"AAC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کے سیاسی تغیرات اور قومی قیادت کی ذمہ داری

پیر کے روز نگران وفاقی حکومت نے بلوچ یکجہتی لانگ مارچ کے 290گرفتار مظاہرین کو رہا کر دیا۔ وزارتِ داخلہ نے بتایا کہ مظاہرین کی رہائی کا فیصلہ بلوچ لیڈرز اور کابینہ کمیٹی کے مابین ہونے والے مذاکرات اور عدالتی فیصلے کے مطابق کیا گیا۔ یہ لانگ مارچ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ قتل کے بعد چھ دسمبر کو تربت سے شروع ہو کر 23دسمبر کی شام اسلام آباد پہنچا تھا۔یہ ایشو ایک ایسا پیچیدہ تنازع ہے جس نے بلوچستان کے قبائلی معاشرے کی تشکیلِ نو میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کشمکش کی ابتداء 1960 کی دہائی کے اواخر میں قائم ہونے والی بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن نے کی تھی جس نے اپنی آغوش میں بہت سے قوم پرست لیڈروں کو پروان چڑھایا۔ اسی تحریک کی بدولت بلوچستان کے متوسط طبقے کے باصلاحیت نوجوانوں کو اہم سیاسی مقام حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدا میں مقامی سردار اس تنظیم کی مخالفت اور حمایت سے سیاسی مفاد کشید کرنے میں سرگرداں رہے۔ اسی وجہ سے یہ طلبہ تنظیم دھڑوں میں تقسیم ہو کر بلوچ نیشنل موومنٹ‘ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے محور میں گھومتی رہی۔ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن چونکہ بالواسطہ قبائلی معاشرے پہ مقامی سرداروں کی گرفت کمزور کرنے کا باعث بن رہی تھی‘ اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کو آزادانہ طور پر کام کرنے سے نہیں روکا گیا‘ جیسا کہ اس کی کثیر القومی اور بلوچ قوم پرستی کی نشاۃ ثانیہ کی مہمات سے واضح ہے‘ تاہم افغانستان میں روسی جارحیت اور بعدازاں امریکہ کی طویل جنگِ دہشت گردی کی حرکیات کی بدولت آج بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سخت گیر مسلح تحریک بلوچ لبریشن آرمی کی ایک ایسی مہلک ونگ بن چکی ہے جو سکیورٹی فورسز اور گوادر پورٹ پہ کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کو نشانہ بناتی ہے۔ بلوچستان میں مسلح گروپوں کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کے پہلو بہ پہلو سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے دراز ہوتے سلسلوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح بلوچستان میں بھی متوازی سیاسی تحریکوں کو جنم دیا۔ ممکن ہے یہ پیش پا اُفتادہ بلوچوں کی قبائلیت کے جمود سے نکل کر فعال اور بیدار معاشرے میں ڈھلنے کی طرف قدرتی پیش قدمی ہو لیکن بدقسمتی سے اس قسم کی تبدیلیوں کو ریگولیٹ کرنے کے بجائے طاقت کے ذریعے مطیع بنانے کے شوق میں ایک صحت مند سیاسی عمل کو سینڈروم بنایا جاتا رہا۔
بلوچوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کی روایتی لیڈر شپ انہیں آزاد جمہوری معاشروں میں ڈھالنے کے بجائے قبائلی عصبیتوں کی تنگنائیوں میں مقید رکھنا چاہتی تھی۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر مقامی سردار اپنی لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور انفارمیشن تک رسائی سے روکنے میں مصروف رہے اور جب تک ریاست ان سرداروں کی نمائندگی قبول کرتی رہی‘ تب تک انہوں نے سمجھوتوں کے دروازے کھلے رکھے لیکن اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں جب دور افتادہ منطقوں میں پھنسے بلوچوں کو انسانیت کے اجتماعی دھارے اور پُرآسائش زندگی کی رعنائیوں کی چکاچوند دکھائی دی تو فریقین میں لین دین کا کاروبار بتدریج ختم یا بہت کم ہو گیا‘ چنانچہ مقامی سرداروں نے قبائلی معاشرے پہ گرفت مضبوط اور اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانے کی خاطر مسلح جدو جہد کی راہ اختیار کرکے بلوچستان میں آزاد جمہوری معاشرے کا ارتقا روکنا چاہا‘ اسی لیے آج وہاں نفرت کے آتش فشانوں میں زندگی کے نفیس احساسات جل رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں سیاسی عمل کے نتیجے میں اُبھرنے والے نمائندوں کی بدولت نسلی کشیدگی کافی حد تک کم ہوئی‘ وہاں کی علاقائی جماعتیں اہم سیاسی قوت کے طور پر اُبھرنے لگیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1988ء کے انتخابات میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے مجموعی ووٹ 47.8فیصد تھے جبکہ 1990ء کے انتخابات میں یہ بڑھ کر 51.74ء فیصد تک پہنچ گئے۔ ایک قوم پرست لیڈر شپ نے 1997ء کے انتخابات جیت کر بلوچستان میں حکومت بنائی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسی ملک گیر جماعتوں میں بھی 26بلوچ رہنما شامل تھے۔ اسی تلویث کی بدولت 1990ء کی دہائی کے جمہوری وقفے کے دوران حکومت کے ساتھ بلوچوں کے تعلقات خوشگوار ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پہ پورا صوبہ پُرامن رہا لیکن اکتوبر 1999ء کے بعد بلوچستان کی سیاسی حرکیات میں نسلی تضادات پھر اُبھر آئے۔ 2002ء کے انتخابات کیساتھ یہ مساوات اس وقت مزید بدل گئی جب ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو تقویت ملی جس سے متحدہ مجلسِ عمل کو بلوچستان کے اقتدار پہ غلبہ ملا۔ تب مبصرین نے حکومت کی مخالف جماعتوں کے مضبوط حلقوں کو کمزور کرکے ایم ایم اے کو تقویت پہنچانے کا الزام لگایا۔ امیدواروں کیلئے اہلیت کے معیار کو یونیورسٹی ڈگریوں سے مشروط کرکے ایسے سرکردہ بلوچ رہنماؤں (بشمول اکبر بگٹی)کو انتخابی عمل سے باہرکر دیا گیا جو پہلے صوبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ اسلام آباد کے انتخابی جوڑ توڑ کا سٹریٹجک مقصد یہ تھا کہ امریکہ کی جانب سے طاقت کے بل بوتے پر افغان طالبان کی حکومت گرانے کے بعد افغانستان کی سرحد سے متصل دونوں صوبوں میں اسلام پسند جماعتوں کو اقتدار دے کر مذہبی جذبات کو کنٹرول کیا جائے۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی سیاست متاثر ہوئی۔ اپنے صوبوں میں اختیار نہ ملنے کے باعث ان قوم پرستوں نے پرویز مشرف کے انتخابی‘ سیاسی اور آئینی جوڑ توڑ کو مسترد کر دیا‘ یوں 2002ء کے انتخابات میں دھاندلی موجودہ تنازع کی طرف پہلا قدم ثابت ہوئی‘ تاہم اختلافات پہ قابو پانے کی خاطر ستمبر 2004ء میں بلوچ اپوزیشن کے اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی حکومت سے مذاکرات کیلئے سفارشات تیار کی گئیں لیکن صورتحال بدستور بگڑتی گئی۔ پرویز مشرف نے بلوچ مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کیلئے طاقتور مقامی حکومتیں قائم کیں جنہیں اگر آئینی تحفظ اورمجوزہ اختیارات و وسائل فراہم کر دیے جاتے تو بلوچستان کا ماحول نارمل ہو سکتا تھا لیکن مشرف حکومت کے کارندوں نے بلدیاتی نظام کو پنپنے دیا نہ مقامی سرداروں نے اسے قبول کیا۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے منصوبے کو بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ نے صوبائی خود مختاری کی نفی قرار دے کر مشتبہ بنا دیا۔ اسی نامطلوب سیاسی جوڑ توڑ کی بدولت اکبر بگٹی کی قیادت میں مزاحمت کی ابتدا ہوئی جسے کچلنے کے عمل میں اکبر بگٹی مارے گئے‘ جس سے تنازع مزید گہرا ہوگیا۔ یوں یہ صوبہ آہستہ آہستہ انتشار کی طرف بڑھتا گیا لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی لہروں نے بلوچستان کے قبائلی ڈھانچے پر سرداروں کی گرفت کمزور کرنے کے علاوہ مقتدرہ کی حرکیات سے بھی پردہ اٹھا دیا چنانچہ مسلح مزاحمت کاروں کی قوت کم ہونے کیساتھ ساتھ جبر کی شدت بھی کند ہونے کی وجہ سے مفاہمت کی دوطرفہ ضرورت پیدا ہو گئی۔ شاید انہی تغیرات کے نتیجہ میں بی ایل اے کے کمانڈر گلزار امام شنبے کی گرفتاری ٹرننگ پوائنٹ بنی۔ شنبے نے مرکزی دھارے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنے جانشین سرفراز بنگلزئی کو ستر ساتھیوں سمیت ریاست سے مفاہمت پہ قائل کرکے بند گلی میں پھنسنے کے بجائے زندگی کے خوبصورت امکان کو پکڑ لیا۔ فریقین کیلئے یہی درست راہِ عمل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ شنبے جیسے دیگر مزاحمت کار بھی صلح کیلئے تیار ہیں؛ چنانچہ اب حکومت کو آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لینا چاہیے۔ یہ بھی سچ ہے کہ حالات کے جبر نے مسلح تنظیموں کو کمزور کیا۔ بی ایل اے‘ بی آر اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں کا مزاحمتی ڈھانچہ اس قدر کمزور ہو گیا کہ تینوں تنظیموں نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے اتحاد بنالیا۔ یہی تغیرات بلوچوں کو آزاد جمہوری معاشرے کیلئے سیاسی جد و جہد کی ایسی فضا فراہم کر رہے ہیں جس میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت کئی سماجی کارکنوں کو آگے بڑھ کر قیادت کا خلا پُر کرنے کا حوصلہ ملا‘ بلاشبہ بلوچستان میں افراتفری کا خاتمہ صرف سیاسی حل سے ممکن ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں