"AAC" (space) message & send to 7575

خیبر پختونخوا کا سیاسی مستقبل

کامل دس برس تک خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت رہنے کے باعث خیبرپختونخوا کی سیاسی حرکیات بدل گئیں اور پشتون قوم پرستی کا وہ مرکز گریز بیانیہ کافی حد تک معدوم ہو چکا جس کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی چار و ناچار جگالی کرنا پڑتی تھی لیکن 2024ء کے عام انتخابات میں وہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت حصہ نہیں لے سکے گی جس نے مغربی سرحدوں سے منسلک حساس خطے کو لسانی اور نسلی تعصبات کی علمبردار اُن علاقائی پارٹیوں کے تسلط سے نجات دلائی جو کئی دہائیوں سے علیحدگی کی تحریکیں برپا رکھے ہوئے تھیں۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے صوبے کے عوام کو ورثہ میں ملنے والی معاشی بدحالی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال میں یہاں کے عوام آٹھ فروری کو قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی 115نشستوں کیلئے نمائندوں کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں۔ تاریخ کا اہم ترین اصول یہی ہے کہ جو چیز اُبھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ بسا اوقات تقدیر ظاہری طور پہ غیرمربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھاتی اور ان کی مرضی کے بغیر انہیں اَن دیکھی تباہی میں پھنسا دیتی ہے۔ گویا 2018ء کی مانند اب صوبائی سطح پہ انتخابات میں بھی ہمیں کئی حیران کن مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی 45نشستوں میں سے وسطی اور شمالی خیبر پختونخوا سے لگ بھگ 40نشستیں جیت لے گی اور حالات کا یہی اُلٹ پھیر 30سے زیادہ آزاد امیدوارں کی اسمبلی تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار بنا رہا ہے‘ تاہم اب بلّے کا نشان چھن جانے کے باعث پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے آٹھ فروری کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔
اگر پی ٹی آئی بلّے کے نشان کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں موجود رہتی تو عام انتخابات کا انعقاد دشوار ہو جانا تھا مگر اب بلے کا نشان چھن جانے کے بعد آٹھ فروری کو الیکشن کا انعقاد یقینی ہونے کے علاوہ خیبر پختونخوا میں ایسی وسیع البنیاد حکومت بننے کی راہ قدرے آسان ہو گئی ہے جو امنِ عامہ کی بگڑتی صورتحال اور اقتصادی چیلنجز سے اچھی طرح نمٹ سکے۔ علیٰ ہذالقیاس‘ تحریک انصاف کے منحرفین پہ مشتمل پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین نے39حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں لیکن حالات اور عوامی جذبات کے پیش نظر انہیں سات یا آٹھ نشستوں سے زیادہ ملنے کی توقع نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین پشاور سے ایک بھی نشست نہ نکال پائے البتہ پرویز خٹک نوشہرہ سے اپنی اور بیٹے ابراہیم کی صوبائی نشست نکال سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے کوہاٹ سے ضیا الرحمن اور ہزارہ سے سید احمد شاہ بھی اپنی نشستیں جیت سکتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے صوبے کی تمام115نشستوں پہ آزاد حیثیت سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں اور وہ پشاور کی 13میں سے چھ نشستیں جیت سکتی ہے۔ مردان سے فضل شکور‘ ظاہر شاہ اور عبدالسلام‘ نوشہرہ سے ادریس اور خلیق الزمان کی نشستوں کے علاوہ چارسدہ اور شبقدر سے بھی پی ٹی آئی سے منسلک آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے امیدوار دو نشستیں نکال سکتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف سے وابستہ امیدواروں کو صوابی‘ سوات‘ دیر اپر‘ لوئر اور مالاکنڈ سے صوبائی اسمبلی کی دس بارہ اور ہزارہ ڈویژن سے چار پانچ نشستیں جبکہ بونیر سے سید فخرِجہاں والی سیٹ مل جاتی تو پی ٹی آئی ملکی سطح کے پورے انتخابی عمل کو دگرگوں کر سکتی تھی لیکن اب پی ٹی آئی والے بھی دیگر آزاد امیدواروں کی طرح 'نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘ کے مصداق ہوا کے دوش پہ ہوں گے۔ شومئی قسمت کہ تاریخی شعور سے عاری بانی پی ٹی آئی اور ان کے رفقا نے عین اس وقت اپنی پیٹھ پہ سیاسی جدلیات کے زخم کھائے جب وہ جمہوریت کو ایک ہاتھ سے پرے دھکیلنے اور ناآموختہ عمل سمجھ کے دوسرے ہاتھ سے سینے سے لگانے کو بیتاب تھے۔ اب انہیں محسوس ہو گا کہ تاریخ اسی طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے۔
متعلقہ حلقوں کے لوگ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعد جے یو آئی پشاور میں مولانا امان اللہ اور عبدالحسیب حقانی والی دو صوبائی نشستوں کے علاوہ بونیر‘ کوہستان‘ ہزارہ اور چترال سے کم و بیش آٹھ نشستیں جیت سکتی ہے۔ اگرچہ اس وقت لکی مروت میں جمعیت کی پوزیشن کمزور ہے‘ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک اور بنوں میں جے یو آئی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اگر کرک اور کوہاٹ سے جے یو آئی کو دو نشستیں مل گئیں تو 20سے 25نشستوں کے ساتھ جے یو آئی خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی جماعت بن کر اتحادی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ مردان کی آٹھ‘ صوابی کی پانچ اور چارسدہ کی پانچ صوبائی نشستوں پہ بھی جے یو آئی کے علاوہ اے این پی اور (ن) لیگ کے امیدوار مضبوط ہیں۔ بالخصوص اختیار ولی خان کی پوزیشن بہتر بتائی جاتی ہے۔ سوات کی آٹھ میں سے دو نشستیں امیر مقام جیت سکتے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن سے بھی (ن) لیگ کم و بیش پانچ نشستیں جیت کر خیبر پختونخوا میں اپنا 10نشستیں جیتنے کا ہدف آسانی سے حاصل کر سکتی ہے لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی ان کے برابر نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ پیپلز پارٹی والے دیر‘ مالاکنڈ اور چترال سے دو تین نشستیں نکالنے کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں۔ چترال اور کوہستان کی زیادہ تر نشستیں جے یو آئی کا مقدر بن سکتی ہیں۔ باجوڑ و مالاکنڈ کی چھ نشستوں پہ جماعت اسلامی ٹف ٹائم دے سکتی ہے‘ تاہم ان حالات میں بھی سوات‘ دیر اور شانگلہ کی 18 صوبائی نشستوں میں سے زیادہ تر پر پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جیت سکتے ہیں۔ اگر توقع کے مطابق 30کے لگ بھگ آزاد امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچ گئے تو مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پی ٹی آئی پارلیمنٹرین اور آزاد امیدواروں کو ملا کر خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایک طرف وزارتِ اعلیٰ کے لیے پرویز خٹک اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا ہے تو دوسری طرف عوام کسی ایسی شخصیت کو خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ دیکھنے کی خواہش مند ہوں گے جو مغربی بارڈر پہ امنِ عامہ کی دگرگوں صورتحال کو سنبھالنے کے علاوہ یہاں کے اقتصادی مسائل کو سلجھانے کی مہارت رکھتی ہو کیونکہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف کی طرف سے مروجہ سیاسی بندوبست میں ٹی ٹی پی کو گنجائش دینے کی پالیسی نے خیبرپختونخوا پولیس اور سکیورٹی فورسز کیلئے بے شمار مشکلات پیدا کی ہیں۔
پی ٹی آئی اگرچہ کوئی مذہبی نصب العین نہیں رکھتی لیکن وہ ایک ایسا عمرانیاتی تصادم مول لینے پہ تیار ہو گئی جس کی حرارت زندہ سماجی تغیرات کوجلا کر خاک کر سکتی تھی۔ دوسرے پی ٹی آئی کی ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں خیبر پختونخوا کی معیشت بالخصوص صحت و تعلیم کے شعبوں میں پیدا ہونے والے بحران نے اس زرخیز صوبے کو فنا و بقا کے خطِ امتیاز پہ لاکھڑا کیا۔ یہاں تک کہ نگران صوبائی حکومت کو روز مرہ امور چلانے کی خاطر صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں سے پچیس فیصد کٹوتی کرنا پڑی۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا میں کسی مذہبی جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے تو طالبان کے نظریات سے متاثرہ لوگوں کو اقتدار کی منتقلی اس حساس صوبہ میں طالبان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا وسیلہ بنے گی جس سے ڈیورنڈ لائن کے اطراف میں تناؤ بڑھتا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ دورۂ افغانستان کو سفارتی حلقوں نے اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے نئی پیچیدگیوں کا محرک قرار دیا۔ فی الوقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں ایسی متوازن حکومت کیسے قائم ہو گی جو افغان طالبان کے علاوہ ٹی ٹی پی کی پیش دستی کو روکنے کی تزویراتی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں وفاقی اداروں کی معاونت کر سکے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں