76ویں یوم آزادی کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ بانی ٔپاکستان کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنی بیماری پوشیدہ رکھ کر آزادی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ قائداعظم کو خدشہ تھا کہ اگر ان کی بیماری کی خبر پھیل گئی تو انگریز قیامِ پاکستان کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیں گے۔ جس بیماری کو علاج کے بجائے آزادی کے حصول تک پوشیدہ رکھنے پر قائدنے ترجیح دی پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی اس بیماری نے سر اٹھا لیا۔ دن بدن گرتی صحت نے انہیں اجازت نہ دی کہ نوزائیدہ مملکت کو اس ٹریک پر ڈال جاتے جو نظریۂ پاکستان کا استعارہ بن جاتا۔ قائد نے زندگی کے آخری ایام امورِ مملکت اور دارالحکومت سے دور زیارت کے مقام پر انتہائی تکلیف اور بے چینی میں گزارے۔ بیماری سے عاجز قائد کو ہر اچھی برُی خبر سے بے خبر اور معاملات سے لاتعلق رکھا گیا۔ نتیجتاً وہ آزاد خطے میں بمشکل تیرہ مہینے ہی جی پائے۔ بائی چوائس بیماری کو چھپانا اور اس کی تباہ کاریوں کو اپنے ناتواں جسم پر لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے‘صبح و شام جھیلنا ان کے ایثار اور قربانی کا بھر پور استعارہ ہے۔ اس تناظر میں قائداعظم محمد علی جناح مملکتِ خداداد کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے موذی مرض اور موت کی دستک پر کان دھرنے کے بجائے اپنے اس عظیم مشن پر دھیان رکھا جس کے نتیجے میں آج ہم آزاد مملکت میں سانس لے رہے ہیں۔
قائدتو آزادی دے کر خلدِ بریں میں جا بسے لیکن اکثریت آزادی سے آج بھی محروم ہے۔ آزادی کی لذت اور بہاروں پر اس اقلیت کا قبضہ روزِ اوّل سے جاری ہے جسے اشرافیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مملکتِ خداداد کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھتی چلی گئی کہ قائداعظم کا آدھا احسان ملک کی سلور جوبلی سے پہلے ہی آدھا ملک گنوا کر اُتار ڈالا۔ باقی ماندہ احسان اُتارنے کے لیے ملک کا حشر نشر برابر جاری ہے۔ انتہائی تلخ اور دردناک حقیقت یہ بھی ہے کہ وطنِ عزیز نے جس طبقے کو سب سے زیادہ نوازا اور مالا مال کیا اُسی کے ہاتھ اس کی تباہی میں حصہ بقدر جثہ رنگے ہوئے ہیں۔
مملکت کے قیامِ کے بعد جس جذبے اور عزم کے ساتھ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا وہ جذبہ اور عزم دن بدن بکھرتا اور اس طرح تحلیل ہوتا چلا گیا کہ آج ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ نتیجتاً تین لفظوں میں جڑا یہ نام کسی لفظ کا بھرم بھی نہ رکھ سکا۔ سرکاری نام کے مفہوم اور معانی اس طرح گھماتے چلے گئے کہ ملک کی سمت اور دھارا ہی بدل ڈالا۔ نظریۂ پاکستان کی جگہ نظریۂ ضرورت غالب آتا چلا گیا تو قائدکے فرمودات بھی کتابوں‘ سرکاری تقریبات اور بھاشنوں تک محدود کر ڈالے۔ قرض کی مئے کی ایسی لت پڑی کہ فاقہ مستی اگلی سبھی نسلوں کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ جن بیرونی قرضوں کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں‘ عوام ایک پائی اور دھیلے کے بھی بینیفشری نہیں‘ ان پہاڑ جیسے قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عوام پر فی کس اس طرح ڈال دیا گیا ہے کہ عوام کی کئی نسلیں ادائیگیاں کرتے کرتے رزقِ خاک ہو چکی ہیں۔ باقی ماندہ عوام کی حالت ناقابلِ بیان ہے اور وہ زندہ درگور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور دلخراش ہجرت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اس مملکت میں بسنے والوں پر زمین دن بدن تنگ اور پریشان حالی اس طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ آج اگر یورپ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک پاکستانیوں کے لیے صرف ویزے آسان کر دیں تو شاید 76سال قبل ہونے والی تاریخی ہجرت کا ریکارڈ ٹوٹنے میں ذرا دیر نہ لگے۔ وسائل اور حیثیت رکھنے والے تو دھڑا دھڑ بیرونی ممالک کی شہریت لے رہے اور وہاں کاروبار اور سکونت اختیار کرنے کے لیے بھاگے پھر رہے ہیں۔ حلقۂ احباب میں آئے روز کسی نہ کسی کے بارے میں پتہ چلتاہے کہ فلاں ملک چھوڑ کر جا چکا ہے تو فلاں ہجرت کے انتظامات میں مصروف ہے۔ یہ آنیاں جانیاں ہوں یا نقل مکانیاں سبھی ہجرت اور حالاتِ پریشاں سے فرار کے اشارے ہیں۔ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ نے تو پہلے ہی سبھی پیش بندیاں اور انتظامات کر رکھے ہیں۔ ان کے بچے بیرون ممالک بھاری اور ہوشربا اخراجات پر زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد بچوں کو سیٹ کرنے کے لیے جائیدادیں اور اکاؤنٹس ہجرت کے ہراول دستے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکثر کے تووسیع و عریض کاروبار‘ اثاثے اور ٹھاٹھ باٹھ الف لیلوی داستانوں سے کم نہیں۔
مملکتِ خداداد کے سرکاری بابوؤں نے تو دہری شہریت کی خاطر دہری زوجیت والا راستہ اپنا لیا ہے۔ سوا سو کے لگ بھگ اعلیٰ سرکاری افسران نے غیرملکی خواتین سے شادیاں رچا رکھی ہیں۔ چند سال پہلے تک دہری شہریت رکھنے والے سیاست دانوں اور سرکاری بابوؤں پر کڑی تنقید اور تشویش پائی جاتی تھی۔ سرکاری بابوؤں کی دہری زوجیت نے دہری شہریت کی سنگینی کو دھندلا ڈالا ہے۔ دہری شہریت کے حامل افسران کی نوکریوں اور منصب پر خطرات منڈلا رہے ہوتے تھے جبکہ سیاسی اشرافیہ بھی خاصی مشکلات کا شکار تھی۔ دہری شہریت اکثر کے انتخابات میں رکاوٹ بن جاتی تھی تو کسی کے لیے اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے لیکن مملکت خداداد کے کرتے دھرتوں نے وہ اُودھم مچایا کہ ہر خاص و عام بیرون ملک سکونت اختیار کرنے کو تیار اور کوشاں نظر آتا ہے۔
انتظامی اور سیاسی اشرافیہ کا ملک میں قیام تو صرف اقتداراور اختیار سے مشروط ہے۔ جب تک یہ چلتا رہتا ہے یہ راجوں مہاراجوں کی طرح ملک میں موجیں مارتے پھرتے ہیں‘ جونہی اقتدار اور اختیار خطرات سے دوچار اور ہاتھ سے نکلتا ہے یہ اُڑ کر اپنے سسرالی دیس میں جابستے ہیں۔ اکثر سرکاری بابوؤں کا ملک میں قیام کا دورانیہ ان کی ریٹائرمنٹ سے مشروط ہوتا ہے۔ نجانے کتنے پردیس جا بسے ہیں اور کتنے ہی ریٹائرمنٹ کے بعد جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ مالی مراعات اور دیگر بینی فٹ کے علاوہ روزمرہ کی مار دھاڑ اور لمبا مال ملک میں رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ بعد از ریٹائرمنٹ اکثر اہم شخصیات کی فوری بیرون ملک سکونت قانون اور ضابطوں کے برعکس ہی نہیں بلکہ نیشنل سکیورٹی اور غیرتِ قومی کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔
اس دھرتی پر جو اودھم 76برسوں سے جاری ہے اس پر تو قائدکی روح بھی خلدِ بریں میں پریشان اور یقینا بے چین بھی ہوگی کہ یہ ملک کن کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلہ ہیں۔ ان آتے جاتے حکمرانوں نے صادق اور امین سے لے کر مکافاتِ عمل اور جزا و سزا کے معانی الٹانے کے علاوہ سماجی اور اخلاقی قدریں بھی لیرولیر کر ڈالی ہیں۔ آئین گم سم اور قانون و ضابطے سرنگوں ہیں۔ اقلیت کو دستیاب نعمتوں اور وسائل کا شمار ممکن نہیں جبکہ اکثریت پیٹ بھر روٹی اور بنیادی ضرورتوں کے لیے دربدر اور محتاج ہے۔ دھتکار اور پھٹکار کے کیسے کیسے مناظر جابجا حکمرانوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ کے روز نئے پول کھول رہے ہیں۔ جنہیں منہ چھپانا چاہیے وہ بتیسیاں نکالتے منہ ہر جگہ لیے پھرتے ہیں۔
قارئین! 76ویں یومِ آزادی پر نگران وزیراعظم کا نام فائنل ہو چکا ہے۔ ملک بھر میں ان کی شخصیت کو لے کر دور کی کوڑیوں‘ قلابوں اور قیافوں سمیت دانشوریاں بھی برابر جا ری ہیں۔ خاطر جمع رکھیں! پہلے بھی عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ نام میں کیا رکھا ہے‘ نام نہیں کام اہم ہے۔ ؎
ابھی کچھ بال و پَر باقی ہیں
جو نوچے نہیں تم نے