شعور کا کرشمہ ہے یا آگاہی کا عذاب‘ سبھی بھید بھاؤ اور عقدے برابر کھلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ عوام نہ ختم ہونے والی تکالیف سے دوچار ہیں تو ان کے سماج سیوک نیتا مسلسل ریلیف پر نازاں اور اترائے پھر رہے ہیں۔ ضمانتوں پر ضمانتیں مل رہی ہیں‘ گرفتار نہ کرنے کے پروانے جاری ہو رہے ہیں‘ ہر طرف آسانیوں کی فراوانیاں ہی فراوانیاں ہیں۔ حکومتی اقدامات اور تعاون پر قانون کی کتابیں حیران ہیں تو ضابطے پریشان اور آئین تو نجانے کب سے گم سم اور حواس گنوا چکا ہے۔ آتے جاتے سماج سیوک نیتا جو سلوک آئین کے ساتھ کر چکے ہیں‘ اس کے بعد آئین ہوش میں آنے سے قاصر اور انکاری ہے۔ گویا اشرافیہ کو وہ ریلیف اور آسانیاں بانٹی جا رہی ہیں جو قانون کی کتابوں میں درج ہیں نہ ضابطوں میں کہیں ان کی گنجائش ہے‘ اس کے برعکس عوام کو ان عذابوں اور عتابوں سے مسلسل دوچار رکھے ہوئے ہیں جس پر انسانیت شرما شرما کر چُرمُر اور اَدھ موئی ہو چکی ہے۔
عوام کو تو وہ بنیادی حقوق بھی میسر نہیں ہیں جو بحیثیت انسان مذہب اور آئین انہیں فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف اشرافیہ پر پر نہ قانون لاگو ہوتا ہے‘ نہ ہی یہ ضابطوں اور اخلاقیات کے پابند ہیں۔ آئین کا حشر نشر تو یہ پہلے ہی کر چکے ہیں‘ ایسے حالاتِ پریشاں میں مَیں مکافاتِ عمل کے تصورات اور جزا و سزا کے نظام سے شاکی ہونے کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔ خیالاتِ پریشاں میں آوارہ خیالی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اکثر عقیدے اور تعلیمات بھی متزلزل اور لڑکھڑا سی جاتی ہیں اور کالموں میں اپنے رب سے یہ شکوے اور فریاد بھی کرتا رہا ہوں کہ مولا! مکافاتِ عمل کی تیری یہ چکی کن لوگوں کو پیستی چلی جارہی ہے‘ اصل دانے تو بچتے ہی چلے آئے ہیں۔ ان سماج سیوک نیتاؤں پر جب بھی مکافاتِ عمل کی کھیتی کاٹنے کا وقت آتا ہے تو یہ اگلی فصل لگا کر صاف بچ نکلتے ہیں۔ اپنی اس دانشوری اور رب سے گلے شکووں پر خود کو خاصا نادم اور شرمسار اس لیے محسوس کر رہا ہوں کہ رب کی حکمت اور فیصلے بس وہی بہتر جانتا ہے۔ دانشوری کے نام پر ہم بھلے جتنی چاہے بونگیاں مار لیں‘ قانونِ فطرت اٹل اور مستقل حرکت میں ہے۔ رسی دراز ہونے کا مطلب ریلیف اور آسانیاں ہرگز نہیں۔
قارئین آپ سے وہ حکایت بھی شیئر کرتا چلوں جس نے میری عقل اور ہوش کے وہ دروازے کھول ڈالے ہیں جو نجانے کب سے بند چلے آرہے تھے۔ بیشک اللہ رب العزت ہی میری کم علمی اور بونگی دانشوری کو معاف کرنے والا ہے۔ ''ایک شخص رات گئے قبریں کھود کر مُردوں کی بے حرمتی کیا کرتا تھا‘ بادشاہِ وقت کو خواب میں ایک سفید پوش بزرگ نے آکر پیغام دیا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہِ عظیم کا مرتکب ہوا ہے‘ اس بدکار اور گناہگار شخص کو شاہی دربار میں لاکر کسی بڑے منصب پر فائز کر دو۔ بادشاہ نے وجہ جاننا چاہی تو آنکھ کھل گئی اور سفید پوش بزرگ سے گفتگو اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ بادشاہ ساری رات بے چین اور صبح ہونے کا انتظار ہی کرتا رہا۔ خیر جب دِن چڑھا تو دربار سے سپاہیوں کو دوڑایا کہ جاؤ جا کر مذکورہ شخص تلاش کرکے اسے عزت و احترام سے لے آؤ۔ سپاہی جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہ شخص وہیں موجود تھا‘ سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ آج اس کی خیر نہیں۔ حکم کے مطابق اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کا جرم (گناہ) پڑھ کر سنایا گیا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ آج سے اُسے بادشاہ سلامت کا مشیرِ اعلیٰ مقرر کیا جاتا ہے۔ اگلی رات بادشاہ کے خواب میں وہی بزرگ دوبارہ آئے تو بادشاہ نے بے اختیار یہ سوال پوچھا کہ حضرت اس سیاہ کار کو عبرت کا نشان بنانے کے بجائے عزت اور مرتبے سے نوازنے کا حکم کیوں؟ بزرگ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کو اس کا گناہ بہت ناگوار گزرا ہے۔ قہرِ الٰہی اسے فوری سزا دینے کے بجائے موت تک مزید غفلت میں ہی رکھنا چاہتا ہے‘ اس کی موت کا وقت ابھی دور ہے اسی لیے تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے دنیاوی عزت اور آسائشوں کی طرف لگا دو۔ اعلیٰ منصب اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی مانگنے کے بجائے گناہوں کی دلدل میں ہی دھنسا رہے۔ رب کے ہاں اس کی سزا اور عذاب طے کر دیا گیا ہے۔ مرتے دم تک یہ عیش میں غرق اور گناہوں پر نازاں رہے گا۔ مُردوں کی بے حرمتی کے مکروہ اور گھناؤنے فعل پر سزا کے بجائے اعلیٰ دنیاوی منصب اسے گمراہی میں مبتلا رکھنے کے لیے دیا گیا ہے‘‘۔ گویا رب کی توفیق اور ہدایت نہ ہو تو توبہ کے دروازے بھی نہیں کھلتے اور منصب بھی سزا بن جاتا ہے۔ جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ آخرت خراب ہو گئی ہے۔ یہ فلسفہ سننے کے بعد کئی دہائیوں سے ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے قابلِ رحم دکھائی دینے لگے ہیں۔
اس فلسفے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بدبخت ہے وہ شخص جو اپنے ملازمین اور ماتحتوں کی دعاؤں میں نہیں۔ اس تناظر میں عوام کی دعاؤں سے محروم حکمرانوں اور سرکاری بابوؤں کے لیے بھی مقامِ فکر ہے۔ عوام کو دھتکار‘ پھٹکار اور رسوائیوں سے دوچار کرنے والے گورننس کی تو ''گ‘‘ سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ملکی وسائل اور خزانے کو کنبہ پروری اور بندہ پروری پر لٹانے والوں کی اکثریت کا پس منظر ان کے حال اور شان و شوکت سے متصادم ہے۔ لوٹ مار اور افراتفری کے اس گھمسان میں اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو سیاست اور ریاست سے مال بنانے کے بجائے اُلٹا خلقِ خدا کو لوٹا رہے ہیں۔ عوام میں وہ آسانیاں تقسیم کر رہے ہیں جو ان کی محرومی بنتی چلی آ رہی تھیں۔ مالی وظائف سے لے کر راشن پانی سمیت روزگار کے مواقع بس ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔ غیر انسانی ماحول میں بنیادی ضروریات سے محروم اسیری کے دن کاٹنے والوں کے لیے پنجاب کی جیلوں کا حلیہ ہی بدل ڈالا ہے۔ آگ برساتے سورج اور جھلسا دے والے لُو کے تھپیڑوں سے بچانے کے لیے قید و بند میں بے کس اور لاچار خلقِ خدا کے لیے پنکھے اور ایئر کولرز کے علاوہ خستہ حال اور تعفن زدہ باتھ رومز کو جدید تقاضوں کے مطابق بہترین سینیٹری سے آراستہ کرکے ماحول کو بیماریوں سے بھی پاک کر ڈالا ہے۔ بوسیدہ بیرکس کی از سرِنو تعمیر اور شایانِ شان مساجد اسیری کی مصیبتوں میں یقینا کمی کا باعث ہے۔ اسی طرح جیلوں میں ہسپتال اور علاج معالجے کی معیاری سہولتوں کی فراہمی بھی خدمتِ انسانی کا قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ قیدیوں کو رہائی دلوانا اور ان کے لیے اسیری کے ایام آسان کرنا بھی بہترین صدقے سے کم نہیں۔ کمال کی بات اس کارِ خیر میں پیش پیش انسان االلہ کے دیے ہوئے پر ہی انحصار کرتا ہے۔ نہ کوئی فنڈنگ ہے نہ کوئی صدقہ‘ زکوٰۃ یا خیرات کی اپیل۔ نام لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی ہے۔ سیاست کو عبادت بنانے کے دعوے تو سبھی کرتے ہیں لیکن عبادت کی تسکین تب ہی ملتی ہے جب رب کے دیے ہوئے مال سے خلقِ خدا کا حصہ ان کا حق سمجھ کر ان تک پہنچایا جائے۔ جس کا کام ہی اس کی شہرت اور پہچان بن جائے اس کا نام قارئین کو خود بوجھ لینا چاہیے۔