"AAC" (space) message & send to 7575

معاشی خود مختاری اور ہمارا قومی رویہ !

فی زمانہ قومی آزادی اورملکی سلامتی کا تصور اقتصادی خودمختاری سے منسلک ہے‘اس کرۂ ارض پہ باوقار قوم بن کے جینے کی خاطر فقط جوہری دفاع کافی نہیں بلکہ اقتصادی ترقی کا وسیع تصور قومی خود مختاری کی عکاسی کرتا ہے۔شاید اسی تناظر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی طاقتوں نے بظاہر جنگ کی تباہ کاریوں کی بدولت اجڑی ہوئی مملکتوں کی بحالی کیلئے عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے قائم کئے‘جو فی الاصل نوزائیدہ قومی ریاستوں کے وسائل کا استحصال اور وہاں کی حکمراں مقتدرہ کو کنٹرول کرنے کا ٹول ثابت ہوئے۔تاہم مجموعی انسانی ارتقا کیلئے معاشی پالیسیوں کی تدوین کے علاوہ انسانوں کی استعداد ِکار بڑھانا زیادہ اہم ہے‘اسی لئے دنیا میں اب صحت مند معاشرے برپا کرنے کی خاطر امانت و دیانت جیسی اخلاقی اقدار کو بھی سرمایہ تسلیم کر لیا گیا۔ہرچند کہ فی کس آمدنی‘ بہتر معیارِ زندگی‘ نیز تعلیم اور غربت کے تعین کو معاشی اونچ نیچ کا اشاریہ سمجھا جاتا ہے لیکن کسی قوم کی ترقی کیلئے اہم اور ضروری شرط بجائے خود انسان کا ذہنی ارتقا ہے۔جن ممالک نے انسانی استعدادِ کار کو بڑھایا‘ وہیں پر دنیا کے سارے وسائل سمٹنے لگے؛ چنانچہ انسانی ترقی کے اشاریہ‘ ایچ ڈی آئی ‘کو 1990ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے حصہ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔اگرچہ تین وسیع شعبوں میں معاشی ترقی کی پیمائش کا ذریعہ فی کس آمدنی‘ صحت اور تعلیم ہے لیکن ایچ ڈی آئی کا پیمانہ مخصوص ممالک کی عالمی پوزیشن میں ہونے والی تبدیلیوں کو جانچتا ہے۔
ہماری مملکت فی الوقت جس قسم کے گمبھیر مسائل سے دوچار ہے اس میں طویل پراکسی جنگوں کے مضمرات‘ بنیادی ڈھانچہ کی فرسودگی‘ گورننس کی کمزوریوں‘مالیاتی نظم و ضبط کا فقدان‘تکنیکی مہارتوں کی کمی اور تہذیبی و ثقافتی اکائیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بیرونی قرضوں میں گھری معیشت کے وبال نے داخلی خودمختاری اور قومی آزادی کو لپیٹ رکھا ہے‘خاص کر نوآبادیاتی نظام کے تحت آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کا وہ سنہرا جال جس میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو پھنسا کر ان کے عوام کا حقِ حاکمیت ‘انسانی سرمایہ اور قدرتی وسائل کا استحصال‘ محلِ نظر ہے۔آج بھی بظاہر آئی ایم ایف پیکیج کا مقصد معیشت کو سہارا دینا‘ قرضوں کو ریگولیٹ کرنا اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے ساختی اصلاحات میں توازن لانا ہے لیکن عملاً آئی ایم ایف پروگرام پیچیدہ ضوابط کا ایسا پنجرا ہے جو قومی وقار‘ سماجی ارتقا‘فیصلہ سازی کے نظام ‘مادی نمو اور فکری آزادیوں کو مقید رکھتا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کی انہی جکڑبندیوں اور بڑی طاقتوں کے عالمی مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہم اپنے داخلی نظام کو استوارکرنے کے فرض کو فراموش کر بیٹھے جس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا ٹیکس کا تناسب جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصد ہے‘ یہ دنیا میں سب سے ہے۔ 220 ملین سے زائد آبادی والے ملک کو ٹیکس کے اتنے کم تناسب کے ساتھ چلانا مشکل ہو گا۔حیرت انگیز طور پہ ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پہ پائے جانے کے باوجود بڑی طاقتوں کے عالمی مفادات‘جو ملک کے اندر جاری کشمکش کو ہمہ وقت سرگرم رکھ کر قومی سلامتی کو نازک بناتے ہیں‘مالیاتی اصلاحات سے اغماض‘کرپشن کو روکنے والے قوانین کی عدم موجودگی اور نوجوان نسل میں تکنیکی استعداد کار کی کمی مملکت کی ترقی‘خوشحالی اور قومی خود مختاری کی راہ میں حائل ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق غیر متوقع سیاسی تبدیلیوں کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل کی خاطر بجلی اور تیل کے نرخ بڑھانے کے علاوہ پراپرٹی پہ 14 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے یہاں رئیل اسٹیٹ بزنس میں لوگوں کا 90 ٹریلین روپیہ پھنس گیا‘ جس کی وجہ سے پراپرٹی کا کاروبار اچانک بیٹھ گیا۔آئی ایم ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر بنیادی پیداواری یونٹس‘ بجلی‘تیل اور پانی کے نرخ بڑھنے سے مجموعی پیدواری عمل سست روی کا شکار ہوا تو مزدور کی زندگی کچھ زیادہ تلخ ہو جانے کی وجہ سے ناقابل بیان سماجی‘اخلاقی اور سیاسی مسائل پیدا ہونے لگے۔پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے محصولات کی وصولی میں کچھ اضافہ اور ٹیکس اصلاحات لانے کی کوشش جاری ہے لیکن قومی معیشت پہ ان اصلاحات کے اثرات محدود ہیں کیونکہ ہماری پانچ ارب ڈالر کی پرچون معیشت کا ایف بی آر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں‘ اس لئے سیلز ٹیکس کا بڑا حصہ غائب ہو جاتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملکی بینکوں میں 85 ملین اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں لیکن ایف بی آر ریکارڈ میں محض دو ملین فائلر ہیں‘ اگر بیوروکریسی چاہتی تو یہ تفاوت کور ہو سکتا تھا لیکن اسی گیپ میں بدعنوانی کا فعال نیٹ ورک منظم ہے‘جس کی راہ روکنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ ہمارے ریاستی ڈھانچہ میں وسیع پیمانہ کی پُرامن اصلاحات کے علاوہ کسٹم اور ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی لیکن گورننس کی کمزوریوں کی وجہ سے ان دو شعبوں میں پائی جانے والی خرابیوں کا تدارک ممکن نہیں ہو رہا بلکہ مجموعی ریاستی ڈھانچہ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا کام ناممکنات سے قریب تر نظر آتا ہے‘جسے مینج کرنے کیلئے جس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے وہ کمزور حکومتی اتھارٹی کے بس میں نہیں ۔
ذرا غور کیجئے کہ ہمارے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائدسرکاری گاڑیاں ہیں جن کی مرمت و بحالی پہ اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ نو ملین لیٹر یومیہ تیل صرف ہوتا ہے‘ دنیا کی تیسری بڑی معیشت برطانیہ کے پاس صرف 45 گاڑیاں ہیں۔ ہماری بیوروکریسی ان ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں پہ ہی اکتفا نہیں کرتی‘ہر صاحبِ اختیار آئے روزنئی گاڑیاں خریدنے کو بیتاب رہتا ہے۔ ملکی نظام میں خرابی کا ایک محرک دہری شہریت کے حامل وہ چالیس ہزار اعلیٰ افسران ہیں جن کے بچے‘ سرمایہ اور مستقبل مغربی ممالک سے وابستہ ہے۔ وہ ہمارے سسٹم میں اصلاحات کے خلاف طاقتور مزاحمت کرکے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بیرونی مداخلت کا ٹول بن جاتے ہیں۔ہماری ریاستی اتھارٹی دہری شہریت رکھنے والوں کو سسٹم سے نکال باہر کرنے کی استعداد کھو بیٹھی ہے‘شاید اسی لیے ابھی تک کسی حکومت کیلئے گورننس میں بہتری‘ نیپرا ایکٹ میں ترامیم‘ محصولات کی ریکوری اور ٹیکس چوری کو کم کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔2019 میں پی ٹی آئی حکومت نے حساس اداروں کو حکم دیا کہ بڑے کاروباری طبقات اور بڑے اکاؤنٹ ہولڈرز کو تلاش کرکے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے؛ چنانچہ خیبرپختونخوا کے بنوں ڈویژن میں میران شاہ کے راستے افغانستان کو اربوں روپے ماہانہ کا تیل فروخت کرنے والے ایک ڈیلر کا ریکارڈ ایف بی آر کو فراہم کیا گیا جو گورنمنٹ کو پھوٹی کوڑی ٹیکس نہیں دیتا تھا‘ لیکن بڑے پیمانے پہ احتجاج پھوٹ پڑنے کے بعد گورنمنٹ ایسے بزنس ٹائیکون کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے پیچھے ہٹ گئی۔ذرائع کے مطابق صرف بنوں ڈویژن میں اسی سطح کے لگ بھگ دو ہزار تاجر ہوں گے جو افغانستان سے کھربوں کی تجارت کرنے کے باوجود گورنمنٹ کو کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔اسی شمالی وزیرستان کے ایک تاجر کے 63 ٹرک (22 ویلرٹرالر) ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘جن میں ہر ایک کی قیمت ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہو گی‘انہی ہیوی وہیکلز میں اربوں روپے ماہوار کا کاروبار ہوتا ہے لیکن ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ والے ایف بی آر کو بڑے ٹرکوں‘ بم پروف اور لگژری گاڑیوں کا ڈیٹا فراہم نہیں کرتے کیونکہ تمام بااختیار اداروں میں وہ افسران براجمان ہیں جو ادارہ جاتی ڈھانچہ کو مربوط رکھنے کی بجائے سرکاری شعبوں کو الگ الگ راجدھانیوں میں منقسم رکھنے میں مفاد تلاش کرتے ہیں۔صرف پشاور کی طورخم ‘میران شاہ کی غلام خان چیک پوسٹ‘ وانا سے منسلک انگور اڈہ اور بلوچستان کے چمن بارڈر پہ یومیہ اربوں روپے کی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے‘ جسے ریگولیٹ کر لیا جائے تو کروڑوں کا یومیہ ریونیو مل سکتا ہے‘ لیکن غیرقانونی تجارت کے بینی فشری شاید ریاستی نظام سے زیادہ طاقتور ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں