مہنگے کیسز میں پکڑے جانے والے سستے چھوٹ گئے۔ احتساب کے نام پرلگے تماشے نے جزا اور سزا کے نظام کو جہاں تماشا بنا ڈالا ہے وہاں مکافاتِ عمل کے تصورات بھی دھندلا ڈالے ہیں۔ انصاف سرکار کے اوائل دنوں میں احتساب فلم سرکاری سطح پر صبح وشام اس طرح شفٹوں میں دکھائی جاتی تھی کہ بس جلد ہی انصاف سرکار ملکی خزانے اور وسائل سے لوٹی ہوئی رقم ریکور کرکے قومی خزانہ بھر دے گی لیکن احتساب فلم کے پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر اور کہانی نویس بھی ضرورت مند ہی نکلے۔ کسی نے دنیا سنوار لی تو کسی نے اگلی منزل‘ کوئی حکم کا غلام نکلا تو کوئی خواہشات کا‘ کسی نے رنگ بدلا تو کسی نے ہاتھ رنگ لیے‘ گویا سارے ہی حصہ بقدر جثہ وصول کرکے سر پر اُٹھائے احتساب کو بیچ چوراہے پھینک کربھاگ نکلے۔
نامعلوم اہلیت کا حامل شہزاد اکبر نامی مشیر تو کارکردگی دکھانے کے بجائے عمران خان اور سسٹم کو چونا لگا کر اس طرح اپنی دنیا سنوارتا رہا کہ کھڑکی توڑ رش لینے والی احتساب فلم جلد ہی ڈبوں میں بند کرنا پڑ گئی۔ فلم ڈبوں میں بند کرنا اس لئے مجبوری بنتی چلی جارہی تھی کہ انصاف سرکار میں شریک اقتدار وزیروں اور مشیروں کی لوٹ مار کے قصے بھی جہاں زبان زد عام تھے وہاں عمران خان جانتے بوجھتے بھی انجان بننے کی اداکاری کرنے سے تھک گئے تھے۔ اپنے قریبی عزیز وں‘ مصاحبین اور سر چڑھے بابوؤں کے کھلائے ہوئے گُل ان کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے جارہے تھے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشیر خاص نے احتساب کے بجائے حساب پر فوکس رکھا۔
احتساب تماشے کے دوران اس خدشے کو برابر باور کراتا رہا ہوں کہ زیر احتساب ہوں یا برسراقتدار قابلِ احتساب‘ اگر یہ سبھی بچ گئے تو کچھ نہیں بچے گا۔ گویا جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی۔ ریلیف اور ضمانتوں کے بعد اب معافیوں اور بریت نے ماضی کے سبھی ریکارڈ توڑ کر وہ ریکارڈ قائم کرڈالے ہیں کہ قانون اور انصاف بھی گم سم ہیں۔ اس سہم کے عالم میں وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ قوم کو ایک اور مرگِ نو سے دوچار کرنے کے لیے پھر بساط بچھائی جا رہی ہے۔ ووٹ کی سیاہی عوام کے مقدر پر ملنے کے لیے پھر الیکشن الیکشن کھیلنے جا رہے ہیں۔ سماج سیوک نیتاؤں کی شعبدے بازیوں اور اداکاریوں کے نئے ایڈیشن اور بدلتے ہوئے روپ بہروپ ماضی کے سبھی ادوار کا وہ ایکشن رِی پلے ہے جس کی قیمت چکاتے چکاتے کتنی ہی نسلیں زیرِ خاک جاسوئی ہیں اور بچ جانے والے زندہ درگور ہیں۔ اقتدار کے حصول اور بٹوارے کے لیے یہ حریف سے حلیف اور حلیف سے حریف بنتے ذرا دیر نہیں لگاتے۔ ان کی دوستیاں اور دشمنیاں مفادات اور ضرورتوں کی مرہونِ منت ہیں۔ مل کر کھیلنے اور کھانے والوں کے نظریات ہوں یا منشور اور ایجنڈے‘ سبھی منصوعی اور کھوکھلے ہیں۔ عوام سے مینڈیٹ ہتھیانے کے لیے یہ ایک دوسرے کو للکارتے اور پھنکارتے ہی چلے آئے ہیں۔
بلاول بھٹو آج کل بڑھ چڑھ کر اپنے سابق حلیفوں کے نہ صرف لتے لے رہے ہیں بلکہ ہنرمندانِ ریاست سے کھلا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کے بجائے مجھے ایک بار وزیر اعظم بننے کا موقع دیں جبکہ دوسری طرف امریکی اور برطانوی سفیر پاکستان کی سیاست میں گہری دلچسپی کے ساتھ اس طرح سرگرم ہیں کہ سرکردہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں امریکی سفیر کی جہانگیر ترین سے ہونے والی ملاقات کے نقطے ملائیں تو بننے والے خاکے کے تانے بانے مستقبل کے منظرنامے سے اس طرح جا ملتے ہیں کہ استحکام پارٹی کی بیساکھیوں کے بغیر حکومت سازی ہرگز ممکن نہ ہوگی۔
انتخابی دنگل اور نمائشی بڑھکوں سمیت آئندہ کے منظرنامے پر دانشوری کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ دو پرانے کالموں سے کچھ حوالے کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ قارئین کو یہ بارو کروایا جا سکے کہ مملکتِ خداداد کا حال اور مستقبل ماضی کے آسیب کی جکڑ اور پکڑ میں ہے۔ حالات کوئی بھی رُخ اختیار کر جائیں‘ حکمرانی کسی کے بھی ہتھے لگ جائے‘ ماضی کی سبھی بدعتیں کئی اضافوں کے ساتھ حال اور مستقبل برباد کرتی رہیں گی۔ ماضی کے کسی بھی دور کو کیس سٹڈی کے طور پر اٹھا لیں عصر حاضر پر فٹ بیٹھے گا۔
کالا دھن سفید خون
''اس تھیوری کو لے کر نجانے کب سے لکھ رہا ہوں کہ پون صدی کی تباہیوں‘ بربادیوں اور بداعمالیوں کا بوجھ سر پر اٹھائے کیونکر سنگین بحرانوں سے نکلا جا سکتا ہے۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر کس طرح حال اور مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ نازک دور اور نازک موڑ کے عذر اور ڈھکوسلے اٹھائے پھرنے والے سبھی حکمران ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مملکتِ خداداد سچ مچ نازک موڑ اور نازک دور سے دوچار ہو چکی ہے۔ ان کے جھوٹے بہانے پورا سچ بن کر ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ یہ حالات کی نزاکت کا احساس کرنے کے بجائے حالات کی سنگینی سے آنکھیں چراتے اور گمراہ کن بیانیے بیچنے سے آج بھی باز نہیں آ رہے۔ اقتدار کی دھینگا مشتی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں سیاسی اشرافیہ کو خبر ہونی چاہیے کہ اقتدار کے لیے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ گورننس اور میرٹ سے لے کر اقدامات اور اصلاحات سمیت ریاستی رِٹ جہاں غیر مؤثر ہوکر رہ جائے وہاں حکمرانی کیا خاک ہوگی؟ البتہ بچے کھچے ملکی وسائل اور قرض کی صورت میں تھوڑی بہت خزانے کی کھرچن موجود ہے جو اب مصاحبین اور وزیروں مشیروں کے اللے تللوں اور موج مستی کے لیے شاید ناکافی ہو۔ جن کو لت لگ چکی ہو‘ ان کے لیے تو کافی بھی ناکافی ہوتا ہے۔ چلتے چلتے انتہائی تلخ حقیقت اور خاصے کی بات بتاتا چلوں کہ 75 برسوں سے کوڑھ کاشت کرنے والے کس منہ سے کپاس اور گندم کی فصل کاٹنے کی تیاری کررہے ہیں؟ کوڑھ تو کوڑھ ہے خودفریبی کے لیے اسے گندم کہہ لیں یا خوش فہمی کا شکار ہوکر اسے کپاس کا نام دے لیں۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر ہریالی کے خواب دیکھنے والے یاد رکھیں کہ قانونِ فطرت کسی آرڈیننس اور قرارداد سے ہرگز نہیں بدلتا۔‘‘
ٹیڑھی اینٹیں اور جونکیں
''انتخابات کروانے کا شوق ضرور پورا کریں لیکن اس بار انتخابات سے پہلے خدارا وہ بنیادی نقائص اور خرابیاں ضرور دور کر لیں جو انتخابات کے بعد بگاڑ اور مزید بدصورتی کا باعث بنتی چلی آئی ہیں۔ کوئے اقتدار میں جگاڑ لگا کر داخل ہونے والے ہوں یا مال لگا کر ان سبھی گھس بیٹھیوں کی اخلاقی‘ فکری و سیاسی بلوغت تک انہیں راج نیتی سے دور رکھنا ہی ملک و قوم سے بڑی نیکی ہوگی۔ یہ نیکی کمانا ہی اصل قومی خدمت اور دھرتی سے محبت کا استعارہ ہو سکتی ہے۔ مسندِ انصاف پر براجمان منصفوں اور ہنرمندانِ ریاست و سیاست کی خاص توجہ کے طلبگار عوام اب مزید بھٹکنے اور ہر دور میں مرگِ نو کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ الیکشن سیاسی اشرافیہ کے مسائل اور ضرورتوں کا حل تو ہو سکتا ہے لیکن عوام کے مصائب اور مسائل کا حل کسی الیکشن میں نہیں نکلا تو آئندہ کیسے اُمید کی جا سکتی ہے؟ تاہم کنویں سے ہر بار چند بوکے نکالنے کے بجائے اسے نکالا جائے جو کنویں کو آلودہ کیے ہوئے ہے‘تب کہیں جاکر کنواں پاک ہو گا۔ کنواں پاک کرنے کے بعد الیکشن کرائیں یا ریفرنڈم‘سیاسی اشرافیہ کے بجائے ملک و قوم کو ترجیح بنا کر تو دیکھیں یہ نیکی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