"AAC" (space) message & send to 7575

مکڑی کا جالا

ممکن ہے ریاست ماں جیسی ہی ہو لیکن ماں جب سوتیلی ہو تو دھرتی بھی پناہ دینے کے بجائے حالاتِ پریشاں میں اضافے کا باعث بنتی چلی جاتی ہے۔ ریاست کے قوانین عوام کے تحفظ اور سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ضد اور بوئے سلطانی کے مارے حکمران عوام کو کچلنے اور زیر عتاب رکھنے کے لیے بھی قانون کا استعمال خوب جانتے ہیں۔ افلاطون سے منسوب قول آج بھی مملکتِ خداداد پر من و عن صادق آتا ہے جس میں اس نے کہا تھا: قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ جہاں آئین کی ٹوٹ پھوٹ روایت ہو‘ وہاں ٹریفک قوانین کی پاسداری کیونکر ممکن ہے۔ یاد رکھیں! جب آئین ٹوٹتا ہے‘ قانون اور ضابطوں کے ساتھ ساتھ سبھی کچھ اس طرح ٹوٹتا چلا جاتا ہے کہ ٹریفک سگنل بھی ٹوٹنے سے نہیں بچ پاتا۔
جو ادارے ٹریفک لین کی پابندی کروانے میں لمحۂ موجود تک ناکام ہیں‘ وہ نوعمر لڑکوں سے تھانے بھرے چلے جا رہے ہیں۔ قانون کا نفاذ یکساں طور پر ہر خاص وعام پر لاگو ہوتا تو اور بات تھی یہاں تو غریب ماری اس طرح جاری ہے کہ پکڑے جانے والوں کی اکثریت طالب علموں‘ محنت کشوں اور بے وسیلہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے بے نیاز سرکار بلا لائسنس ڈرائیونگ کی حوصلہ شکنی ضرور کرے لیکن عوام شکنی ہرگز نہ کرے‘ بالخصوص طالب علموں کو کریمنل ریکارڈ کا حصہ بنا کر وہ ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچائے جو ان کا مستقبل بھی برباد کر ڈالے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں تیز رفتاری کی اضافی دفعہ شامل کرکے مقدمے کو مزید سنگین بنانے کے واقعات بھی ان بچوں کے ساتھ وہ دشمنی ہے جو کم از کم اس سرکار کو تو نہیں کرنی چاہیے۔
جہاں تنخواہوں‘ مراعات اور دیگر مہنگی سہولیات کا انحصار ٹریفک چالانوں سے حاصل ہونے والی رقومات پر ہو‘ وہاں ایسے حالات تو ٹریفک پولیس کے لیے کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں۔ نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں‘ اقدامات اور فیصلوں کے نتائج نیتوں کا پتہ دیتے ہیں۔ جب اِصلاح و ٹریفک قوانین کی پاسداری کبھی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہے اور اصل ہدف چالانوں سے حاصل ہونے والی رقوم ہی ہیں تو عوام کی تربیت و قانون کی پاسداری کیونکر ممکن ہے۔ لین کی پابندی سے ٹریفک حادثات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ مگر ٹریفک کا بہاؤ درست سمت اور ضابطوں کے مطابق ہو گیا تو چالانوں سے حاصل ہونے والی رقوم بھی تو بند ہو سکتی ہیں۔ شایداسی تناظر میں ٹریفک قانون کی پاسداری سے کہیں زیادہ وہ مراعات اور دیگر مہنگی سہولیات ہیں جن کا انحصار ٹریفک چالانوں پر ہے۔
اس ساری تمہید سے بغیر لائسنس اور کم عمر ڈرائیونگ کی حوصلہ افزائی مقصود نہیں لیکن مقدمات اور حوالات کے شب و روز کے علاوہ عدالتی کارروائی سمیت کریمنل ریکارڈ کا حصہ بننے تک سبھی مراحل کچے ذہنوں کو فکری اور نفسیاتی طور پر وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کا ازالہ شاید کبھی ممکن نہ ہو۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پولیس ہینڈلنگ‘ زبان اور رویے کا تڑکا ان نوجوانوں کو منفی رجحانات کی طرف اُکسانے کا سبب بھی بن سکتا ہے جبکہ دیگر سنگین جرائم میں ملوث حوالاتیوں کی صحبت ان کی شخصیت کو انتقامی اور تخریبی سرگرمیوں کی طرف بھی مائل کر سکتی ہے۔ خدارا! ذرا احساس تو کیجئے! ان میں سے اگر ایک بھی بھٹک گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ان بچوں کو جرائم کی نرسری میں ڈال کر نئے مجرم نہ بنائیں۔ اس کے برعکس اگر دیگر موجود اور موثر آپشنز پر غور کرتے تو شاید حوالات ان کچے ذہنوں سے نہ بھرے ہوتے۔ اس پر ستم یہ کہ گرفتار ہونے والوں کی اکثریت بے وسیلہ ہے‘ جن کے پاس نہ تو پولیس کو دینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی عدالتی اخراجات اٹھانے کے لیے‘ جن کی روٹی ہی بمشکل پوری ہوتی ہے ان کے لیے یہ مقدمات مالی صدمے اور ذلت کا باعث ہیں۔
شہر کی مصروف شاہراہوں اور بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار جہاں ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ اور حادثات کا باعث ہے وہاں اس کا کریڈٹ ٹریفک پولیس کو بھی برابر جاتا ہے۔ اپنی اصل ذمہ داریوں اور فرائض کے برعکس یہ عوام پر جس طرح جھپٹتی ہے‘ اس کے مناظر صبح شام جابجا ہر سُو دیکھے جاتے ہیں۔ صورتحال کی مزید وضاحت کے لیے اپنے ایک کالم بعنوان ''رات بھر نیند نہیں آتی‘‘ سے کچھ سطریں اس لیے مستعار لینے جا رہا ہوں کہ قارئین کو بھی پتہ چلے کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔ ''اس کے الفاظ آج بھی میری سماعتوں پر سوار ہیں۔ انتہائی درد مندی سے بولا کہ میری فیلڈ ڈیوٹی سے جان چھڑوا دیں‘ مجھے رات کو نیند نہیں آتی‘ ان موٹر سائیکل سواروں اور خستہ حال رکشہ ڈرائیوروں کی شکلیں سامنے آجاتی ہیں جن کے چالان سکور پورا کرنے کے لیے مجبوراً کرنا پڑتے ہیں۔ اکثر پرانی موٹر سائیکلوں پر بیوی کے ساتھ کئی بچوں کو لادے جارہے ہوتے ہیں‘ انہیں روک کر چالان کا جواز گھڑنا اور ان کی منت سماجت کے باوجود ان کے ہاتھ میں چالان تھما دینے کے جواب میں ان کے چہرے پر لکھی بددعائیں بھی باآسانی پڑھ لیتا ہوں۔ کئی بار کوشش کی کہ کوئی ڈیسک ڈیوٹی مل جائے لیکن ایسی کوششیں چند دن سے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ فیلڈ میں اگر چالانوں کا کوٹہ پورا نہ کریں تو شوکاز نوٹس اور ڈانٹ ڈپٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طے شدہ تعداد میں چالان نہ کرنے والوں کو سزاؤں اور دیگر محکمانہ عتاب کا بھی سامنا رہتا ہے۔ افسران کا اصرار ہے کہ فیلڈ ڈیوٹی کے علاوہ مطلوبہ چالان بھی کرنا پڑیں گے۔ سروس ضبط کرنے سے لے کر دیگر میجر سزائیں ان وارڈنز کا مقدر بن چکی ہیں جن میں انسانیت اور احترامِ آدمیت کی کچھ رمق باقی ہے۔ تنخواہیں حلال کرنے کیلئے عوام کو ناحق ذبح کرنا پڑتا ہے۔ حسبِ توفیق اس کی مدد اور آسانیوں کی کوشش کرتا رہا لیکن اس ڈریکولائی سسٹم سے کب تک اور کس کس کو بچایا جا سکتا ہے۔ اچھی بھلی نوکری اور شانوں پر سجے سٹارز چھوڑ کر اس کو دیارِ غیر میں ہی پناہ ملی۔ افسران کے لیے سڑک پر چلتے عوام تو بس کمائی‘ مراعات اور تنخواہوں کے تسلسل کا ذریعہ ہیں۔ پٹرول کی ناقابلِ برداشت قیمتوں اور مہنگائی کے مارے عوام کو چالانوں کے ٹیکے‘ اُف خدایا! دیہاڑ ی پر رکشہ چلانے والے محنت کشوں کی اکثر دن بھر کی کمائی تو ان چالانوں میں ہی چلی جاتی ہے۔ ان کے گھر میں چولہا جلے نہ جلے‘ بچے بھوکے رہیں یا گھر میں مریض دوائی دارو سے محروم رہیں‘ سرکار اور اس کے بابوؤں کی بلا سے‘‘۔
چلتے چلتے ایک خاصے کی بات! ایک سیاستدان کا تازہ ترین بیان ہے کہ ہمارے خلاف سازش کی کیا ضرورت تھی؟ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘ وطنِ عزیز پر حکمرانی کرنے والوں کے خلاف کسی سازش کی ضرورت ہی نہیں‘ وہ یہ کام خود بخوبی کر لیتے ہیں یا ان کے شریک اِقتدار اور سر چڑھے مصاحبین گلے کا طوق اور پیروں کی بیڑیاں بن کر سازش کی تکمیل کر ڈالتے ہیں۔ نگران سرکار کی طرزِ حکمرانی اور تھانے بھرو پالیسی کی قیمت آئندہ انتخابات میں صرف مسلم لیگ(ن) کو ہی چکانا پڑے گی۔ پرانی سازشوں کو چھوڑ کر اس نئی بساط کی بھی خبر لیں جو غیر محسوس طریقے سے کانٹوں کی طرح بچھائی جا رہی ہے‘ تاہم غیرموافق اور غیرمقبول حکومتی اقدامات سے لاتعلقی اور مذمت کرکے ہی نئی سازش پر بند باندھا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں