"AAC" (space) message & send to 7575

بلوچستان توجہ کا مستحق

گوادر کی بندگاہ تک سی پیک منصوبے کے ذریعے چین کی رسائی نے صدیوں سے نظروں سے اوجھل بلوچستان کی ترقی کے امکانات کو روشن کیا تو تکنیکی مہارت سے عاری بلوچ قبائل کو ایک طرف آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے خوف نے دبوچ لیا تو دوسری جانب سٹرٹیجک اہمیت کی حامل گوادر کی تجارتی بندرگاہ عالمی طاقتوں کے مابین کشمکش کا میدان بن کرایک نئے امتحان میں ڈال رہی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں سوئی میں جب قدرتی گیس دریافت ہوئی تو اُس وقت کی آئل اینڈگیس نکالنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے اپنی کل کمائی کا چالیس فیصد مقامی آبادیوں کی بہبودکیلئے خرچ کرنا لازم تھا؛ چنانچہ متذکرہ کمپنیوں نے بلوچوں کے لیے تعلیم اور صحت جیسی سہولتوں سے مزین مفت رہائشی کالونیاں بنا کر دینے کی پیشکش کی مگر چند بلوچ سرداروں نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو مسترد کر دیا کہ جدید شہری تمدن ہمارے قبائلی رسم و رواج سے میل نہیں کھاتا۔ گزرے وقتوں میں بلوچ ہمہ وقت محو سفر رہتے تھے، اگراِن گلہ بان خانہ بدوشوں کی عارضی خیمہ بستیوں کے قریب روزمرہ استعمال کے پانی سے گھاس اگنے لگتی تو وہ نقل مکانی کر کے دس میل دور جا بیٹھتے تاکہ صحرانوردوں کی آبادی کہیں جڑ نہ پکڑ لے۔ گلہ بانی سے منسلک قبائلی روایات نے بلوچ عوام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق خانہ بدوشی ترک کرکے مستقل معاشرت میں ڈھلنے کی اجازت نہ دے کر نوع انسانی کے اجتماعی دھارے سے الگ تھلگ رکھا؛تاہم مُرورِ ایام کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت نے جب بادیہ نشین بلوچوں کی نئی نسلوں کو جدید طرزِ معاشرت کی رنگینیوں سے متعارف کرایا اور گلوبل ارتقا نے بلوچستان کے طول و عرض میں ترقیاتی منصوبوں کی راہ ہموار کی تو انہیں اپنے سماج میں بنیادی مہارتوں کی حامل افرادی قوت میسر نہ تھی، اس لیے ممکنہ طور پر باہر سے منگوائی جانے والی ہنرمندوں کی بڑی تعداد نے بلوچستان میں آبادی کا تناسب بدل جانے کا ایسا خوف پیدا کیا جس نے بلوچ سرداروں کو ترقی کے خلاف مزاحمت پر کمربستہ کر دیا۔
صنعتی معاشروں میں لوگوں کو جانچنے کے لیے حسب نسب نہیں بلکہ تخلیقی قوت کو معیار مانا جاتا ہے اورجمہوری نشو ونما کی ابتدا بھی اقتصادی مساوات اور سماجی آزادیوں سے کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے‘ اگر بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے تو غیرملکی ماہرین اور چینی انجینئرزکے علاوہ الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر، لوہار، ترکھان اور ڈیزائنرز سمیت کافی تعداد میں سکِلڈ لیبر باہر سے منگوانا پڑے گی، جن کی روزمرہ ضروریات کے لیے بیکری، گروسری، ہیرڈریسرز، حمام، ڈاکٹرز، میڈیکل ٹیکنیشن بلکہ ترقیاتی پروجیکٹس میں کام کرنے والے مزدور بھی دوسرے صوبوں سے لانے کے بعد معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پولیس فورس اورشہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا محافظ نظامِ عدل کے قیام کی ضرورت پڑے گی۔ بلوچوں میں قابلِ ذکر تعداد چونکہ جدید تکنیکی ہنر کو فروترسمجھ کر نظرانداز کرتی رہی؛ چنانچہ ان کے لیے گلہ بانی کی ثقافت سے باہر نکل کر سماجی زندگی کا تصور محال ہے‘ وہ اپنے سرداروں کے تحت جینے کے خوگر ہونے کی وجہ سے آفاقی شعور سے ناواقف ہیں۔ لاریب‘ انہیں ایسے نورِ علم کی ضرورت تھی جو انہیں زندگی کے عالمگیر تصور سے بہرور کر سکے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ75 سالوں میں کسی حکومت نے تاریخی تناظر میں بلوچستان کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی نہ عام بلوچوں کے دکھ درد اور مسائل کا حل تلاش کرنے پہ توجہ دی۔ ہرحکومت مقامی سرداروں کی ناراضی کے خوف سے انسانی ترقی کے عمل کو آگے بڑھا کر بلوچ سماج کی فلاح و بہبود کیلئے تخلیقی اپروچ اور سکِل ڈویلپمنٹ کا کوئی پروگرام متعارف کرا سکی نہ نچلی سطح سے تازہ دم قیادت کو ابھارنے کی خاطر نئی راہیں استوارکرنے کے قابل ہوئی۔ بلوچ گلہ بان آج بھی چار ہزار سال پرانے ششک ٹیکس (چھٹی بکری سردار کی ہو گی) دینے پہ مجبورہیں۔ تاریخی دلچسپی کیلئے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ آج بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے زمیندار غریب مزارعین سے ششک نامی یہ ظالمانہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔
