میری خوش گمانی پر نزع کا عالم طاری ہے اور آخری سانسیں لیتی سبھی اُمیدیں بھی دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ جہاں جزا اور سزا کا نظام الٹا چلتا دکھائی دے رہا ہے وہاں مکافاتِ عمل کے تصورات بھی دھاندلا چکے ہیں۔ دھرتی ماں پر کہیں اندھیر مچایا جا رہا ہے تو کہیں اُدھم کا سماں ہے۔ 76 برس قبل آزادی کا سورج تو طلوع ہوا تھا لیکن وہ صبح ابھی تک نصیب نہیں ہوئی جس کے لیے خاک اور خون کا دریا عبور کرکے ہزاروں خاندانوں نے گاجر مولی کی طرح کٹتے کٹاتے اور عزتیں لٹاتے تاریخِ انسانی کی دلخراش ہجرت کی۔ دردناک داستان رقم کرنے کے باوجود اس خواب کی تعبیر کے لیے بھٹکتے ہی رہے جو آنکھوں میں سجائے وہ اپنے آباؤ اجداد‘ گھر بار اور لگے لگائے کام دھندے چھوڑ کر ارض پاک پر چلے آئے۔ مملکت ِخداداد تو وجود میں آ گئی لیکن اس کی باگ ڈور کبھی ایسے ویسوں تو کبھی کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھتی چلی گئی۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک مچائے جانے والے اُدھم کو بیان کرنا چاہوں تو ڈھونڈے سے بھی وہ الفاظ شاید نہ مل پائیں جو ان تباہیوں اور برباد یوں کا احاطہ کر سکیں جن کے ذمہ دار شوقِ حکمرانی کے مارے لوگ ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی ثابت ہوئے ہیں۔
کبھی بنام وطن تو کبھی بنام مذہب۔ کبھی روٹی‘ کپڑا اور مکان‘ کبھی قرض اتارو ملک سنوارو تو کبھی سب سے پہلے پاکستان۔ کبھی جمہوریت بہترین انتقام تو کبھی تبدیلی کا سونامی اور نیا پاکستان۔ کیسے کیسے ڈھونگ رچاتے‘ روپ بہروپ بدلتے چہرے پہ کئی چہرے سجائے آتے جاتے رہے ہیں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں لیکن افسوس کہ عوام انہیں بخوبی جاننے اور پہچاننے کے باوجود ان کے ہر دھوکے اور جھانسے کو اس طرح برداشت کرتے چلے آرہے ہیں کہ اب انہیں ان دھوکوں کی لت پڑ چکی ہے۔ شاید اسی لیے پون صدی سے ہر بار کھلا دھوکا دینے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر پر بٹھائے چلے جارہے ہیں۔ اقتدار کی باریاں اس طرح لگ رہی ہیں کہ عوام کی باری ہی نہیں آرہی۔ راج نیتی کے اس کھیل میں عوام کا کوئی کردار ہے نہ لینا دینا۔ گمراہ کن بیانیوں میں طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دینے والوں کی طرزِ حکمرانی ہو یا اصلاحات‘ سبھی مائنس عوام ہی پائے گئے ہیں۔ بھاشنوں اور شعلہ بیانیوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کرکے عوام کے درد میں مرے جانے والے برسر اقتدار آکر عوام کے لیے مرگِ نو کا باعث ہی بنتے چلے آئے ہیں۔ چار مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ بار ملک کے سب سے بڑے صوبے پر شوق، حکمرانی پورا کرنے والی جماعت ایک اور باری لگانے کے لیے جگاڑ اور زور لگا رہی ہے۔ خادم اعلیٰ نے عوام کو خوشخبری دی کہ ان کے برادرِ کلاں نواز شریف زخموں پر مرہم رکھنے پاکستان آرہے ہیں۔ گویا وطنِ عزیز کی عمر کا نصف سے زائد عرصہ سکہ چلانے والے اپنا علاج کروانے نہیں مرہم لینے بیرونِ ملک گئے ہوئے تھے۔ عوام تو یہی سمجھتے رہے کہ وہ اپنے علاج کے لیے ضمانت پر باہر گئے ہیں۔ عوام کو بجا طور پر اس عظیم لیڈر کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے طبی بنیادوں پر ضمانت لے کر برطانیہ میں اپنا علاج کروانے کے بجائے لندن کی سڑکوں پر گھوم گھام کر نہ صرف وقت گزارا بلکہ کیفیز اور ریستورانوں میں بھی برابر جلوہ افروز ہوتے رہے۔
