"AAC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات اور بلوچستان کی صورتحال

بلوچستان‘ جو پچھلے 76برسوں سے نسلی تعصبات اور قبائلی عداوتوں میں پھنس کر مرکزی دھارے سے دور ہٹتا گیا‘ اب پہلی بار وہاں کے عوام علاقائی جماعتوں اور نسلی گروہوں کی جمود پرور سیاست سے اُکتا کر ملک گیر سیاسی جماعتوں کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ ان سے ہم آغوش ہوتے بلوچستانی عوام کی دلجوئی کی خاطر اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے اوپر اٹھ کر خطے کی حقیقی ضروریات اور بلوچ سماج کے فطری تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر ان کی دستگیری کریں۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو تزویراتی لحاظ سے اہمیت کے حامل بلوچستان میں ایسے صحتمند تغیرات قومی سلامتی اور معاشی خود مختاری کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ معاشی ترقی کے یہی روشن امکانات (ن) لیگ جیسی ترقی پسند پارٹی کیلئے کافی کشش کا باعث ہیں اور شاید اسی لیے حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے علاوہ (ن) لیگ جیسی ملک گیر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ شعوری وابستگی قومی سطح پہ بلوچ لیڈر شپ کیلئے کسی بڑے سیاسی کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16میں سے پانچ سے چھ اور صوبائی اسمبلی کی 51میں چودہ‘ پندرہ نشستیں لے کر بلوچستان کی بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی قومی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی سات سے آٹھ سیٹوں‘ جے یو آئی قومی کی دو سے تین اور صوبائی اسمبلی کی آٹھ سے نو نشستوں پر آگے نظر آ رہی ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ تینوں جماعتیں مل کر بلوچستان میں صوبائی حکومت بنا سکتی ہیں۔ اگرچہ خاران‘ مکران اور آواران ڈویژن میں عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی قومیکی قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی چار سے پانچ نشستوں پر آگے نظر آ رہی ہے جبکہ بی این پی (مینگل) سکڑ کر قومی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین سے چار نشستوں تک محدود ہوتی نظر آتی ہے۔ اختر مینگل کی کوئٹہ سے اور جمہوری وطن پارٹی(بگٹی) کے شاہ زین بگٹی کی ڈیرہ بگٹی سے قومی اسمبلی کی نشست پر پوزیشن مضبوط نظر آ رہی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اگر الیکشن شفاف ہوئے تو ڈیرہ بگٹی کی صوبائی نشست پہ سرفراز بگٹی کے مقابلے پر جمہوری وطن پارٹی کے گہرام بگٹی بھی جیت سکتے ہیں؛ تاہم شمالی بلوچستان کے پشتون علاقوں کی بڑی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو داخلی تضادات اور اندرونی تقسیم نے اس قدر مضمحل کر دیا ہے کہ وہ جے یو آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بغیر محمود خان اچکزئی کیلئے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی واحد نشست بچانے کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی دو سے زیادہ نشستیں جیتنے کے قابل نظر نہیں آ رہی۔ عثمان کاکڑ شہید کے جوان سال بیٹے خوشحال خان بھی قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اے این پی اور ہزارہ ڈیمو کریٹ پارٹی صوبائی اسمبلی کی دو‘ دو صوبائی نشستیں بھی بمشکل نظر آتی ہیں۔
بلوچستان شمال میں افغانستان اور مغرب میں ایران کے ساتھ جس طویل اور غیرمحفوظ سرحد کا اشتراک رکھتا ہے‘ وہاں تجارت کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں۔ 2019ء میں وفاقی حکومت کی ایما پر سابق گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر 18تجارتی زون قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا جن میں 12تجارتی زون افغان بارڈر جبکہ 6ایرانی سرحدکے ساتھ بنائے جانے تھے لیکن بوجوہ اس سکیم کو التوا میں ڈال دیا گیا۔ اُنہی دنوں وزیراعلیٰ جام کمال نے قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کے درمیان واقع بادینی ٹرمینل کا افتتاح بھی کیا لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی‘حالانکہ مقامی آبادی امید لگائے بیٹھی تھی کہ ان بازاروں کی بدولت نہ صرف سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بین الاقوامی تجارت سے منسلک ہونے کے مواقع ملیں گے بلکہ سرحد پار سے ہونے والی سمگلنگ کی روک تھام بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔ بادینی ٹرمینل کو فعال بنانے کی خاطر ماضی قریب میں جمعیت کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع بھی کافی متحرک رہے؛ تاہم حکومت کی طرف سے بادینی ٹرمینل کو دانستہ نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ دوسرے سرحدی شہروں کے برعکس‘ حکومت کی طرف سے بادینی ٹرمینل کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی حالانکہ افغان حکومت بادینی ٹرمینل پر آمادہ تھی۔ بادینی ٹرمینل اگرچہ برٹش انڈیا کے زمانے میں بھی فعال تجارتی کوریڈور رہا لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کے مقامی لوگ اب بھی تجارت کے ان فطری مواقع سے محروم ہو کر فرسودہ زندگی گزار نے مجبور ہیں؛ تاہم جب بھی افغانستان سے تجارت کو ریگولیٹ کیا گیا تو بادینی تجارتی ٹرمینل سے وابستہ لوگ سب سے پہلے مستفید ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بارڈر ایریا میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ سے نہ صرف یہاں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ مقامی آبادی کیلئے صحت و تعلیم کی سہولتوں‘ لائیو سٹاک اور زراعت جیسے شعبوں میں ترقی کی بدولت لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہتری آئے گی۔
ملک گیر جماعتوں کی طرف سے بلوچستان کے عوام کو ترقی کے مرکزی دھارے سے منسلک کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں یہاں پُرتشدد کارروائیوں میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اُن مسلح گروہوں کی جانب سے نچلی سطح کی شورش کو پروان چڑھانے کی مساعی بتدریج کمزور ہوئی ہے جو گزشتہ دو برسوں سے غیرمستحکم جنوب مغربی علاقوں میں سیاسی و مذہبی اجتماعات اور انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ جولائی 2018ء میں‘ گزشتہ عام انتخابات کے دوران ضلع مستونگ میں انتخابی ریلی کو داعش کے خودکش بمبار نے ہدف بنایا جس میں 120 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ پولنگ کے روز کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس کے قریب دوسرے حملے میں مزید 31ووٹرز جانیں گنوا بیٹھے۔ الیکشن کمیشن جنوبی بلوچستان کے اضلاع مستونگ‘ خضدار‘ تربت‘ آواران‘ گوادر‘ خاران اور پنجگور کے 5067 پولنگ سٹیشنز پر عملے اور ووٹرز کے تحفظ کیلئے سکیورٹی پلان کو حتمی شکل دے رہا ہے‘ تاہم اب بھی اکثر پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے بلوچستان میں وسیع و عریض علاقوں کی وجہ سے چیلنجز مختلف ہیں۔ بلاشبہ یہاں پُرامن ماحول میں انتخابات کا انعقاد چیلنج ہو گا تاہم ہمارے پاس پولنگ کے دن امنِ عامہ کو برقرار رکھنے کا جامع سکیورٹی پلان موجود ہے۔ ہم پولیس‘ بلوچستان کانسٹیبلری‘ فرنٹیئر کور اور پاک فوج کی بھاری نفری کی تعیناتی کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ بلوچستان کی نگران حکومت نے بھی پُرامن انتخابات کے انعقاد میں الیکشن حکام کی مدد کا اعادہ کیا ہے۔ نگران وزیر داخلہ زبیر جمالی نے کہا کہ اگرچہ عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں لیکن ہم امن و امان سے متعلق کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد ہونے والے ہیں جب ملک کے اُن صوبوں میں دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ ان حملوں میں خاص طور پر اُس وقت اضافہ دیکھنے کو ملا جب ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کو منسوخ کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن سمیت دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں مقیم اکثر سیاسی رہنما انتخابات سے قبل سکیورٹی کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہر چند کہ وزیر داخلہ جمالی نے ان کی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر قسم کے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کیلئے پُرعزم ہیں‘ تاہم تجزیہ کار بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے پُرامن انعقاد بارے فکر مند ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں