سوشل میڈیا پر ایک کانسٹیبل کی ویڈیو کے خوب چرچے ہیں۔ پولیس حکام نے تو بیچارے کانسٹیبل کو ذہنی مریض قرار دے کر اپنی فیس سیونگ کر لی ہے لیکن یہ ویڈیو معاشرے کا وہ اصل اور بھیانک چہرہ ہے جو چھپائے نہیں چھپ رہا۔ مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کانسٹیبل کے اندر کتنی آگ بھری ہوئی ہے کہ وہ اپنا حال اور مستقبل دونوں ہی بھسم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ باوردی پولیس کانسٹیبل ہو یا حالات کی ماری خلقِ خدا سبھی پریشان حالی کے مارے ہوئے ہیں۔ اس ویڈیو کا مزہ لینے کے بجائے پس پردہ محرکات پر نظر ڈالنی چاہیے‘ جبکہ پولیس حکام نے اسے ذہنی مریض بنا کر مغلظات کو ذہنی حالت کے کھاتے میں ڈال تو دیا ہے لیکن تضادات کا واضح اشارہ ہے کہ جس مرض کا شکارکانسٹیبل کو قرار دیا گیا ہے وہ مرض تو مملکتِ میں بسنے والے ہر دوسرے عام آدمی کو لاحق ہے۔ وہ بیچارہ تو بس وردی کے زعم میں اپنے پاگل پن کو باہر آنے سے نہ روک سکا۔ یہ اور بات کہ وردی ہی اُس کی گرفت اور پکڑ کا باعث بن گئی۔ مگرعام آدمی اس کی جرأت نہیں کر سکتا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ واقعی ذہنی مریض تھا تو موٹرسائیکل کو دیوار پر یا درخت پر چڑھانے کی کوشش تو ضرور کرتا۔اس نے تو موٹر سائیکل فٹ پاتھ پہ بھی نہیں چڑھائی۔ ٹریفک کی درست سمت میں ون وے کی خلاف ورزی کیے بغیر وہ اپنی دھن میں چلا آرہا تھا کہ ایک یوٹیوبر اچانک کود پڑا۔ محکمے کی دھتکار اور پھٹکار کا مارا ہوا نجانے کہاں کہاں سے جھاڑیں کھاتا آرہا تھا۔
اس تمہید کا مقصد کانسٹیبل کی مغلظات کو جواز فراہم کرنا نہیں بلکہ اصل مقصد اس نکتے پہ لانا ہے اور یہ سمجھانا مقصود ہے کہ زندگی واقعی اس قدر مشکل اور اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہے کہ ہر شخص آپے سے باہر اور باولایا پھر رہا ہے۔ آمدن کی چادر ضرورت کے آگے رومال سے بھی چھوٹی پڑ رہی ہے۔ دووقت کی روٹی‘ ہوش اُڑا دینے والے بجلی کے بل‘ مکان کا کرایہ‘ زندگی کا کڑا امتحان بن جائے تو بچوں کی تعلیم و ترتیب‘ علاج معالجہ اورخوشی غمی کے اخراجات کو پورا کرنا کیونکر ممکن ہے۔ لمحہ لمحہ اور روزبروز زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جائے تو دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی مقدر بن جاتی ہے۔ مقدر کی اس بے رحمی سے بھاگتے بھاگتے یہ عوام نما رعایا نڈھال ہو چکی ہے۔ بھاگنا تو درکنار خود کو گھسیٹتے گھسیٹتے بھی اس حال کو آن پہنچی ہے کہ الفاظ بھی اظہار سے قاصر ہیں۔ ایسے میں کانسٹیبل کے ویڈیو پر کلپ کے چسکے اور ٹھٹھے اڑانے والوں کو خبر ہونی چاہیے کہ یہ عبرت کا مقام ہے‘اس ویڈیو پر ہنسنا نہیں رونا چاہیے۔
ہمارے ہاں طرزِ حکمرانی کا یہی اعجاز اور گورننس کے یہی روپ بہروپ ہیں کہ کیا خبر کب کوئی ہنستے ہنستے رونا شروع کر دے اور روتے روتے قہقہے لگانے لگے۔ نہ رونے والوں کو پتہ ہے کہ رونا ان کا مقدر کیوں بنتا چلا گیا اور نہ پاگلوں کی طرح ہنسنے والوں کو معلوم ہے کہ ان کے پاگل پن کا ذمہ دار کون ہے۔ البتہ ذمہ داروں کو یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ جہاں خود پر کہیں بات آئے یا ذمہ داری کا گھیرا ان کے گرد تنگ ہونے لگے تو کسی کو بھی پاگل قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے بند کروا سکتے ہیں‘ وہ سلاخیں پاگل خانے کی بھی ہو سکتی ہیں اور حوالات کی بھی۔ یہ تو فیصلہ سازوں کے موڈ پر ہے۔
