ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر نے خطے کو وقفِ اضطراب رکھنے والے عناصر کی روایتی درجہ بندی پہ نظرثانی کی ضرورت کو بڑھا دیا ہے اور اسی سوچ نے بالآخر مقتدرہ کو فساد کے ظاہری عوامل اور پس پردہ کارفرما سرچشموں کو مینج کرنے کی حکمت عملی تک پہنچا دیا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ بیرونی طاقتوں کی ایما پر قتل و غارت اور تشدد کے تانے بانے سرحد پار سے اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں لیکن 12دسمبر کی صبح خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں فوجی کیمپ پہ ہونے والے اُس خودکش حملے جس میں 25بہادر جوان شہید اور 30سے زیادہ زخمی ہوئے‘ نے سوچ کو کئی نئے اُفق عطا کر دیے کیونکہ طویل عرصے بعد ایک ہی دن میں دہشت گردی کے واقعہ میں اتنا بڑا جانی نقصان یہ ظاہر کرتا ہے کہ عسکریت پسند اب جدید خطوط پہ منظم اور تربیت یافتہ ہیں۔ 16دسمبر کی رات ڈیرہ اسماعیل خان کے ملحقہ ضلع ٹانک کی پولیس لائن پہ کیے گئے خود کش حملے کو اگرچہ پولیس نے ناکام بنا دیا لیکن اس حملے میں تین پولیس اہلکارشہید ہو گئے جبکہ پانچ دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ تواتر کے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات کو اگر نظر انداز کیا گیا تو چند ماہ بعد ٹی ٹی پی مزید قدم جما لے گی۔
یہ تاثر روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے وہ دہشت گرد دوبارہ فعال ہو چکے ہیں جنہیں سرحد پار محفوظ ٹھکانے اور غیرمعمولی لاجسٹک سپورٹ میسر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عسکریت پسندوں نے نومبر میں مجموعی طور پر 63دہشت گردانہ حملے کیے جن میں 37سکیورٹی اہلکاراور 33شہری شہید ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پچھلی حکومت میں اختیار کی گئی اُن تباہ کن پالیسیوں کے نتائج ہیں جس میں امن معاہدے کرکے مسلح عسکریت پسندوں کو قبائلی علاقوں میں واپس آنے کی سہولت ملی‘ جس سے کالعدم تحریک طالبان کو پھر سے ان علاقوں میں تسلط پانے کا موقع ملا جہاں سے انہوں نے اپنی کارروائیاں شروع کیں‘ جہاں سے انہیں 2016ء کے فوجی آپریشن میں نکال دیا گیا تھا۔ حالیہ حملوں کی ذمہ داری بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے اُس دھڑے نے قبول کی ہے جس نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک پھیلا رکھا ہے۔ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع خضدار میں سلطان ابراہیم روڈ پر سی ٹی ڈی کی گاڑی پر بم حملہ کرکے ایس ایچ او کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے قبل بلوچستان کے علاقے حسین آباد میں ہونے والے دھماکے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ ہی دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے خرم تھانہ پر راکٹوں سے حملہ کیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں بنوں میں سی ٹی ڈی کے دفتر میں بند دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور اس آپریشن میں 25انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ضلع لکی مروت میں پولیس تھانوں اور سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر نہ تھمنے والی جارحانہ کارروائیوں نے نظامِ زندگی شدید متاثر کیا ہے۔ 7نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درہ زندا میں آئل اینڈ گیس کمپنی کے کیمپ پر حملے میں دو پولیس اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے تھے۔ 6نومبر کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں لیفٹیننٹ کرنل سمیت پاک فوج کے چار اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ اس سے قبل 5 نومبر کی شب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس چوکیوں پر متعدد حملے کیے‘ کلاچی تھانے کی حدود روڑی میں چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں ایک کانسٹیبل زخمی ہوا تھا۔ 