اسے معجزاتی کہیں یا ڈرامائی‘ ہماری سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ منظرنامہ بدلتے ہی جہاں چہرے اور کردار بدلتے ہیں وہاں بیمار بھی بدل جاتے ہیں۔ جو ایک سال پہلے لڑکھڑاتے قدموں اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہیل چیئرز پر عدالتوں میں پیش ہوا کرتے تھے اور اکثر تو پیشیوں پر حاضری سے گریزاں اور طبّی عذر پیش کیا کرتے تھے‘ وہ سبھی بھلے چنگے اور اب بھاگے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جن کی صحت عدالتوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی تھی‘ وہ سات سمندر پار بیرونِ ممالک کے دورے کرتے نہیں تھکتے۔ دوسری طرف جو اقتدار میں اور تندرست و توانا تھے‘ وہ ایک ایک کرکے بیمار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کوئی گرفتاری کے خوف سے بیمار ہے تو کوئی گرفتاری کے بعد بیماریوں کا شکار ہو گیا ہے۔
گویا اقتدار میں ہوں تو انہیں سر درد بھی نہیں ہوتا اور اقتدار سے نکلتے ہی ہاتھوں پہ رعشہ اور ٹانگوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ جہاں چند قدم چلنا محال دکھائی دیتا ہے وہاں وہیل چیئر سے کرسی ٔ اقتدار کا سفر طے ہوتے ہی ساری بیماریاں اُڑن چھو ہو جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے قدرت نے ساری شفا اور توانائی کرسی ٔ اقتدار میں ڈال کر اسے کرشماتی کرسی بنا دیا ہے۔ جس طرح کہانیوں میں جن کی جان طوطے میں ہوتی ہے‘ شاید اسی طرح ان سبھی کی جان بھی اقتدار میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ جو بیماریاں کل تک مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سرکردہ شخصیات کو لاحق تھیں‘ آج تحریک انصاف کی شخصیات انہی بیماریوں کو ڈھال اور عذر بنانے کیلئے کوشاں ہیں‘ لیکن سختیاں اور عتاب ٹلتے نظر نہیں آتے۔
تندرست و توانا حکومتی اتحاد حکمرانی کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی چوکے چھکے لگا رہا ہے۔ برطانوی بادشاہ چارلس کی تقریبِ تاج پوشی میں وزیراعظم کی شرکت اور فوٹو سیشن کو حکومتی حلقے جہاں بڑا بریک تھرو قرار دے رہے ہیں وہاں ایتھوپیا کے وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان پر نازاں ہونے کا نادر موقع ضائع کر رہے ہیں۔ خدا جانے کسرِ نفسی ہے یا تشہیر سے بیزاری‘ بے نیازی ہے یا عدم توجہی‘ ایتھوپیا کے وزیر خارجہ سہ روزہ دورے پر ہیں اور اسلام آباد میں سفارتخانہ اور ڈائریکٹر فضائی سروس کے افتتاح کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تجارت میں بھی تعاون پر اتفاقِ رائے جیسے اقدامات پر وزارتِ خارجہ جتنا چاہے فخر کر سکتی ہے۔
ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کے بعد کالم کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے اگلے روز کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو من گھڑت‘ بدنیتی پر مبنی‘ افسوسناک‘ قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہیں۔ ترجمان پاک فوک کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ادارہ واضح طور پر جھوٹے‘ غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔اداروں پر الزامات اور ہرزہ سرائی سیاسی رہنماؤں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہیں تو شانہ بشانہ اور ایک پیج پر ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہی اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں سمیت بدترین طرزِ حکمرانی کے سبب پیدا ہونے والے حالات کا ذمہ دار انہی اداروں کو ٹھہرانے لگتے ہیں۔
نوازشریف اپنے دورِ اقتدار میں نااہل ہو کر کوئے اقتدار سے کیا نکلے آسمان سر پہ اٹھا لیا اور سڑکوں پر پوچھتے نظر آتے تھے کہ ''مجھے کیوں نکالا‘‘ حالانکہ نکالے جانے کے حالات اور اسباب کے بارے میں ان سے بہتر کون جانتا تھا۔ اسی طرح عمران خان یہ واویلا تو خوب کرتے ہیں کہ ''مجھے کس طرح نکالا‘‘، کبھی فرصت نکال کر قوم کو یہ بھی بتائیں کہ انہیں اقتدار میں لایا کس طرح گیا تھا۔ محلاتی سازشوں اور غلام گردشوں کی پرورش کرنے والے جب اپنے فیصلوں اور اقدامات کے اسیر بن جاتے ہیں‘ ان کی مجبوریاں اور ضرورتیں گلے کا طوق بننے کے ساتھ ساتھ ذوق و شوق جب پاؤں کی بیڑیاں بنتے ہیں تو یہ سب اپنے ہی دام میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔
جس طرح اپنی کمر کا تِل کسی کو نظر نہیں آتا‘ اسی طرح ان کو اپنے فیصلوں اور اقدامات کے اثراتِ بد بھی نظر نہیں آتے۔ مصاحبین اور سر چڑھے سرکاری بابوؤں کے ہتھے چڑھنے کے بعد یہ خود کسی جوگے نہیں رہتے۔ گورننس اور میرٹ کی درگت بنانے کیساتھ ساتھ قانون اور ضابطوں کو پامال کرنے کے علاوہ پوری ڈھٹائی سے حلف سے بھی منحرف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان سبھی کی طرزِ حکمرانی ہو یا طرزِ سیاست‘ ایک ہی سکے کے دو رُخ لگتے ہیں۔ ان کو ملنے والی ضمانتوں اور ریلیف کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا جبکہ دوسری طرف عوام نہ ختم ہونے والی سزا بھگت رہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے لگائی جانے والی باریاں برابر جاری ہیں۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلا ثابت ہو چکے ہیں۔ 2018ء میں جو ناخوب تھے‘ وہ خوب ہو چکے ہیں اور جنہیں خوب قرار دے کر برسرِ اقتدار لایا گیا تھا وہ آج ناخوب ہو کر مقدمات اور گرفتاریوں کا سا منا کر رہے ہیں۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا یہ تماشا کب تک جاری رہے گا؟ یہ ضرورتوں کے مارے کب تک عوام کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھیں گے؟ ان کی طرزِ حکمرانی کے عذاب عوام بہت جھیل چکے‘ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے کھوٹ بھی کھل چکے ہیں‘ کسی کے پلے کچھ نہیں اور ان سبھی نے ملک کر عوام کے پلے کچھ نہیں چھوڑا‘ نسل در نسل لٹتے مٹتے عوام کے پاس اب لٹانے کو کچھ باقی نہیں رہا۔
کب سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ انتخابات سیاسی اشرافیہ کے مسائل اور ضرورتوں کا حل تو ہو سکتا ہے لیکن عوام کے مسائل کا حل نہ ماضی کے انتخابات میں نکلا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی الیکشن میں نکلتا نظر آرہا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے نام قرعہ نکالنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس بار عوام کے نام کا قرعہ نکال کر ایک موقع عوام کو ضرور دینا چاہیے۔ اس بار معاملات ان سیاسی رہنماؤں سے نہیں بلکہ عوام سے طے ہونے چاہئیں۔ جب تک ماضی کے انتخابات کا حساب نہیں ہوگا‘ خسارے ہوتے رہیں گے۔ ان کی باریاں لگوانے کے بجائے ایک ڈیل عوام سے کرکے تو دیکھیں۔ عوام سے یہ پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اَنا اور خود داری سے لے کر عزتِ نفس کی تذلیل اور توہینِ انسانیت کے ابھی کتنے امتحان باقی ہیں؟ اس بار خواص کے بجائے عوام کو ترجیح بنا کر دیکھیں تو سہی۔ پون صدی سے وہی خاندان‘ وہی چہرے‘ وہی ایجنڈے‘ وہی دھندے‘ باپ کے بعد بیٹا‘ دادا کے بعد پوتا‘ آخر کب تک؟
کالم مخصوص سمت میں جاری تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کی خبر آ گئی۔ اسلام آباد روانگی سے قبل آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کا جواب آں غزل ایک وڈیو پیغام کی صورت میں جاری کر گئے تھے۔ معاملات اور حالات خطرے کے نشان کو چھونے کے لیے بیتاب ہیں۔ کہیں اداروں میں کشیدگی ہے تو کہیں اداروں سے ٹکراؤ کا خدشہ ہے۔ یہ سبھی حالات ملک و قوم کے لیے ہرگز اچھا شگون نہیں ہیں‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان کا وڈیو بیان بھارت میں ضرور ٹاپ ٹرینڈ بنے گا۔ بھارتی میڈیا اس کلپ کو لے کر خوب چسکے لے گا۔