وہ عالی دماغ داد کا مستحق ضرور ہے جس نے اس کانسٹیبل کو ذہنی مریض قرار دے کر معاملہ سمیٹ دیا‘ ورنہ گالیوں سے لے کر افسران کی شان میں گستاخی تک نجانے کون کون سے سے جرم کی دفعات تلاش کرنے کے لیے قانونی ماہرین کتابیں کھنگالتے پھرتے۔ ویسے بھی قانون تو بس کتابوں ہی میں رہ گیا ہے‘ تاہم بروقت پاگل قرار دینے کے فیصلے سے فیس سیونگ کے ساتھ ساتھ توڑی کی پنڈ بھی کھلنے سے بچ گئی ہے۔ مملکتِ خداداد میں طرزِ حکمرانی سے لے کر گورننس اور میرٹ کے معاملات میں اکثر توڑی کی پنڈ کھل جایا کرتی تھی جسے حکومتی اور انتظامی ہنرمند اکٹھا کرنے کے لیے تنکا تنکا چننے کی خاطر بھاگے پھرتے تھے۔ اب عصری تقاضوں کے تحت توڑی کے تنکے اکٹھے کرنے کے بجائے بنی بنائی پنڈ ہی اٹھالاتے ہیں۔ وہ بھلے بیچ چوراہے میں کھل جائے یا یا ہاتھوں میں‘ کسی کو کوئی پروا ہے نہ پریشانی۔ جہاں من مانی کی طرزِ حکمرانی ہو تو پھر پریشانی کس بات کی۔
ہمارے ہاں جیل بھرو تحریک کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ حکمرانوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کے نتیجے میں کبھی حکومتیں مظاہرین کو پکڑ پکڑ جیلوں میں بھر ڈالتی ہیں تو کبھی اپوزیشن جماعتیں خود ہی آگے بڑھ کر‘ گرفتاریاں دے کر جیلیں بھرتی چلی آئی ہیں۔ مملکتِ خداداد میں پریشان حالی کا جو ننگا ناچ جاری ہے وہ آنے والے دنوں میں مزید بڑھتا اور دھمال میں بدلتا نظر آرہا۔ اس تناظر میں کانسٹیبل مذکور کی طرح ہر دوسرا‘ تیسرا شخص آپے سے باہر اور اول فول بکتا نظر آئے گا۔مگر خاطر جمع رکھیں‘ حکومت کے پاس ایک ایسا نسخہ آگیا ہے جو چند روز پہلے ہی کارگر ثابت ہوا ہے۔ ادھر کوئی آپے سے باہر ہو‘ اُدھر اسے پاگل قرار دے کر پہلے حوالات اور پھر پاگل خانے بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس طرح جیل بھرو تحریک کے بعد پاگل خانے بھرو تحریک کو بھی دوام بخشا جا سکتا ہے کیونکہ حالات کے ماروں پر لگانے کے لیے اتنی دفعات کہاں سے لائیں گے؟ آسان اور فوری حل یہی ہے کہ پاگل قرار دے کر سیدھا پاگل خانے روانہ کر دیا جائے‘ اس طرح حوالات اور جیلوں کو مزید بوجھ سے بچانے کے ساتھ ساتھ قانونی اور عدالتی جھمیلوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے حالات میں دیوانے تو دیوانہ وار پھر رہے ہیں‘ نجانے کب کس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے‘ برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور وہ سرکار کے ہتھے چڑھ جائے۔
پاگل خانہ بھرو تحریک کا فائدہ عوام اور سرکار دونوں کو برابر ہو سکتا ہے۔ سرکار قانونی پیچیدگیوں سے بچ سکتی ہے اور عوام مقدمات‘ ریمانڈ اور پیشیوں کے ساتھ ساتھ اس کریمنل ریکارڈ سے بھی خود کو بچا سکیں گے جو ساری زندگی کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آئی جی صاحب تو پہلے ہی ویڈیو پیغام میں تلقین اور تاکید کرچکے ہیں کہ اچھا شہری ہونے کے ناتے خود کو کریمنل ریکارڈ کا حصہ بننے سے بچائیں‘ کہ یہ ریکارڈ آپ کی تعلیمی اور عملی زندگی میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ رکاوٹیں تو خیر اکثریت کے لیے جابجا اور قدم قدم پر ہیں‘ کہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں تو کہیں علاج کے لیے دربدر پھرنے والے مرض الموت کا شکار ہیں۔ کہیں داددرسی اور شنوائی کے لیے دروازے اتنے بڑے ہو چکے ہیں کہ سائل خود کو حقیر اور بونا سمجھتے ٔہوئے ہر ظلم و زیادتی کو مقدر کا لکھا تصور کر لیتا ہے۔ انا اور خودداری جابجا گروی اور غیرت پر سمجھوتوں کے مناظر بھی منہ چڑا رہے ہیں۔ اقلیت پر مشتمل اشرافیہ ان سبھی حالات کی بینیفشری ہے اور پورے ملک کو پاگل خانہ بنانے کے درپے ہے۔