4نومبر کو دہشت گردوں کے پاک فضائیہ کے تربیتی ائیر بیس میانوالی پر حملے کے دوران پاک فوج نے طیاروں کو نقصان پہنچانے کوشش ناکام بناتے ہوئے 9 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔ متحرک شرپسند طالبان گورنمنٹ کی آشیرباد سے افغانستان میں پناہ گزیں ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے دوران ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں اگرچہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پختون اکثریتی علاقوں تک محدود ہیں لیکن ان عوامل سے نمٹنے میں تاخیر ہوئی تو ٹی ٹی پی ان کارروائیوں کا دائرہ دیگر علاقوں تک پھیلا سکتی ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کچھ علیحدگی پسند گروپوں اور ٹی ٹی پی نے ہماری فورسز کے خلاف مبینہ گٹھ جوڑ بنا لیا ہے۔ ٹی ٹی پی سے قریبی تعلق رکھنے والے گروپوں نے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرکے ہماری مشکلات بڑھا دی ہیں۔ حالیہ حملوں کے دوران ملنے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں گروہ افغانستان میں امریکہ کی طرف سے چھوڑے گئے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ ملحقہ سرحدی اضلاع میں دہشت گردوں کو آزادانہ نقل و حرکت خطے میں ایک نئی شورش کی غمازی کرتی ہے۔ 17دسمبر کو ایران میں پولیس لائن پہ دہشت گرد حملے کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں تحریک طالبان تاجکستان کی موجودگی شمالی افغانستان میں سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی National Resistance Movement کی طرف سے طالبان کی پوزیشنوں پہ حملوں کو جواز فراہم کر گئی۔ این آر ایم کو روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ افغان طالبان کے دھڑے کی طرف سے ٹی ٹی پی کو پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے اور خاص طور پہ ضم شدہ قبائلی علاقوں کی پرانی حیثیت بحال کرنے پہ اصرار کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں سکیورٹی کے نئے پیرا ڈائم ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہی تغیراتی پیچیدگیوں کو بھانپ کر افغان طالبان نے ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کے ذریعے امن معاہدوں کے انہی فرسودہ طریقوں کو آزمانے کی ٹھانی ہے جن کی بدولت دو سال قبل وہ پاکستان میں بدامنی کی زہریلی فصل کاشت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بلاشبہ افغان طالبان کے انکار کے باوجود یہ واضح ہے کہ سرحد پار ٹی ٹی پی کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے علاوہ عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی نے خطے کے تمام ممالک کے لیے صورتحال کو تشویشناک بنا دیا ہے؛ چنانچہ کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کی حالیہ مہمات کے پہلو بہ پہلو پاکستان کو امن مذاکرات کے جال میں پھنسانے کی پالیسی نے افغان طالبان حکومت کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو سخت کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں دہشت گردوں کو اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ''اس طرح کے واقعات ناقابلِ برداشت ہیں جن کا مؤثر جواب دیا جائے گا‘‘۔افغان طالبان نے پاکستانی انتباہ پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنا پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے۔
حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ اگر طالبان انتظامیہ نے دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور کالعدم گروپوں کے خلاف اقدامات نہ کیے تو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سرحد پار تک جا سکتی ہے۔ اسی تناظر میں بلوچستان کی نگران کابینہ کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا ٹویٹ چشم کشا تھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان افغانستان سے منسلک بارڈر کو بند کرکے تمام تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیجنے کے علاوہ افغان طالبان مخالف سیاسی جماعتوں کا اجتماع کرکے قومی بیانیہ بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز پہ حملے کرنے والی افغانستان میں چھپی القاعدہ سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جوابی حملے کیے جائیں۔ آرمی چیف کا دورۂ امریکہ افغانستان کی ڈیفیکٹو گورنمنٹ کے مستقبل اور بالخصوص ہماری قومی سلامتی اور اس خطے کے سکیورٹی پیرا ڈائم بارے اہم پیش رفت کا محرک بنے گا۔