"AAC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات اور طالبان کا مستقبل…(2)

ادھرپینتالیس سالوں سے افغان تنازع کا بنیادی فریق رہنے کے باعث پاکستان بھی ان عالمی پابندیوں اور امریکیوں کی سرد مہری کے نتائج بھگت رہا ہے۔افغانستان کی سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی سے قطع نظر عالمی طاقتوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ پوری قوم کو مقتدرہ اور پی ٹی آئی کے مابین جاری کشمکش میں الجھا دیا اوراس نامطلوب جدلیات کو زیادہ گمبھیر بنانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کو بروئے کار لا رہی ہیں۔بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ یہ تنازع مزید گہرا ہو گا۔شاید اسی جمود کے مہلک اثرات سے باہر نکلنے کی خاطر جنرل عاصم منیر کا دورہ ٔامریکہ اہم پیش دستی ثابت ہو۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ آرمی چیف کا دورۂ امریکہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کی طرف کسی سنجیدہ پیش رفت کا وسیلہ بنے‘ تاہم فی الوقت افغان ایشو کے حوالے سے امریکی عزائم کی گہرائی کو جانچنا ممکن نہیں خاص کر افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی پاکستانی فورسز کے خلاف مہیب کارروائی محلِ نظر رہے گی۔ آرمی چیف نے امریکی فوجی افسران‘ محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے حکام سے اہم ملاقاتوں کے علاوہ فلوریڈا میں سنٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا‘ خارجہ امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان وسیع تر تعاملات سے تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے میں مدد ملے گی‘ جو اگست 2021 ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد سے متغیر چلے آ رہے ہیں۔تاریخی طور پہ امریکہ کی علاقائی صف بندیوں اور ترجیحات کی تشکیل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہمیشہ غیرمتعین رہی‘جس نے ہماری مملکت کے فطری ارتقا کو ہیڈلاک میں رکھا‘اس کے برعکس چین نے قدرتی خطوط پہ سیاسی‘ سماجی اور معاشی ارتقا پا کر جنوبی ایشیا کی فضا میں اپنے لئے اہم مقام حاصل کرلیا جبکہ پاکستان امریکی مفادات کے محور میں رہنے کی بدولت ایک قسم کی اُفقی گردشوں میں الجھا رہا۔ سب سے پہلے‘ سرد جنگ میں‘ جب امریکہ کا مقصد کمیونزم پر قابو پانا تھا‘ پاکستان امریکہ کا ''سب سے بڑا اتحادی‘‘ ہونے کے ناتے سیاست کے مذہبی عوامل کی تشکیل کی بدولت آئینی نظام کی چھتری اور جمہوری لچک سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ خاص کر 1979 کے بعد افغانستان پر روسی جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمتی تحریکوں کی حرکیات کا حصہ بن کر پاکستان نے کسی حد تک اپنے دفاعی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے کے باوجود سماجی وجود کو متعدد حصوں میں منقسم کر دیا جس کے مہلک اثرات آج بھی ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔
پھر 9/11کے بعد کا مرحلہ جس میں 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کا اتحادی ہونے کا باب افغانستان سے امریکی انخلاکے ساتھ دردناک انجام پہ ختم ہوا۔ تاہم ان مراحل نے ایک ناقابلِ فہم حقیقت کو واضح کیا کہ قوموں کے درمیان تعلقات میں مثبت تبدیلیاں تقریباً ہمیشہ دوطرفہ مفادات کی وجہ سے آتی ہیں؛چنانچہ افغانستان میں ناکام جنگ امریکہ کیلئے پاکستان سے ربط و تعلق منقطع کرنے کا ذریعہ بنی کیونکہ پاکستانی قیادت سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے پر زور دیتی رہی لیکن واشنگٹن میں اعلیٰ قیادت کا خیال تھا کہ امریکہ کی طاقتور افواج اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان کو شکست سے دوچار کر سکتی ہیں‘تاہم اسلام آباد میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں پر 'ڈومور‘ کے لیے دباؤ بڑھاتے ہوئے امریکہ نے بیس سالوں تک اس بے مقصد جنگ کو جاری رکھا۔طاقت کے نشہ میں سرشار امریکیوں نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور جانوں کی بھاری قیمت چکانے کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں عسکریت پسندوں کے حملوں سمیت سنگین سماجی اور اقتصادی نتائج کا سامنا کرنے کے لیے یہ تنازع پہلے ہی کافی نقصان پہنچا چکا ہے‘ لیکن جوں جوں امریکی جنگی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی گئیں‘توں توں تعلقات میں تناؤ بھی بڑھتا گیا اور بالآخر دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ پاکستان نے طالبان کے ساتھ رابطے کا اپنا چینل کھلا رکھنے کی اس یقین کے ساتھ کوشش کی تھی کہ ایک دن سب کو ان سے نمٹنا پڑے گا لیکن واشنگٹن نے اسے پاکستان کی 'ڈبل گیم‘سے تعبیر کیا۔