مولانا فضل الرحمن آج یعنی پانچ جنوری کو افغان طالبان کی دعوت پر کابل کا دورہ کریں گے۔ اس ضمن میں تین جنوری کو مولانا صاحب کو وزارتِ خارجہ میں کالعدم ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیوں اور پاک افغان سرحدی تنازعات کے علاوہ افغان مہاجرین کی واپسی بارے مفصل بریفنگ دی گئی۔ امر واقع تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی غیرمتزلزل حمایت کے باوجود طالبان حکومت نے ہمیشہ انہیں نظرانداز کیا لیکن اب پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیوں میں افغان حکومت کی خفیہ اور کھلی اعانت‘ ہماری 45 برسوں پہ محیط افغان پالیسی میں غیرمعمولی تبدیلیوں کا محرک بننے کے علاوہ پاکستانی حلقوں میں افغان طالبان کو حاصل عوامی اور ریاستی حمایت کے دائرے بتدریج تنگ ہونے سے عبوری طالبان حکومت کا مستقبل مخدوش ہونے لگا تو اسی خلیج کو پُر کرنے کی خاطر افغان طالبان مولانا فضل الرحمن کی وساطت سے پاکستان سے اعتماد کے رشتے دوبارہ بحال کرنے کی سعی میں مشغول نظر آتے ہیں‘ تاہم مولانا فضل الرحمن کیلئے افغان عوام پہ جبری تسلط اور پڑوسی ممالک میں طالبان حکومت کی جارحانہ مداخلت کے مضمرات سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔
نومبر 2023ء میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے طالبان حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان قیادت کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیوں کی حمایت پاکستان میں تشدد کے واقعات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اگست 2021ء سے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں 2867 پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ تاہم پچھلے دو برسوں کے دوران افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں اور ہر قسم کی امداد کی فراہمی کے ثبوت ملنے کے باوجود پاکستان نے افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی گٹھ جوڑ کی خصوصیات کو نمایاں کرنے میں احتیاط برتی لیکن آخرکار نگران وزیراعظم نے سفارتی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بتا دیا کہ افغان طالبان کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو فعال رکھنے کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ وزیراعظم کے بیان کے چند دن بعد‘ افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی ایلچی‘ آصف درانی نے بھی طالبان بارے وزیراعظم کے تنقیدی الفاظ کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن درحقیقت پاکستان کیلئے خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ بیان 17 لاکھ غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کے پاکستانی فیصلے کی تسلسل میں دیا گیا تھا۔ افغان مہاجرین کی بے دخلی کے فیصلے کے بعد سے 3لاکھ 27ہزار سے زیادہ مہاجرین افغانستان واپس جا چکے ہیں۔ قبل ازیں کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے خیبر پختونخوا کے سرحدی اضلاع میں شدید حملے کیے گئے۔ اس لحاظ سے نگران وزیراعظم کا بیان اور اس کا وقت نہایت اہم ہے۔ یہ بیان نہ صرف ملک کے عبوری رہنما کے طور پر ان کے خیالات کو واضح کرتا ہے بلکہ عسکری حلقوں میں تازہ ترین پالیسی موڑ کی طرف بھی یہ اشارہ تھا کہ پاکستان کو طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کیلئے کافی حمایت نظر آ رہی ہے اور وہ تب تک طالبان پر دباؤ جاری رکھیں گے جب تک وہ ٹی ٹی پی کی حمایت پر نظرثانی نہیں کرتے۔
علی ہذالقیاس کوشش بسیار کے باوجود پاکستان طالبان کو افغان عوام کے بنیادی حقوق اور سماجی آزادیوں کی بحالی پہ قائل نہیں کر سکا۔ کابل کی فضا مغموم و افسردہ ہے اور شہریوں کے دل و دماغ پہ مایوسی کی تاریکی سایہ فگن ہے۔ جب تک افغان طالبان کو عوامی مینڈیٹ نہیں ملتا‘ عالمی برادری ان کی حکومت کو قبول نہیں کرے گی؛ چنانچہ ان حالات میں مولانا فضل الرحمن کی قبائلی ڈپلومیسی سے قطع نظر پاکستان اپنے قومی مفادات اور علاقائی و عالمی سفارتی رشتوں کو بچانے کی خاطر افغان طالبان کی کج ادائیوں کا مزید بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں ہو گا کیونکہ تشدد ہرگز وہ تبدیلی نہیں لا سکتا جو طالبان پاکستان کے طرزِ عمل میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات‘ کیونکہ مولانا فضل الرحمن سمیت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی حمایت کرنے والا کوئی پاکستانی موجود نہیں بلکہ اس سے زیادہ حملوں کا امکان بجائے خود پاکستان کو افغانستان پر دباؤ بڑھانے کی ترغیب دے سکتا ہے بلاشبہ افغانستان اور پاکستان پر امریکی پالیسیوں کے مضمرات دونوں ممالک کو مشکل ترین موڑ پہ لے آئے ہیں۔ یہ بجا کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان کشیدگی امریکی پالیسی سازوں کے ذہن میں امید کے کچھ دیے ضرور روشن کرے گی لیکن ساتھ ہی دیرینہ پالیسی ماڈلز اور مفروضوں کیلئے چیلنج بھی ضرور بنے گی کہ امریکہ کو افغانستان اور پاکستان دونوں کیساتھ کیسے نمٹنا چاہیے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں طالبان کے خلاف پاکستانی دباؤ کی مہمات اور ٹی ٹی پی کی حمایت پر طالبان کا سختی سے کاربند رہنا امریکی شکست کے مضمرات کو کم کرنے کا وسیلہ بن سکتا ہے؟ ایک طرف افغان طالبان بارے پاکستان کی تبدیل ہوتی پالیسی امریکی پوزیشن کو بہتر بناتی ہے کہ وہ طالبان بارے تشویش کے عوامل جیسے انسانی حقوق‘ سیاسی شمولیت سے گریز اور انسدادِ دہشت گردی کے وعدے سے افغان طالبان کا انحراف واشنگٹن کے مفروضوں کی تصدیق کرے گا تو دوسری جانب پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ زیادہ دباؤ طالبان کے طرز ِعمل میں گہری تبدیلی کا باعث بنا تو دباؤ کو بڑھانے کی پاکستانی پالیسی امریکہ حمایت کو اپنی طرف مائل کرے گی۔ اگرچہ امریکی پالیسی سازوں کو افغانستان پر پاکستان کیساتھ طویل المدتی مفادات پر شک ہے تاہم عام خیال یہی ہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کیلئے دوبارہ پاکستانی ایئربیسز کا حصول افغانستان میں دہشت گردی کے انسداد کے علاوہ وہاں وسیع البنیاد اور عوام کی نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار بنا سکتا ہے۔ پاکستانی دباؤ کے باوجود ٹی ٹی پی کیلئے طالبان کی مضبوط حمایت سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کیلئے ٹی ٹی پی کا خطرہ بڑھتا رہے گا۔ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ مساعی خطے میں امریکی انسدادِ دہشت گردی کے موقف کو مضبوط بنانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
کچھ پالیسی سازوں کو خدشہ ہے کہ طالبان پر معاشی دباؤ ڈالنے کا پاکستان کا فیصلہ‘ بالخصوص ایسے وقت میں جب بین الاقوامی انسانی امداد کم ہو رہی ہے‘ افغان معیشت کے پہلے سے ہی غیریقینی توازن کو بگاڑ کر انسانی صورتحال کو مزید تشویشناک بنا سکتا ہے۔ پیش پا افتادہ مضمرات سے ہٹ کر‘ بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے میں امریکی پالیسی بارے بھی طویل المدتی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ہر چند کہ پاکستان کو طالبان کے خلاف دباؤ برقرار رکھنا چاہیے لیکن امریکی پالیسی سازوں کو طالبان کی کمزور حکومت کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت پڑے گی جس میں افغانستان کے اندر نئے سرے سے تنازعات کے بڑھنے کے خطرات شامل ہیں۔ کیا ایسے خطرات کو کم کرنا کسی مرحلے پر پاکستانی دباؤ کو محدود کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟ بظاہر یہ سوالات ابھی کچھ دور نظر آتے ہیں لیکن گزشتہ دو برسوں میں طالبان اور پاکستان کے تعلقات کی رفتار اور افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بعد میں آنے کی بجائے جلد سامنے آ سکتے ہیں۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکہ نے خود کو پریشان کن مخمصے میں پایا۔ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر ناروا پابندیوں‘ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور جامع حکومت بنانے میں ناکامی کی تلافی کیلئے واشنگٹن پاکستان کے عدم تعاون کا شاکی رہا اور اب افغانستان میں طالبان حکومت کی ناکامی کے نتیجے میں خانہ جنگی سے بچنے کیلئے وہاں کچھ معاشی اور سیاسی استحکام کا متمنی بھی ہے۔ (جاری)