ایک تصویر ہزار الفاظ پہ بھاری ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں وزیراعظم کا شاندار استقبال اور پذیرائی کی تصاویر ہوں یا قصرِ یمامہ میں مذاکرات کے بعد جاری ہونے والی سعودی رہنمائوں کی فیلڈ مارشل کے ساتھ گروپ فوٹو‘ سبھی کی باڈی لینگوئج پوری داستان سموئے ہوئے ہے۔ مشترکہ دفاعی معاہدہ تو بجا طور پر سونے پہ سہاگا ہے‘ خدا کرے یہ سبھی عہد وپیماں اور سرگرمیاں دستاویزات اور تصویروں تک محدود نہ رہیں۔ خطے میں اسرائیل کی ظالمانہ جارحیت اور بھارتی فوج کا پول کھلنے کے بعد مسلم اُمّہ کو یہ احساس ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ایک طر ف اسرائیل کے ناپاک ارادے اور غاصبانہ عزائم ہیں تو دوسری طرف پاک فوج نے حالیہ جنگ میں بھارت کو دھول چٹا کر ثابت کر ڈالا ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں نہیں لڑی جاتیں‘ جذبہ اور سرفروشی بھی ضروری ہے۔ جدید ٹیکنالوجی‘ لڑاکا طیاروں‘ میزائلوں اور اسلحہ کے انبار ہرگز کافی نہیں ہوتے۔ پاک فضائیہ نے دنیا کی چوتھی بڑی فوج کو وہ سبق دیا ہے جو امریکہ سمیت اقوامِ عالم کو بھی ازبر ہو گیا ہے۔
پاک بھارت جنگ سے قبل متحدہ عرب امارات سے لے کر سعودی فرمانراؤں اور دیگر سبھی ممالک تک کا جھکاؤ بھارت کی جانب نسبتاً زیادہ تھا۔ نریندر مودی کی آؤ بھگت اور واری واری جانے کے سبھی مناظر آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ مسلم اُمّہ کا بیشتر بھائی چارہ تو بھارت ہی چَرتا رہا ہے۔ برادر مسلم ملک سے دفاعی معاہدوں کا خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ بھارت سے جنگی فتح کے بعد قدرت نادر اور سنہری مواقع برابر فراہم کر رہی ہے۔ عالمی پذیرائی بلاشبہ پاک فوج کی اعلیٰ صلاحیتوں کا کھلا اعتراف ہے۔ مسلم اُمّہ کا یہ بھائی چارہ اور اتحاد میدانِ عمل میں بھی اُتر آیا تو اسرائیل کے سبھی مغالطے بخوبی دور کیے جا سکتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی اور غیر معمولی حجم کی حامل فوج رکھنے والے بھارت کی درگت اگر اکیلا پاکستان بنا سکتا ہے تو پچاس سے زائد مسلم ممالک کے سامنے اسرائیل کی کیا اوقات؟ اسرائیل کی جرأت بڑھانے میں مسلم اُمّہ کی خاموشی اور پہلوتہی کا بڑا کردار ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہوتا تو دوبارہ اینٹ اٹھانے کے قابل بھی نہ رہتا۔ اس کی جارحیت کا جواب صرف اسی کی زبان میں دیا جائے تو جوابی آپریشن کا نتیجہ چند منٹوں میں نکل سکتا ہے۔ فوٹو سیشن بھی ہو گئے‘ استقبال اور استقبالیے بھی ہو گئے‘ تاریخی معاہدے اور قول و اقرار بھی ہو گئے‘ اب اگلا مرحلہ تو بس عمل کا ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ زندگیوں کو جنت بنانا ہے یا جہنم ہی بنائے رکھنا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اس بار اگر غبارے سے ہوا نکلی تو قدرت کی بٹھائی دھاک اور سارا بھرم بھی جاتا رہے گا۔ جنگجوؤں نے توپیں خیر مقدمی سلامی کے لیے ایجاد نہیں کی تھیں بلکہ دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ایجاد کی گئی تھیں۔ مسلم ممالک نے شاید ان توپوں کا کردار فقط سلامی کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ ان توپوں کے گولے بھی آپس میں گپ شپ کرتے ہوں گے کہ ''اَسّی سلامی جوگے ای رہ گئے آں‘‘۔
خدارا اس وقت کو آسمانی تحفہ اور غنیمت جانیں‘ اس نادر موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو مستقل خسارے نصیب بن جائیں گے۔ جنہیں آج دبایا اور مٹایا جا سکتاہے کل سنبھالے نہیں جائیں گے۔ لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے۔ مصلحتوں اور مجبوریوں میں عمریں اور نسلیں پہلے ہی گنوا چکے ہیں‘ اسرائیل کو مزید نظرانداز کرنا خطے میں بدامنی اور تباہی کے علاوہ جغرافیائی تبدیلیوں کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہو گا۔ فلسطین کو وہ حرفِ غلط کی طرح مٹانے کے لیے پہلے ہی ساری حدیں پار کر چکا ہے۔ تاریخ کا دردناک انسانی المیہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے‘ ہمسائے کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے پانی یہ سوچ کر ہی ڈال دینے چاہئیں کہ یہ آگ کہیں میرے گھر نہ آ پہنچے۔ مسلم اُمہ کی خاموشی اور غفلت کھلا پیغام دے رہی ہے کہ اسرائیل ایک خونخوار بلی اور ہم سب وہ کبوتر ہیں جو بلی کے خوف سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور کسی کو بلی نظر نہیں آ رہی۔ خاطر جمع رکھیے! بلی کو سب نظر آ رہا ہے‘ کون سا کبوتر کتنا سہما اور کتنا ڈرا ہوا ہے۔ اس کا اگلا ہدف کب اور کون ہو گا اس کا فیصلہ بلی ان سبھی کا ڈر اور خوف دیکھ کر کرے گی‘ کون آسان اور ترنوالہ ہو سکتا ہے اس کا انحصار بلی سے زیادہ کبوتروں پر ہے۔ قطر پر حملے کا بھرپور زبانی جواب تو جا چکا لیکن اسرائیل زبان کا اثر کہاں لیتا ہے؟ اس نے کئی بار ٹیسٹر لگائے ہیں‘ ہر ٹیسٹ کا نتیجہ اس کی توقعات اور یقین کے مطابق ہی نکلا ہے۔ وہ سبھی کو جانتا ہے کہ:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
اگلے چند روز اس تاریخ ساز دورۂ سعودی عرب کی بڑی سفارتی حیثیت ثابت کرنے کے لیے خیر مقدمی نعروں‘ تشہیری مہم اور ٹاک شوز میں گزر جائیں گے۔ ایسے یادگار لمحات کا جشن ضرور منائیں لیکن یاد رہے کہ اس جشن کے شادیانوں میں غزہ سے اٹھنے والی فلک شگاف فریادیں‘ آہیں اور سسکیاں نہ دَب جائیں۔ بھوک سے بلکتے اور لمحہ بہ لمحہ مرتے بچے فراموش نہ ہو جائیں۔ کیا ہی اچھا ہو‘ ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کرنے کے بجائے‘ ایک پر حملہ سب پر حملہ مانا جائے اور اس معاہدے میں فلسطین کو بھی شامل کر کے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کا شکار ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کی قربانیوں کا حق ادا کیا جا سکتا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشترکہ فورس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بطور ایٹمی طاقت مسلم اُمہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے‘ جو یقینا عالمی غنڈہ گردی کو کھلا پیغام ہے۔ ان تجاویز پر جنگی بنیادوں پر عملدرآمد میں ہی مسلم امہ کی بقا اور آبرو پوشیدہ ہے۔ پاکستان کو تمام مسلم ممالک میں کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت حاصل ہے جبکہ دیگر ممالک بیش بہا قدرتی وسائل کے علاوہ بے پناہ دھن دولت سے مالامال ہونے کے باوجود دفاعی امور میں خاصے کمزور ہیں اور ان کی صلاحیتیں ممکنہ چیلنجز کے آگے ناکافی ہیں۔ ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین افواج میں شامل پاک فوج کی منفرد اور امتیازی حیثیت کے بل بوتے پر ملک کو اقتصادی استحکام اور خوشحالی سے بھی ہمکنار کیا جا سکتا ہے‘ ضرورت صرف مؤثر حکمتِ عملی اور بروقت فیصلوں کی ہے۔ سرمایہ کاری سے لے کر علم وہنر سمیت دیگر شعبوں تک کی بھی کایا کلپ کی جا سکتی ہے۔
موجودہ عالمی منظرنامے نے بھارت کو نُکڑے لگایا ہوا ہے‘ اس منظر میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سفارتی جدوجہد کو یونہی مؤثر انداز سے جاری رکھنا ضروری ہے۔ جوں جوں پاکستان کا دائرۂ اثر بڑھتا رہے گا توں توں بھارت کا اثر اور رنگ اترتا رہے گا۔ رنگوں کا یہ اتار چڑھاؤ ملکی سالمیت اور استحکام سے منسوب اور مشروط ہے۔ بروقت اور بہترین فیصلے دکھائی تو دے رہے ہیں لیکن اس قومی فریضے کو ذاتی ایجنڈوں‘ مفادات اور کاروباری سوچ سے کوسوں دور رکھنا بھی ضروری ہے جبکہ اس میں کسی قسم کی آمیزش یا ملاوٹ دھرتی ماں سے بدترین بددیانتی ہو گی۔ خدارا! اس آئیڈیل صورتحال کو قدرت کا انمول اور آخری موقع جان کر پاکستان‘ پاکستان اور فقط پاکستان کی حد تک محدود رکھیں‘ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