قصہ کوتاہ‘ 2019ء میں سینیٹرساجد توری نے کم و بیش 20 سینیٹرز کی حمایت سے بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کا بل پیش کیا تاکہ بلوچستان کی سیاسی فضا پر چھائے جمود کو توڑ کر صحت مند تبدیلیوں کی راہ ہموار بنائی جائے۔ اس بل کی بنیاد جن تین منطقی تقاضوں پہ رکھی گئی‘ وہ جائز اور قابلِ عمل تھے۔ پہلا تقاضا یہ تھا کہ وسیع و عریض علاقت پہ پھیلے حلقہ ہائے نیابت رکن قومی اسمبلی سے سنبھالے جاتے ہیں نہ ایم این اے کے محدود فنڈز سے اِن حلقوں میں ترقیاتی کام ہو سکتے ہیں۔ دوسرا‘ آٹھ دہائیوں پہ محیط سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ محدود نشستوں پر بڑے گھرانوں کی مستقل اجارہ داریوں کی وجہ سے نئی منتخب لیڈرشپ کے ابھرنے کی راہیں مسدود ہیں۔ اگر نئی نشستیں تخلیق کی جائیں تو نوجوان نسل کے باصلاحیت لوگوں کو آگے آنے کے مواقع مل جائیں گے۔ تیسرا‘ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سب سے چھوٹی ہے۔ نشستیں بڑھ جانے سے یہ پسماندہ صوبہ کسی حد تک وفاق کی دیگر اکائیوں کے ہم پلہ ہو کر ترقی کے ہموار عمل سے ہم قدم اور فیصلہ سازی کے مرکزی دھارے میں شامل ہو جائے گا جس سے قومی سلامتی کے تقاضوں کی بہتر تکمیل ممکن ہونے کے علاوہ غریب عوام کی نئی نسلیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی پا لیں گی لیکن بعض تکنیکی وجوہ کو جواز بنا کر پیپلزپارٹی نے ایوان میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کی مخالفت کی۔ متعلقہ کمیٹی کی منظوری کے باوجود متذکرہ ترمیمی بل سینیٹ میں ڈمپ ہو گیا۔ بل کے فعال محرک اور قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹرعثمان کاکڑ(مرحوم) نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 1998ء کی مردم شماری میں بلوچستان کی کل آبادی65 لاکھ تھی‘ آئینی فارمولے کے مطابق صوبائی اسمبلی کیلئے بلوچستان کی51 جنرل، خواتین کی11مخصوص اوراقلیتوں کی3 نشستیں ملا کر کل 65 نشستیں اور قومی اسمبلی کیلئے 16 نشستیں مختص کی گئی تھیں لیکن دو دہائیوں بعد‘ 2017ء کی مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی 1 کروڑ20 لاکھ سے بڑھ گئی؛ چنانچہ صوبائی اسمبلی کی20 اور قومی اسمبلی میں بلوچستان کی9 نشستیں بڑھانے کیلئے آئین میں ترمیم ناگزیر ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حمایت کے باوجود سندھ نے اس مطالبے کی مخالفت کرکے بلوچوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ زرداری صاحب نے کہا ہم صوبائی اسمبلی کو 20 کے بجائے 30 مزید نشستیں دے سکتے ہیں مگر قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کے حق میں نہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ مربع کلو میٹر پہ محیط بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا 44 فیصد بنتاہے، دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ کا حامل ہونے کے علاوہ آئل و گیس اور سونے سمیت دیگر قیمتی معدنیات پیدا کرنے کی وجہ سے قومی خزانے میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود این ایف سی ایوارڈ اور ترقیاتی کاموں کیلئے سب سے کم حصہ بلوچستان کو ملتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ 44750 مربع کلو میٹر پر محیط چاغی ڈویژن، جنوبی خیبرپختونخوا کے کوہاٹ اور بنوں سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلے تین ڈویژنوں سے بڑا ہے لیکن چاغی، نوشکی اور خاران جیسے تین بڑے اضلاع کیلئے ایم این اے کی ایک نشست ہے۔ مستونگ، قلات اور سکندرآباد کیلئے بھی ایم این اے کی ایک نشست ہے۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، لہڑے اور سبی ڈسٹرک کیلئے بھی ایم این اے کی ایک نشست ہے۔ نصیرآباد، جھل مگسی اور کچی پہ مشتمل ڈویژن کیلئے بھی قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ہے۔ جعفرآباد اور صحبت پور‘ ایک نشست۔ لسبیلہ اور گوادر‘ ایک نشست۔ پنجگور، واشک، آواران‘ ایک نشست۔ اسی طرح شمال میں قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی ڈسٹرک کیلئے ایک نشست۔ موسی خیل، دکی، زیارت، ہرنائی اور لورالائی کیلئے ایک نشست۔ صرف پشین اور قلعہ عبداللہ کیلئے الگ الگ نشستیں مختص ہیں۔ قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست والے یہ ڈویژنز رقبے کے اعتبار سے پورے خیبرپختونخوا سے بڑے ہیں‘ جہاں اندرونِ ضلع رابطہ سڑکوں کی تعمیر کیلئے بھاری فنڈ درکار ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کے چار اضلاع پر مشتمل حلقوں کو کراچی کے ایک حلقے جتنے فنڈز بھی میسر نہیں ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں