قومی سیاست میں چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹری انتشار انگیز رجحان سے شروع ہو کر ایسے عمیق تشدد پہ منتج ہوئی جس نے ریاستی اتھارٹی کی چولیں ہلا ڈالیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خان نے نیا پاکستان بنانے کی مبینہ سکیم کے تحت ملک کو بالترتیب 2014ء کے پُرتشدد دھرنوں‘ 2022ء میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک روکنے کے لیے آئین سے فراڈ اور پھر 9مئی 2023ء کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی صورت میں سسٹم کو تارپیڈو کرنے کیساتھ اپنی سیاست کے افسانے کو بھی انجام تک پہنچا دیا۔ گزشتہ دس برسوں سے وہ ملک میں برپا بیشتر بحرانوں کے محرک نظر آئے اور ان کا مقتدرہ کے ساتھ دہائیوں پہ محیط محبت و نفرت کا رشتہ‘ ایسے بے مقصد تصادم پہ منتج ہوا جس کی تفہیم آسان نہیں۔ سیزر نے کہا تھا ''انسان مختلف طریقے اپنانے کے باوجود ایک جیسے انجام سے دو چار ہوتے ہیں‘‘۔ علی ہذالقیاس‘ ان کی پی ٹی آئی 2011ء تک کوئی قابلِ ذکر جماعت نہ تھی‘ پھر ''نیا پاکستان‘‘ بنانے کے شوق میں کچھ قوتوں نے خوف و ترغیب کے ہتھکنڈے استعمال کرکے الیکٹ ایبلز کو خان کی مہمات میں شامل کرا کے پارٹی کو مضبوط بنایا۔ سیاسی حریفوں نے مقتدرہ پر 2018ء کے عام انتخابات میں خان کے حق میں دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تاہم سیاست کے رومانوی نعروں کے ساتھ ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والے چیئرمین پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کی معاشی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی اور حکومتی نظام میں اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے سمیت بدترین کارکردگی کے باعث بالآخر مقتدرہ نے خود کو ''غیر جانبدار‘‘ قرار دے کر پی ٹی آئی حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دی تو خان بھڑک اٹھا۔ اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور تلخ تجربات کو اپنی سیاسی مہارت کا حصہ بنانے کے بجائے انہوں نے اعلیٰ عسکری قیادت پر غداری کی تہمت لگانے کے علاوہ امریکیوں پہ رجیم چینج کا الزام عائد کرنے سمیت سازشی تھیوری کی گونج میں ایسی ٹامک ٹوئیاں ماریں‘ جو انہیں بتدریج سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلتی چلی گئیں۔ انہوں نے سیاسی شکست کے صدمات سے نمٹنے اور اپنی ناکامیوں کو نقابِ ابہام میں رکھنے کے علاوہ صداقت و امانت کے مہمل اعزازات کے دفاع کیلئے اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات سے بچنے کی خاطر قبل از وقت انتخابات کے لیے عجلت میں ایسے قدم اٹھائے جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔ پہلے قومی اسمبلی توڑنے کی ناکام کوشش کی پھر پارلیمنٹ سے مستقل بائیکاٹ کرکے حکمراں اتحاد کے لیے میدان خالی چھوڑ آئے۔ صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کے موجود بندوبست کو ڈی ریل کرنے کی کوشش میں اپنا سارا سیاسی سرمایہ گنوا دیا۔ آخر کار پارٹی میں داخلی اختلافات کی بدولت پہلے آزاد کشمیر اور اب انہیں گلگت بلتستان حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ لمحۂ موجود تک اپنی طبع زاد حکمت عملی کو موثر بنانے پہ مصر ہیں۔ اس کے برعکس ان کے مدمقابل کہنہ مشق سیاستدانوں نے ذہنی لچک اور اجتماعی مساعی کو بروئے کار لاکر عالمی قوتوں اور طاقت کے مراکز کو قدرے بہتر انداز میں مینج کرکے مملکت اور سیاست پہ بتدریج اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی ذمہ دارانہ سیاسی حیثیت کا درست ادارک کرنے کے بجائے تصادم اور تشدد کی راہوں پہ گام فرسائی کرکے اگست 2014ء کی سیاسی بے خودی میں واپس پلٹنے کی جسارت کر ڈالی۔ اس وقت ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا‘ اس لیے انہیں ہر اتھارٹی سے ٹکرانے اور ہر جماعت کو دھکا دینے کی سہولت فائدہ پہنچاتی تھی لیکن اب سابق وزیراعظم اور اقتدار کی سٹیک ہولڈر جماعت کے لیڈر کے طور پہ انہیں جو خاص مقام حاصل ہے‘ اسے برقرار رکھنے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ گویا وہ اپنے موجودہ مقام اور فرض کو پہچاننے میں ناکام رہے اور بالغ النظر سیاستدان کی طرح میسر عوامی حمایت پہ بھروسا رکھنے کے بجائے سیاسی یتیموں کی طرح آج بھی ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے مقتدرہ سے ڈیل چاہتے ہیں چنانچہ وہ سیاسی عوامل سے منسلک رہنے کے بجائے مقتدرہ سے لڑنے اور مفاہمت کرنے کی کوشش میں بھٹک گئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی جنگ کے دوران دو قوتوں بارے غلط تخمینے لگائے۔ اول ملکی مقتدرہ‘ جسے وہ ملک میں حتمی اور فیصلہ کن قوت سمجھ کر اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ مقتدرہ نے ہمیشہ سیاسی قوتوں سے توانائی حاصل کرکے عالمی سطح پہ سودے بازی کی اپنی پوزیشن بہتر بنائی‘ دوسرا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد لینے کے لیے خان نے جن طریقوں کو آزمایہ وہ بھی بیکار ثابت ہوئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاور پالیٹکس میں مقتدرہ سیاستدانوں سے اور سیاستدان مقتدرہ سے توانائی لیتے ہیں‘ یہی دو طرفہ عمل کشمکش کے باوجود انہیں باہم مربوط رکھتا ہے۔ عوام پہ کنٹرول اور سماج سے مربوط رہنے کے لیے مقتدرہ کو بااثر سیاستدانوں کے علاوہ مقبول سیاسی جماعتوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ذرا غور کیجئے اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی شخصیت اور پی ٹی آئی کی تنظیم نہ ہوتی تو مقتدر حلقے نواز لیگ‘ پیپلز پارٹی یا جے یو آئی (ف) کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے؟ روایتی سیاسی قوتوں کے خلاف کرپشن کے بیانیہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متبادل سیاسی قوت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جسے پی ٹی آئی کے ذریعے نتیجہ خیز بنایا گیا اور اب چیئرمین تحریک انصاف کی شوریدگی کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی پی ڈی ایم کا کندھا درکا تھا بصورت دیگر سیاسی عوامل کو مسخر کرنا ممکن نہ ہوتا۔
خان کے لیے اپنی موجودہ سیاسی حیثیت کو قائم اور پارٹی سرمایہ کو بچانے کے لیے لازم تھا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے ہم آہنگ رہ کر خاموش مزاحمت کے ذریعے اپنے لیے محفوظ راہِ عمل بناتے مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے ثمرات کا درست تخمینہ لگائے بغیر تنہا پرواز کے شوق میں وہ سب کچھ گنوا دیا جو اچھی قسمت نے انہیں مہیا کیا تھا۔ رومی کہتے ہیں ''تمام رحمتوں سے بڑی رحمت اچھی قسمت اور اس کے بعد اچھا مشورہ ہے‘ جو کسی بھی طرح کم اہم نہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے جو اچھی قسمت سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھر ان کی پھانسی کے بعد پی پی پی کو کہیں زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا تھا۔ ان کے پاس سوشل میڈیا کے لامحدود ابلاغی وسائل تھے نہ عالمی برادری کی اس قدرحمایت میسر تھی‘ جتنی خان کو ملی۔ اس وقت ضیا الحق کی آمریت کے تحت پنپنے والی مذہبی فعالیت کو لگام دینے کی خاطر امریکہ کو متبادل سیاسی قوت کی ضرورت پڑی تو بھٹو خاندان کے مغربی دوستوں نے بیگم نصرت بھٹو کو ایم آر ڈی بنانے کا مشورہ دیا۔ بعد میں بحالی ٔجمہوریت کا یہی اتحاد پی پی پی کی سیاسی بقا کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ آمر حکمران کے بے پناہ مظالم کے باوجود ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت نے پیپلزپارٹی کے جمہوری تشخص اور انسانی سرمایہ کو بچانے میں مدد دی۔ 1986ء میں امریکیوں کی مداخلت پہ جب بے نظیر بھٹو کو لاہور میں اتارا گیا تو عوامی قوت کے فقیدالمثال مظاہروں نے آمرانہ ہتھکنڈوں کے تحت قائم سیاسی بندوبست کے تارپود بکھیر کر 1988ء میں ضیاء الحق کو جماعتی بنیادوں پہ عام انتخابات کرانے پہ مجبور کر دیا۔ یہ پیپلزپارٹی تھی جس نے ضیاء الحق کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کرکے مقتدرہ کو سہارا دیا اور مملکت کو انتشار سے بچایا۔ 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے باوجود صرف ڈھائی سالوں میں مقتدر حلقوں نے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو صف آراء کرکے نواز شریف کو تنہا کرکے نکالا تو کوئی ان کی مظلومیت کا دم بھرنے والا نہ تھا لیکن نواز شریف اور بے نظیر نے غلطیوں سے سیکھا اور تجربات کو اپنی سیاسی بصیرت کا حصہ بنایا۔ دونوں نے جلا وطنی میں میثاقِ جمہوریت کرکے مشرف کو دفاعی پوزیشن پہ ڈالنے کے علاوہ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنا لیا۔ اگر میثاقِ جمہوریت نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی اقتدار حاصل کر سکتی نہ مسلم لیگ کو تیسری بار ایوانِ اقتدار تک رسائی ملتی۔ یہ مقبول سیاسی جماعتوں کی اجتماعی مساعی تھی جس نے ایم ایم اے کو بیکار بنا دیا تھا۔
ارسطو نے کہا تھا کہ سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کا آرٹ ہے۔ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد آصف علی زراداری نے جس وسیع النظری کے مطابق سیاسی قوتوں کی تلویث کے ذریعے خود اپنے لیے جگہ بنانے کے علاوہ پیپلزپارٹی کے مستقبل کو بچایا‘ ان کی یہ نادر مساعی سیاست کے طالب علموں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