مقامِ شکر ہے کہ وہ مرہم ساتھ لے کر آرہے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ طرزِ حکمرانی کے لگے زخموں پر کوئی دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔ موسیقی کا ذوق رکھنے والے میاں صاحب نے شاید اس گانے کا اثر لے لیا ہے جس کے یہ بول ہیں کہ تمہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا لیکن انہیں کیا معلوم کہ عوام کے زخم تو اب کسی مرہم کے محتاج ہی نہیں رہے۔ جمہوریت کے علمبرداروں کی بے چینی اور خوف کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ الیکشن تو چاہتے ہیں لیکن شفاف ہرگز نہیں۔ شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور موبائل سم سے لے کر دفاتر میں حاضری اور رخصت سمیت دیگر سرکاری محکموں میں تصدیق اور شفافیت کے لیے بائیو میٹرک پر ہی انحصار کیا جاتا ہے لیکن ملک و قوم کے اہم ترین مرحلے یعنی انتخابات میں ووٹر کی بائیو میٹرک تصدیق سے فرار مخصوص اور واضح اشارہ ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کیوں خائف ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی نزع کے عالم میں خوش گمانی اور دم توڑتی امید کی اور جا نکلی ان سماج سیوک نیتاؤں کی طرف جو آخری آسوں کے چراغ بھی گل کرنے کے در پے ہیں۔ کوئی تو پوچھے کہ چار مرتبہ وزارتِ عظمی اور آٹھ بار تختِ پنجاب پر حکمرانی کرنے کے بعد اب کون سا شوق باقی رہ گیا ہے۔ طرزِ حکمرانی جب عوام کے حالاتِ پریشان میں لمحہ لمحہ اضافے کا باعث بن جائے تو خوش گمانیاں پالنے والے خود فریبی کے مریض بن جاتے ہیں۔ میں کم از کم خوش گمانی کے اس مہلک مرض کا شکار نہیں بننا چاہتا‘ کھلی آنکھ سے پورا سچ لکھتا ہی چلا آرہا ہوں لیکن ادھورے سچ کے اس کلچر میں کوئی پورا سچ بولنا چاہتا ہے نہ سننا۔ اب تو پورے سچ کی پرچھائی بھی کہیں پڑ جائے تو نجانے کیا کچھ حرکت میں آجاتا ہے۔ ملک و قوم کے وسائل اور خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے ہوں یا صفائی کے ساتھ لمبا مال بنانے والے‘ سبھی کے نیب کیسز کھل چکے ہیں۔ لیکن زندان اور ایوان کی درمیان میوزیکل چیئر کا کھیل نئے ایڈیشنز کے ساتھ اس بار بھی جاری رہے گا۔ ہماری سیاست کا یہی حسن اور اعجاز ہے کہ عقل حیران و پریشان ہے‘ آئین اور ضابطوں سے لے کر قانون سمیت سبھی اخلاقی و سماجی اقدار کس طرح بے معنی کرڈالی ہیں۔ سنگین و رنگین الزامات کی پنڈ اٹھائے کس طرح دودھ کے دھلے ہوئے نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ ان کے کیس جھوٹے ہیں یا بنانے والے‘ ان کے دامن صاف ہیں تو ملکی خزانے پر ہاتھ کون صاف کر گیا۔ ثانوی اور واجبی پس منظر رکھنے والے سماج سیوک نیتاؤں کے پاس جوں جوں مال اسباب کے انبار لگتے چلے گئے توں توں قومی خزانہ گھٹتے گھٹتے خالی کیسے ہوتا چلا گیا۔ عزم و ہمت کی داستان کے عنوان سے شائع ہونے والے ساری کتابیں کیوں غائب کردی گئیں۔ ڈھونڈے سے بھی نہ ملنے والی یہ کتاب کسی اعتراف اور چارج شیٹ سے ہرگز کم نہیں۔
ایک بار پھر بساط بچھائی جارہی ہے‘ چالیں اور مہرے چلے جارہے ہیں‘ زندان اور ایوان کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے جگاڑ اور حیلے بنائے جارہے ہیں۔ غداری سے لے کر خائن اور سکیورٹی رسک جیسے سنگین الزامات کے لیبل تبدیل کیے جارہے ہیں جنہیں ناکارہ قرار دے کر ناقابلِ تصور کرتے رہے‘ وہ اس طرح ضرورت بن گئے کہ سبھی تقاضے اور ضرورتیں بھی بدل ڈالیں۔ دھرتی ماں پر اُدھم مچانے والوں نے ریاست کو ماں بنانے کا جو ڈھونگ رچایا تھا اس کے سبھی پول بھی کھل چکے ہیں۔ جہاں ریاست ماں نہ بن سکی وہاں دھرتی ماں کے سبھی سپوت بھی کپوت نکلے۔ یہ اقتدار کی باریاں کب تک؟ خوب ناخوب اور ناخوب خوب کب تک؟ زندان والے ایوان اور ایوان والے زندان میں کب تک؟ یہ مرگِ نو کب تک؟ پون صدی سے آزادی کے سورج تو برابر طلوع ہو رہے ہیں لیکن وہ صبح کب نصیب ہو گی جس کے خواب دکھائے گئے تھے۔ خواب دیکھنے اور دکھانے والے قائد اور علامہ اقبال کی تو زندگیوں نے وفا نہیں کی لیکن ملک جن کے ہتھے چڑھ گیا انہوں نے عوام سے کبھی وفا نہیں کی۔ اب یہ عالم ہے صبح دیکھی نہیں شام ہوئی جاتی ہے۔