کیا ہم دہشت گردی کی لہر کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اور دہشت گرد تنظیمیں، جن پر ضربِ عضب نے کاری ضرب لگائی تھی، ایک مرتبہ پھر فعال ہو رہی ہیں؟ شواہد پریشان کن ضرور ہیں۔ ایک ہی دن میں پشاور اور مہمند میں حملے اور ان سے پہلے چیئرنگ کراس لاہور میں (لفظ چیئرنگ کراس آئوٹ آف فیشن ہو چکا تھا، لیکن اب اس دھماکے نے اسے پھر نمایاں کر دیا ہے)، اور اب سیہون شریف میں حملہ۔ انتہا پسندی کے ہاتھوں زخم اٹھانے والی ہماری ریاست میں کامیابی یا ناکامی کے میزان کو کسی ایک طرف جھکانے کے لیے معمولی سا وزن بھی کافی ہوتا ہے۔ جب کچھ دیر تک کوئی واقعہ پیش نہیں آتا تو ہمارے دلوں امید کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں، اور ہمارے ذہن سے دہشت گردی کی سیاہ رات چھٹنے لگتی ہے۔ اس کے بعد چند ایک واقعات پیش آتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ ایک دو دنوں کے اندر، تو مایوسی کے مہیب سائے گہرے ہونے لگتے ہیں، اور افق پر بربادی رقص کناں دکھائی دیتی ہے۔
یہاں ہمیں چند ایک واضح حقائق کو دیکھنا ہو گا۔ پاکستانی ریاست کو چیلنج کرنے اور قدیم دور کے تصورات کو رائج کرنے پر کمربستہ دہشت گرد تنظیموں پر ضرب ضرور لگی تھی‘ لیکن اُنھوں نے سرحد پار کرکے افغانستان کے پہاڑوں اور وادیوں میں پناہ لے لی تھی۔ اُن کا خاتمہ نہیں ہو سکا تھا۔ تو کیا ان دہشت گرد گروہوں پر دبائو میں کمی واقع ہوئی ہے؟ کیا اُنہیں سانس لینے کا موقع مل گیا ہے؟ اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُنھوں نے خیبر پختونخوا اور پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں حملے کرنے شروع کر دیے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، کیا ضربِ عضب کی کاٹ کند ہو چکی ہے؟ اب نہ تو ہم فوجی آپریشن کے بارے میں کچھ سن رہے ہیں اور نہ ہی پی اے ایف فاٹا میں کہیں بمباری کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک بڑی تعداد میں فوجی دستے وہاں تعینات ہیں، لیکن بندوقیں خاموش دکھائی دیتی ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں حقیقی صورتِ حال سے ناواقف ہوں۔
جہاں تک سویلین حکومت، جسے اس جنگ میں مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر دہشت گردی پھیلانے والے انتہا پسندوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے پاکستان کی سمت درست کرنا تھی، کا تعلق ہے تو اسے پاناما سماعتوں نے اگر معذور نہیں تو بھی بہت حد تک کمزور ضرور کر رکھا ہے۔ کیا اس ماحول میں یہ کسی اور معاملے پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہو سکتی ہے؟ چنانچہ جائے حیرت نہیں کہ سویلینز مختلف تماشے دکھاتے ہوئے، جیسا کہ پاکستان سُپر لیگ کا فائنل لاہور میں کرانے کا عزم، قوم کی توجہ پاناما کیس سے ہٹانے کی کوشش میں ہیں۔ اور یہاں فوجی کمان بھی سویلین قیادت کے سنگ محو ترنم ہے۔ آرمی چیف نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے لیے مکمل حمایت کا عزم کیا ہے۔ تو کیا ہماری عظیم الشان فوج اس دور میں اس سطح تک آ چکی؟ ایک دوسرے درجے کا میچ کرانے کے لیے تمام شہر کو بند کیا جائے گا تو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ طاقت کے اس منفی مظاہرے سے کون متاثر ہو گا؟ باقی دنیا تک صرف یہی تاثر جائے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا اتنا خطرہ ہے کہ ایک میچ کرانے کے لیے فوج کو اس حد تک فعال ہونا پڑتا ہے۔ کیا اس سے ہماری کمزور ی اجاگر نہیں ہو گی؟
کیا اس کی بجائے بہتر نہیں ہو گا کہ انتہا پسندوں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنے محفوظ ٹھکانے رکھتے ہیں، کے خاتمے کے لیے بامقصد اقدامات کیے جائیں؟ لیکن دہشت گردی کے حقیقی خاتمے کے لیے آپریشن حکمران جماعت کے ہوم گرائونڈ، پنجاب کا رخ کرتا دکھائی نہیں دیتا؛ چنانچہ اس مشکل راہ پر چلنے کی بجائے بہتر ہے کہ قوم کو کھیل تماشوں میں لگائے رکھیں تاکہ اُس کی توجہ بٹ سکے۔ لوگ پہلے ہی کہنا شروع ہو گئے ہیںکہ وہ جنرل راحیل شریف کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ اُن کے وقت میں بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آئے تھے‘ لیکن ایک احساس تھا کہ ایسے گروہوںکے خلاف کارروائی جاری ہے، نیز فوجی قیادت متحرک ہاتھوں میں ہے۔ اب پتہ نہیں یہ تاثر درست ہے یا غلط، فوج کی فعالیت میں کمی کا احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
جنرل راحیل شریف کی روانگی کے بعد پی ایم ایل (ن) کی طرف جھکائو رکھنے والے مبصرین کے دھڑوں نے اُن پر تنقید شروع کر دی تاکہ اُن کی ہیرو نما شخصیت کا قد کم کیا جا سکے۔ اس گروہ میں شامل کچھ ناقدین تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ سابق آرمی چیف کی اعلیٰ پروفائل دراصل سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ مہارت کی مرہون منت ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا فوری ٹویٹ کرنے میں اس روئے زمین پر اگر کوئی حریف ہے تو وہ صرف صدر ٹرمپ ہی ہیں۔ کچھ دن پہلے مجھے پشاور سے ایک مہربان کا ایس ایم ایس موصول ہوا جو عوام میں بڑھتے ہوئے اس احساس کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے۔۔۔ ''جنرل راحیل شریف کے بعد کیا دہشت گردی پھر شروع ہو رہی ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے ہم پھر ایک اور 'جنرل کیانی‘ کے رحم و کرم پر ہوں۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ یقینا ان صاحب نے جنرل کیانی کے بارے میں قدرے سخت الفاظ استعمال کر دیے ہیں، لیکن آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔ خدا نہ کرے، لیکن دہشت گردی کے چند ایک مزید واقعات سے جنرل راحیل شریف کی یاد میں مزید شدت آتی جائے گی۔
ناسٹلجیا ماضی کو دھندلا کر خطرناک مفروضوں اور مبہم التباسات کو ٹکسال کرتا ہے۔ اگر نواز شریف اور اُن کے اہلِ خانہ نے واقعات کو نہ سنبھالا، اور اگر اُنھوں نے پاناما کیس کی دلدل سے پائوں باہر نہ نکالا تو خدشہ ہے کہ یہ احساس حتیٰ کہ پنجاب، جو جاگنے میں قدرے تساہل سے کام لیتا ہے، میں بھی گہرا ہوتا جائے گا کہ ملک اور اس کا مستقبل خطرے میں ہیں تاوقتیکہ چوٹی کی نااہل قیادت کا کچھ تدارک کیا جائے۔ اس کی وجہ سے مایوسی کا احساس مزید گہرا ہو گا، اور کچھ یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ اگر ویمر رپبلک کمزور نہ پڑتی تو ہٹلر کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ اگر امریکہ میں ملازمتوں کے مواقع کم ہونے کا بحران پیدا نہ ہوتا، یا امریکی مداخلت کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کا بحران برپا نہ ہوتا اور مہاجرین کا سیلاب یورپ کے کناروں کی طرف بڑھتا دکھائی نہ دیتا تو شاید ٹرمپ بھی صدارتی عہدے پر دکھائی نہ دیتے۔ میں یہ بات دوٹوک انداز میں کہنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ دہشت گردی اور حکمران طبقے کی بدعنوانی سے پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال برپا ہو سکتی ہے، اور یہ احساس تقویت پا سکتا ہے کہ پاکستان کو ایک مضبوط اور بے رحم قیادت کی ضرورت ہے۔
پاناما کی سماعت نے دو باتیں واضح کر دی ہیں؛ (1) حکمران خاندان مسلسل چکما دیتا اور دروغ گوئی سے کام لیتا دکھائی دے رہا ہے، اور (2) اسلام کے اس قلعے میں طاقتور عناصر کا احتساب کرنا مشکل ہے، نیز یہاں مذہب صرف ایک دکھاوے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ہم اس کی اصل روح سے اجتناب کرتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کے بعد حکمران خاندان کے مفادات سے قربت رکھنے والے مبصرین کے کچھ دھڑے گزشتہ تین سال کی تاریخ کو از سرِِ نو تحریر کرنے میں جُت گئے اور اس تصور کو ٹکسال کیا گیا کہ دہشت گردی کی پسپائی محض ایک ادارے کی جانفشانی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس میں سویلین اور ملٹری قیادت، دونوں کی مشترکہ کاوش کا عمل دخل تھا۔ یہ بیانیہ سچائی سے اتنا ہی دور ہے جتنا شمال سے جنوب۔ اگر دہشت گردی کی لہر کا رخ موڑا گیا اور پاکستان نسبتاً ایک محفوظ ملک بن گیا تو اس کی وجہ پاک فوج کی طرف سے دی گئی قربانیاں تھیں، اور اس دوران پی اے ایف کی بے مثال کارکردگی کو مت بھولیں۔ سویلینز تو اس راہ پر قدم بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے، لیکن چار و ناچار اس طرف آنا پڑا جب فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کر دیا۔ اس کے بعد ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔ دھشت گردی کا خطرہ کم ہو گیا تھا، لیکن ختم نہیں۔ کچھ انتہاپسند روپوش ہو گئے تھے، کچھ ڈیونڈر لائن کے دوسری طرف کھسک گئے، جبکہ کچھ نے، جیسا کہ رپورٹس آ رہی ہیں، نے اپنی خدمات داعش کے سپرد کر دی ہیں۔ جب ایک طاقتور کمانڈر منظر سے ہٹ گئے تو ضربِ عضب کی شدت میں کمی آئی اور دہشت گردی کے ناگ پھر سے پھن اٹھانے لگے۔
دہشت گردی اور پاناما سماعت باہم مربوط ہیں، اور اپنے ملک کی سلامتی کے لیے ہمیں اس ربط کو سمجھنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صاف ستھری طاقتور قیادت کی ضرورت ہے؛ تاہم پاناما سماعتیں اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہیں کہ غیر شفاف فضا اور بدعنوانی کی دھند میں لپٹے ماحول سے ایسی قیادت نہیں ابھر سکتی۔