افغانستان سے امریکی انخلا سے پہلے ہی جغرافیائی سیاسی حرکیات بنیادی طور پر تبدیل ہو رہی تھیں کیونکہ جس وقت چین نے اپنی اقتصادی مصروفیات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو شروع کیا تو اس وقت پاکستان سمیت علاقائی ممالک امریکی مفادات اور اثر و رسوخ دونوں میں کمی محسوس کر رہے تھے۔اسی تناظر میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''امریکہ فرسٹ‘‘ خارجہ پالیسی پاکستان سے علیحدگی کا واضح اشارہ تھی‘یہی امریکی طرزِ عمل چین کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ سٹریٹجک تعلقات استواری کا زینہ بنا۔ وہ BRI میں اس کے اہم کردار اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان کے بنیادی ڈھانچے‘ توانائی اور ترقیاتی منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کے ساتھ زیادہ مؤثر ہوتا گیا؛ چنانچہ امریکہ کو اپنے جانبدارانہ اصولوں کے علاوہ تذبذب کے شکار ایسے علاقائی کھلاڑی کے طور پر دیکھا جانے لگاجو اپنی خود غرضی کے باعث انسانی آزادیوں کا احاطہ کرنے والا عفریت ہو۔
چین کی زیادہ تعمیری اور پائیدار تعلقات کیلئے درکار دلچسپی‘سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا پاکستان کے سلامتی اور اقتصادی مفادات کو پورا کرتا ہے۔اگرچہ چین اب بھی پاکستان کی اولین سٹریٹجک ترجیح ہے لیکن اسلام آباد امریکہ کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے اور شاید یہی خواہش جنرل عاصم منیر کے دورۂ امریکہ کی اساس بنی ہو گی۔تاہم اب بھی امریکہ کی چین پر قابو پانے کی پالیسی اور بیجنگ کی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ممالک کو اس میں شامل کرانے کی حکمت عملی پاک امریکہ تعلقات کی راہ میں حائل ہے اور ہمارا موجودہ سیاسی بحران بھی اس جدلیات کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ 2014ء کے دھرنوں کی طرح امریکہ‘چین تصادم کے پاک امریکہ تعلقات اور قومی سیاست پر واضح اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ لیکن پاکستان امریکہ چین تصادم کے گھیرے میں آنے سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ جب تک امریکہ اور چین کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اس کا اثر پاکستان کی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینے کی کوششوں کی راہ روکتا رہے گا۔ایک اور پیچیدہ عنصر بھارت کے ساتھ واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اور اقتصادی روابط ہیں جو خطے میں مغرب کی کنزیومر مارکیٹ اور بڑا سٹریٹجک پارٹنر ہے‘ جس کی حکمت عملی میں بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک متبادل قوت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ امریکہ بھارت تعلقات کے پاکستان پر اثرات اس طرح واضح ہیں کہ واشنگٹن نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بھارت سے غیر قانونی الحاق اور وہاں کی سنگین انسانی صورتحال پر آنکھیں بند کر لیں۔
مزید برآں‘ امریکہ بھارت کی فوجی اور سٹریٹجک صلاحیتوں کو مضبوط کرکے پاکستان کی سلامتی کیلئے چیلنجز بڑھانے کی کوشش میں سرگرداں ہے‘ لیکن اب پاکستان بھی مستقبل کے تعلقات کی بنیاد ملک کی اندرونی اہمیت کے مطابق کرنا چاہتا ہے نہ کہ کسی تیسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے ذیلی عنصرکے طور پر۔اس لئے اب ملک کو شخصی آمریت کے برعکس آئینی نظام کی چھتری تلے لانے کی طرف پیشقدمی مملکت کے وجود کو قوم کی اجتماعی وِل کے تابع لانے کی شعوری کوشش ہے‘تاکہ فردِ واحد کی بجائے عالمی مقتدرہ کو پاکستانی قوم سے معاملات کی طرف مائل کیا جائے۔لاریب‘عوام کی منتخب حکومت ہی دراصل وہ سدِجارحیت ہے جو ہمیں امریکی استیلا سے نجات دلا سکتی ہے۔یعنی باہمی تعلقات کو سیکورٹی فوکس سے ہٹ کر دیگر شعبوں خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری تک محدود رکھناچاہئے‘تاہم دونوں ممالک کو تعلقات کی تشکیلِ نوکیلئے منتخب حکومتوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔(ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں