بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس ڈی وائی کی سربراہی میں 11دسمبر کو متفقہ طور پہ آرٹیکل 370کو منسوخ کرنے کے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اگلے سال 30 ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا کہ آرٹیکل 370‘ جسے پانچ اگست 2019ء کو منسوخ کیا گیا‘ سابقہ ریاست میں جنگی حالات سے نمٹنے کیلئے عبوری بندوبست تھا‘ ریاست جموں و کشمیر کو اندرونی خود مختاری کبھی حاصل نہیں تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے خیال میں الحاق کے ٹول اور 25نومبر 1949ء کے اعلامیہ کے اجرا کے بعد‘ جس کے ذریعے ہندوستانی آئین اپنایا گیا‘ ریاست جموں و کشمیر نے خود مختاری کا کوئی عنصر برقرار نہیں رکھا۔ سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ آرٹیکل 370میں خود مختاری نہیں بلکہ غیرمتناسب وفاقیت کی خصوصیت تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ ریاست جموں و کشمیر پر ہندوستانی آئین لاگو کرنے کیلئے ریاستی حکومت کی رضا مندی درکار نہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب اگست 2019ء میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی تو اس وقت ریاست جموں و کشمیر‘ صدر راج کے تحت ہونے کی وجہ سے اس بحث کا موضوع تھی کہ آیا قانون ساز اسمبلی کی غیرموجودگی میں ناقابلِ واپسی فیصلے لیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ درخواست گزاروں نے جموں و کشمیر کے آئین کے سیکشن 92اور ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 356کے تحت اعلانات کے اجرا کو اس وقت تک چیلنج نہیں کیا جب تک جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم نہیں ہوئی۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے 1980ء سے ریاستی اور غیرریاستی دونوں طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات کی تحقیقات کیلئے غیر جانبدار سچائی اور مصالحتی کمیشن کے قیام کی ہدایت بھی کی۔
حالیہ عدالتی فیصلے نے ہندوستان میں آئینی نظام پہ سایہ فگن استبدادی تسلط کی توثیق کر دی۔ پہلے بھی شاید اسی طرزِ عمل کے نتیجے میں منی پورہ میں مقامی سطح کے معمولی تنازعات مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والے تشدد کی آگ بھڑکانے کا وسیلہ بنے۔ ممکن ہے زیرِ نظر عدالتی فیصلہ آئینی عوامل اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتا ہو لیکن یہ فیصلہ فطری طور پر عدل و انصاف کی روح کے منافی ہونے کی وجہ سے نفرتوں کی لکیر کو مزید گہرا کر دے گا۔ لاریب ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلہ نے کشمیری سیاسی گروہوں کو بڑا دھچکا پہنچایا تاہم یہ فیصلہ حکومت کرنے والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے مئی 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مفید ثابت ہو گا۔ بی جے پی کا 2019ء میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ انتخابی مہم کا وعدہ تھا۔ واضح رہے کہ الحاق کے ٹولز کے حصے کے طور پر ہندوستان نے کشمیر کو اپنا آئین‘ جھنڈا اور ضابطہ فوجداری برقرار رکھنے کی اجازت دی تھی۔ 1953ء تک کشمیر کا اپنا وزیراعظم اور صدر تھا جب پنڈت نہرو نے وزیراعظم شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال کر عہدہ ختم کیا تو اسے مسلم اکثریتی خطے کو باقی ہندوستان کیساتھ ضم کرنے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقے ہونے کے باعث پاکستان بھی کشمیر پہ پاکستانی ریاست کا حصہ ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے کیونکہ برطانوی راج کے خاتمے کے وقت اسی اصول پر 1947ء میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم ہوئی۔ پہلی کشمیر جنگ تقسیم کے فوراً بعد 1949ء میں ہوئی۔ اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کیساتھ کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آرٹیکل 370‘ جو اکتوبر 1949ء میں نافذ ہوا‘ نے کشمیر کو داخلی خود مختاری دی۔ اسے مالیات‘ دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں اپنے قوانین بنانے کا حق دیا گیا۔ آرٹیکل 35A‘ 1954ء میں آرٹیکل 370میں اضافی شق کے طور پہ شامل کیا گیا جس میں ریاستی قانون سازوں کو ریاست کے مستقل باشندوں کیلئے خصوصی حقوق اور مراعات یقینی بنانے کا اختیار ملا۔ آرٹیکل 370کی منسوخی کیساتھ‘ آرٹیکل 35Aازخود ختم ہو گیا جس سے غیر کشمیریوں کو خطے میں جائیداد خریدنے کا حق مل جانے سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ بھارت مسلم اکثریتی خطے میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کرے گا۔ 2019ء میں مودی حکومت نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پہلے کشمیریوں سے الگ جھنڈا‘ ضابطہ فوجداری اور آرٹیکل 370میں درج آئین سازی کا حق چھین لیا اور اس کے بعد سے کشمیر میں علاقائی انتخابات نہیں کرائے۔ مودی حکومت کے 2019ء کے فیصلے کو چیلنج کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کو آرٹیکل370 منسوخ کرنے کا اختیار نہیں بلکہ صرف کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ہی خطے کی خصوصی حیثیت کا تعین کر سکتی ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پی چدمبرم نے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران نہایت دھیمے لہجے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں منقسم کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں دیا۔ یہ سوال اب بھی فیصلہ طلب اور مستقبل کا مناسب مقدمہ ہے۔
عالمی سطح پہ جمہوری کساد بازاری کے دوران ہندوستان کی ہائبرڈ حکومت کو عالمی برادری جمہوریت کی حالیہ تنزلی میں نمایاں عنصر کے طور پہ دیکھتی ہے۔ بھارتی جمہوری زوال کا عمل جمہوریت کی موت کی ایسی مثال بن گیا جس میں کسی ڈرامائی بغاوت یا آدھی رات کو اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریوں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن کو قانونی طور پر ہراساں کرنے‘ میڈیا کو ڈرانے اور ایگزیکٹو پاور کی مرکزیت کے ذریعے انبوہی فسطائیت بن کر ابھری۔ حکومت پہ تنقید کو قوم سے بے وفائی کے مترادف قرار دے کر نریندر مودی گورنمنٹ اپوزیشن کی ضرورت کے تصور کو محدود کر رہی ہے‘ گویا عالمی جمہوری کساد بازاری کا ہندوستان سے بہتر کوئی نمونہ موجود نہیں۔ ہندوستان نے دو اہم جمہوری زوال بھی دیکھے‘ پہلا جون 1975ء سے مارچ 1977ء تک 21 ماہ کی ایمرجنسی سے موسوم ہوا۔ دوسرا عصری زوال جس کا آغاز 2014ء میں نریندر مودی کے انتخاب سے ہوا۔ مودی کے دور میں کلیدی جمہوری ادارے رسمی طور پر اپنی جگہ برقرار رہنے کے باوجود جمہوریت کی بنیاد بننے والے اصول اور طرزِ عمل کافی حد تک بگڑتے گئے۔ عصری ہندوستان میں یہ غیر رسمی جمہوری زوال اُس ایمرجنسی کے بالکل برعکس ہے جب اندرا گاندھی نے تقریباً تمام جمہوری اداروں کو باضابطہ طور پر ختم کرکے انتخابات پر پابندی لگائی۔ اپوزیشن کو گرفتار‘ شہری آزادیوں کو محدود اور آزاد میڈیا کو مسخر کرنے کی خاطر تین ایسی آئینی ترامیم منظور کیں جن سے جمہوری اداروں کی طاقت کو نقصان پہنچا لیکن اس سب کے باوجود جمہوریت کے نگران اس بات پر متفق ہیں کہ آج ہندوستان مکمل جمہوریت اور مکمل آمریت کے درمیان واقع خطِ امتیاز پہ چل رہا ہے۔ جمہوریت پر نظر رکھنے والی تنظیمیں آج ہندوستان کو ایک ''ہائبرڈ حکومت‘‘ کے طور پر درجہ بند کرتی ہیں یعنی وہاں نہ تو مکمل جمہوریت اور نہ ہی مکمل آمریت ہے۔ 2021ء میں فریڈم ہاؤس نے ہندوستان کی درجہ بندی کو جزوی طور پر گرایا‘ اسی سال ورائٹیز آف ڈیموکریسی پروجیکٹ نے ہندوستان کو بند آمریت‘ انتخابی جمہوریت یا لبرل جمہوریت کے پیمانے پر انتخابی خود مختاری کی حیثیت سے محروم کردیا۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے ہندوستان کو ناقص جمہوریت‘ ہائبرڈ حکومت اور آمرانہ حکومت کے پیمانے پر غلط جمہوریت کے زمرے میں منتقل کر دیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ مملکت کے داخلی استحکام کے برعکس جمہوری زوال کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے گا۔