لیے کالم سے ایک چھٹی پہلے ہی مار چکا ہوں‘ اب عامر بندیشہ نے ہی گہری سوچ سے اٹھا کر کہا ہے کہ ''پولی پولی ڈھولکی وجا لو‘‘۔کالم میں رونے پیٹنے اور حالات کا ماتم کرنے سمیت مار دھاڑ کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ پولے پولے کالم کی اجازت دیتے ہوئے انہوں نے خواجہ سلمان رفیق کا فقرہ بھی یاد کروا ڈالا جو انہوں نے میری حالیہ انجیوپلاسٹی کے موقع پر ہسپتال میں عیادت کے دوران ڈاکٹروں کے جھرمٹ میں چست کیا تھا۔ خواجہ صاحب اُن دنوں وزیر صحت تھے‘ میری علالت کی خبر سنی تو ہسپتال میں گھنٹیاں بجا ڈالیں‘ کبھی ایم ایس صاحب بھاگے چلے آرہے ہیں تو کبھی پرنسپل اور دیگر سینئر ڈاکٹرز۔ خیر! یہ ان کی محبت اور اپنائیت کا اظہار تھا جس کا میں ممنون اور مقروض ہوں۔ رات کو CCU میں غیرمعمولی چہل پہل اور صفائیاں دیکھ کر دریافت کیا تو پتا لگا کہ وزیر صحت آرہے ہیں اور پھر انتظامیہ کے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ خواجہ سلمان عیادت کیلئے آن پہنچے۔ حال احوال دریافت کیے بغیر ہی ڈاکٹرز سے بولے: ''انجیو پلاسٹی تو آپ نے کر دی ہے‘ وہ آگ بھی نکال دینی تھی جو ان کے اندر بھری ہوئی ہے اور ہمیں اس کی جھلسا دینے والی تپش ان کے کالموں کی صورت میں برداشت کرنا پڑتی ہے‘‘۔ ان کے اس فقرے پر CCU میں موجود سبھی سننے والے باوجود کوشش کے قہقہے نہ روک سکے۔ عامر بندیشہ نے وہ واقعہ یاد دلایا تو تکلیف کے باوجود میں بھی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
میرے چہرے پر بمشکل آنے والی ہنسی دیکھ کر بولے کہ لگتا ہے آگ نکالنا ہی پڑے گی۔ تب کہیں جاکر تمہارے دِل کو قرار آئے گا‘ آئے روز بغاوت پر اُتر آتا ہے۔ میں نے کہا مملکتِ خداداد میں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ اور شعور رکھنے والا اپنے اردگرد لگے سیاسی سرکس اور سبھی کھیل تماشوں کو بھگتنے کے باوجود کس طرح دِل پر قابو رکھ سکتا ہے۔ نااُمیدی اور غیریقینی کے گڑھے اس قدر گہری کھائیوں میں بدلتے چلے جا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان میں گرنے والے عوام کی تو چیخ و پکار بھی سنائی نہیں دے گی۔ آئین کی درگت سے لے کر ریاست کے تہہ و بالا معاملات اور انتظامی افراتفری نے تو ملک کو Ungovernable بنا ڈالا ہے۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں گتھم گتھا سیاسی اشرافیہ کو تو بس اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔
حالاتِ پریشاں دل کو بغاوت پر اکساتے ہیں اور دلِ ناتواں تو باتوں میں آنے کا پرانا عادی ہے۔ کسی زمانے میں ہم دل کی باتوں میں بھی آجایا کرتے تھے اور یہ اکثر ورغلا کر ہم سے ایسے ایسے کام کروا لیا کرتا تھا جنہیں یاد تو کیا جا سکتا ہے لیکن تحریر ہرگز نہیں کیا سکتا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے‘ جو ناسمجھے وہ اناڑی ہے۔ گزشتہ برس ہونے والی انجیوپلاسٹی کے بعد تقریباً ایک عشرہ دلِ ناتواں کالم آرائی سے قاصر اور فرار ہی رہا۔ شاید! ڈاکٹر بندیشہ کی باتوں میں آگیا تھا‘ تبھی تا دیر کالم کے لیے پکڑائی دینے سے بھاگتا ہی رہا۔ ابھی تو پچھلے ٹراما سے باہر نہیں آیا تھا‘ احتیاطوں اور پرہیز کے علاوہ روزانہ مٹھی بھر دوائیوں نے پریشان کر رکھا تھا کہ چند روز قبل گھر سے پانچ سات منٹ کی پیدل مسافت پر واقع مارکیٹ جانے کے لیے گھر سے نکلا‘ ابھی مارکیٹ چند قدم دور ہی تھی کہ جسم پسینے میں شرابور اور پاؤں پتھر کے ہوتے محسوس ہوئے۔ اگلا قدم اٹھانے کی کوشش کی تو دل پر ایسا بوجھ آیا کہ الامان الحفیظ۔ بس کرم یہ ہوا کہ اﷲ نے اوسان بحال رکھے‘ جیسے تیسے گھر فون کیا کہ کسی کو مجھے لینے بھیج دو تو چھوٹا بیٹا فوری گاڑی لے کر آن پہنچا۔ برق رفتاری سے گھر پہنچے اور ہنگامی حالات میں تجویز کی گئی سبھی ادویات حلق میں اُتار لیں۔ بفضلِ تعالیٰ کچھ دیر بعد طبیعت سنبھلنا شروع ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کو کال ملائی تو ابتدائی جملے کے بعد ہی انہوں نے میری ساری کیفیات خود ہی بیان کر ڈالیں جو میں انہیں بتانا چاہ رہا تھا۔ بولے! ابھی ہسپتال پہنچا ہوں بلاتاخیر چلے آؤ۔ کچھ دیر بعد معالج کے دربار میں ان کے روبرو بیٹھا تھا اور وہ پرانی انجیوپلاسٹی اور ہسٹری کی نئی تبدیلیوں سے تانے بانے جوڑتے ہوئے نجانے کیا کچھ لکھتے اور بولتے رہے۔
فوری طور پر تین چار سرنجیں بھر کر خون نکال کر لیبارٹری بھجوایا گیا اور تمام تر تعلق کے باوجود وہ سبھی کچھ بے دریغ کر ڈالا جو کارڈک SOPs کے مطابق ہر مریض کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ادویات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ پیٹ میں صبح شام ٹیکے بھی لگائے جا رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ پچھلی انجیوپلاسٹی میں دو آرٹریز کی بندش کچھ اس طرح تھی کہ ان میں سٹنٹ ٹھہرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے‘ بیلون اپلائی کر کے آرٹریز کھولی گئی تھیں‘ اسی پیچیدگی کی وجہ سے پندرہ بیس منٹ کا پروسیجر ایک گھنٹہ سے زائد وقت میں مکمل ہوا تھا۔ اس تناظر میں سٹنٹنگ کی کوشش اور رِسک کارآمد ہوتا نظر نہیں آرہا؛ تاہم فی الحال ادویات میں اضافے اور ردّوبدل کے ساتھ ساتھ سخت پرہیز اور احتیاطوں سے نکلنے والے نتیجے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس باغی دل کو کب اور کس بائی پاس پر قابو کیا جائے گا۔
ان حالات میں اندیشوں میں ڈوبی کیفیات کا اظہار کرنے کے لیے اپنی گزشتہ انجیو پلاسٹی کے دن شائع ہونے والے کالم بعنوان ''جینے کو اور کیا چاہیے‘‘ کی چند سطور شیئر کرتا چلوں۔ ''مجھ خاکسار پر جان لٹانے والے ہوں یا بے پناہ چاہنے والے‘ ایک دوسرے کا عکس اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اس خوش بختی اور بے پناہ نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایک ناسٹلجیا خون میں سرایت کر چکا ہے جو قطرہ قطرہ‘ لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے دل کا کام تما م کیے ہوئے ہے۔ عمر کا ایک حصہ وہ تھا جب اپنی موت نہیں بلکہ اپنوں کی موت سے ڈر لگتا تھا۔ اب یہ ڈر دہرا ہو چکا ہے‘ اب اپنی موت کا تصور بھی اس قدر جاں لیوا ہے کہ جان سے پیارے پسماندگان کی فکر ہلکان کیے رکھتی ہے کہ ان کا کیا ہوگا‘ میری موت کا دکھ کیسے برداشت کر پائیں گے اور بعد ازاں حالاتِ پریشاں سے کیسے نبرد آزما ہو پائیں گے کیونکہ یہاں حال کا کچھ پتا ہے نہ مستقبل کی کوئی ضمانت۔ گاہے سوچتا ہوں کہ ہماری سوچوں کے برعکس کسی فلاحی ریاست میں پیدا ہونے والوں کے دکھ یکسر مختلف ہوتے ہوں گے‘ انہیں ایسے وسوسوں اور اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا ہو گا کہ ان کے بعد ان کے پسماندگان حکمرانوں کی گورننس کے متحمل کیسے ہو سکیں گے۔ ایسے میں یہ اندیشے دن کا چین برباد کرنے اور رات کی نیند لُوٹنے کے علاوہ مرنے کا خوف بھی دُہرا کر ڈالتے ہیں۔ نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو ماں باپ جیسی عزیز ازجان ہستیوں سے لے کر دوست احباب اور عزیز و اقارب کے بچھڑنے کا غم اور بے پناہ چاہنے اور اردگرد پائے جانے والوں سے جدائی کا دھڑکا آدھی موت سے ویسے ہی تادیر دور کیے رکھتا ہے‘‘۔ کالم کی مزید ایک آدھ غیر حاضری کا ذمہ دار بھی یہی دلِ ناتواں ہوگا جو آج کل مجھ سے زیادہ ڈاکٹر بندیشہ کی مانتا اور سنتا ہے۔