سیاسی سرکس میں جہاں آئے روز نت نئے آئٹم شامل ہو رہے ہیں وہیں سانپ سیڑھی کا کھیل بھی زوروں پر ہے۔ جن کی گوٹی اٹھانوے پر تھی وہ سولہ پر آن گرے ہیں اور جو زیریں سطح پر بھٹک رہے تھے ان کی چھلانگیں ہی نہیں رک رہیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے آناً فاناً اٹھانوے پہ آن پہنچے ہیں۔ سانپ سیڑھی کے کھیل میں سانپ کا کردار انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لڈو کی بساط پر جابجا بکھرے سانپ اس طرح منہ کھولے ہوئے ہوتے ہیں کہ اکثر لمبے دانے آنے کے باوجود گوٹی ایک دو سانپوں سے بچ بھی جائے تو تیسرے‘ چوتھے یا پانچویں کے قابو میں آ ہی جاتی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کو سیاسی انتقام کا نشانہ قرار دے کر انہیں ایک مرتبہ پھر سے اٹھانوے پہ بٹھا دیا گیا ہے۔ اب وہ وطن واپسی کے لیے پَر تولنے کے علاوہ ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کے لیے جوڑ توڑ میں جتے ہوئے ہیں۔
اگلے ماہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے‘ اگر کوئی توسیعی منصوبہ پائپ لائن میں نہیں ہے تو یقینا نگران سیٹ اَپ ملک کا انتظام سنبھال لے گا۔ خدا کرے یہ انتظام آئینی مدت تک ہی محدود ہو لیکن نجانے کیوں یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے کہ جب پنجاب میں نگران سیٹ اَپ آئینی جواز اور قانونی گنجائش کے برعکس تاحال انتظام سنبھالے ہوئے ہے تو متوقع نگران وفاقی سیٹ اَپ بھی آئینی مدت میں انتخابات کروا کر انتقالِ اقتدار کا فریضہ بروقت ادا کرتا نظر نہیں آرہا۔ دور کی کوڑی لانے والے تو سالِ رواں میں انتخابات کے امکانات کو ہی رَدّ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کا مہورت بہت جلد بھی نکلا تو فروری 2024ء کا ہی نکلے گا جبکہ التوا کے آپشنز تو ہنرمندان کے پاس برابر موجود ہیں۔ انتخابات ہوں یا دیگر اہم امور‘ جب آئینی حدود سے باہر نکلتے ہیں تو بہت دور نکل جاتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ توکر لیا تھا لیکن آٹھ سال ٹالتے اور بہلاتے ہی رہے۔ جب انتخابات کرانے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا تو غیرجماعتی الیکشن کروا کر سرکاری مسلم لیگ کی پنیری لگا ڈالی۔ آج وہی پنیری کہیں گھنا جنگل تو کہیں اس قدر مضبوط اور خار دار بیل بن کر سسٹم کو اس طرح جکڑے ہوئے ہے کہ اسے کاٹنے کی تمام کوششیں اور حربے ناکام ہی ٹھہرے۔ چند سال کی کامیابی نہ صرف عارضی ٹھہری بلکہ سبھی تدبیریں اور ترکیبیں اس طرح دھری کی دھری رہ گئیں کہ اقتدار سے نکالے جانے کے سبھی جواز اور الزامات بے معنی ہو کر رہ گئے۔ کم و بیش چار سال اقتدار سے باہر رہنے کے بعد وہ اس طرح برسرِ اقتدار آئے کہ عقل دنگ اور گمان گم سم ہے۔ کل تک جو احتسابی ادارے ان کی کرپشن اور لوٹ مار کے آئے روز بلیٹن جاری کیا کرتے تھے‘ وہ آج ان کے دفاع میں نت نئے جواز پیش کر رہے ہیں۔ جن احتسابی عدالتوں کے متوقع فیصلوں سے یہ خائف اور بھاگے پھر رہے تھے‘ آج وہی ان کے خلاف سبھی کیسز کو سیاسی انتقام قرار دینے کے علاوہ یہ عندیہ بھی برابر دے رہی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے احتسابی ادارے کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا مستقبل تباہ کرنے کے لیے مجبور کیے رکھا۔
نواز شریف بریت کے سفر پر گامزن ہیں جبکہ شہباز شریف کے داماد اور بیٹے بھی ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر اس سفر کے سبھی سنگِ میل عبور کر چکے ہیں۔ نواز شریف کا مستقبل تباہ کرنے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی اگر کوئی سازش ہوئی ہے تو ان مہنگے کیسز کا ذمہ دار بھی کوئی ہوگا جن سے یہ سبھی سستے چھوٹ چکے ہیں۔ کیس جھوٹے تھے یا سچے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس لوٹ مار اور لمبی چوڑی کرپشن کی جو تفصیل روز سرکاری طور پر جاری کی جاتی تھی وہ کون کھا گیا؟ وہ ریکوری کہاں گئی؟ وہ خسارے کیسے پورے ہوں گے؟ ان کیسوں پہ اٹھنے والے بھاری اخراجات کس کھاتے میں جائیں گے؟ سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال اور ملک بھر میں کئی سال لگے تماشوں کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہوگا؟
یہ عجیب خطہ ہے‘ مقتول تو مل جاتا ہے لیکن قاتل کبھی نہیں ملا۔ ڈاکے کی واردات کا پتا سب کو ہوتا ہے لیکن ڈاکو آج تک نہیں پکڑا گیا۔ ہاتھ کی صفائی دکھانے والے اس صفائی سے بچتے چلے آئے ہیں کہ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ یہ کوئی شعبدے بازی ہے یا تماشا... نواز شریف نے سیاسی مخالفین کو زیر عتاب اور سرنگوں رکھنے کے لیے جو احتسابی ادارہ بنایا تھا وہی بالآخر ان کے گلے پڑ گیا۔ وہ تو اس پچھتاوے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ کاش آرٹیکل 62/63 کو ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی تجویر مان لی ہوتی تو انہیں نااہلی کی رسوائی کے ساتھ 2018ء میں کوئے اقتدار سے نہ نکلنا پڑتا۔ اس خدشے کا اظہار برابر کرتا چلا آرہا ہوں کہ احتساب کا اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھے‘ اس کے ریفرنسز اور کیسوں کا نتیجہ کچھ بھی نکلے‘ کوئی بری ہو یا مجرم ٹھہرے‘ اس کے سبھی خسارے عوام کے کھاتے میں ہی آئیں گے۔ یہ سارا احتسابی عمل قوم کو اس قدر مہنگا پڑے گا کہ یہ سارے ہی سستے چھوٹتے چلے جائیں گے۔
یہ بھی باور کرواتا چلا آرہا ہوں کہ اگر یہ سب بچ گئے تو پھر کچھ نہیں بچے گا‘ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ نظام چلانے والے کیونکہ جس معاشرے میں یہ سب کچھ چلتا ہے وہاں کچھ نہیں چلتا۔ اب تو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مان اور گمان بھی اس لیے کمزور پڑتا چلا جا رہا ہے کہ یہ سبھی تو ہر بار ہی بچ جاتے ہیں اور مملکتِ خداداد کی عمرِعزیز کا نصف سے زائد عرصہ کھا جانے والے اس طرح کھاتے چلے آئے ہیں کہ عوام کے لیے کھانے کو دو وقت کی روٹی تک نہ بچی ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ: وہ بھوک ہے کہ اعضا کہیں اعضا کو نہ کھا لیں۔ گویا حکمرانوں کے لیے کھانے کو سب کچھ اور عوام پیٹ بھر روٹی سے بھی محروم ہیں۔
خان صاحب نے نواز شریف کی تمام احتسابی بدعتوں کو اس طرح پروان چڑھایا کہ اپنے سبھی دانے احتساب کی بھٹی سے بچاتے چلے آئے اور مخالفین کو احتساب کی بھٹی میں جھونکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے مخالفین کی آنکھ کے تنکے کا اس طرح واویلا کرتے رہے جیسے ان کے اردگرد پائے جانے والے سبھی دودھ کے دھلے ہوں۔ سابق وزیراعظم کو ہلہ شیری دینے والے انہی کے مشیر احتسابجو کھلواڑ قانون اور ضابطوں کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل اور خزانے کے ساتھ کر گئے ہیں‘ اس کا گناہ کس کے کھاتے؟ احتساب کے نام پر جو حساب کتاب وہ پارٹیوں سے کرتے رہے ہیں‘ اس کا حساب کون دے گا؟ پرائیویٹ جہازوں میں سیر سپاٹے اور موجوں کے ساتھ ساتھ ذوق و شوق کے عین مطابق میزبانی کا لطف اٹھانے والے مشیر احتساب کو کھلی چھٹی دینے کا خمیازہ آج چیئرمین پی ٹی آئی بھگت رہے ہیں۔ ایسے مشیروں نے ان کو سیاسی رواداری‘ برداشت‘ تحمل اور مذاکرات جیسے عوامل سے اس طرح دور کیے رکھا کہ خان پر اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں ایک جنونی کیفیت ہی طاری رہی۔ آج اس جنون کے نتائج ملک کے طول و عرض میں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ خان کی طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت‘ دونوں ہی خود ان کے لیے وبال بنتی رہی ہیں۔ سرچڑھے وزیر و مشیر ہوں یا سرکاری بابو‘ وہ خان کی افتادِ طبع کا فائدہ اٹھاتے رہے۔