جس چیز کا جنرل صاحب کو احساس ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ضرب ِ عضب میں فوج کی ایئرفورس کے موثر تعاون سے حاصل کی گئی کامیابیوں کا سہرا صرف اور صرف مسلح افواج کے سر ہے ۔ اس میں بدقسمتی سے سویلینزحکومتوں کا کوئی کردار نہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ، لیکن ناقابل ِ تردید حقیقت ہے ۔ سویلینزکو بادل ِ ناخواستہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا پڑا ، لیکن وہ دل سے کبھی بھی اس جنگ کے حق میں نہ تھے ۔ اگر سویلینز کے بس میں ہوتا تو وہ تحریک ِ طالبان پاکستان کے ساتھ لامتناہی، مگر لاحاصل، مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھتے ۔ وہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو ''ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی ‘‘ کہتے رہتے، فاٹا کبھی بھی آزاد نہ ہوتا،اور شمالی وزیرستان میں طالبان کی نام نہاد اسلامی امارت کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ افغانستان کی طرف فرار ہونے کی بجائے ٹی ٹی پی کے جنگجو ڈیونڈر لائن کے اس طرف اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں رہتے اور تمام پاکستان اُن کے حملوں کی زد میں ہوتا۔
اب اگر اس جنگ کے اگلے مرحلے میں مسخ شدہ جہادی تصورات کو حتمی شکست سے دوچار کرنا ہے تو بھی یہ ذمہ داری فوج کو ہی اٹھانی پڑے گی۔ حقیقت پسندی کا سامنا کرنے میں کوئی حرج نہیں، فوج کو اس ضمن میں کسی اور حلقے سے مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ ہاں، پولیس، رینجرز اور ایف سی کا کردار اہم ہے ، لیکن ان کی سمت بھی فوج کو ہی طے کرنی ہوگی ۔ ان اداروں کی فعالیت کو فوج کی کمان اور ولولہ ہی مہمیز دے گا۔ جس طرح کراچی میں دیکھنے میں آیا جہاں آپریشن تو رینجرز نے کیا لیکن ان کی پشت پر فوج موجود تھی ۔ دانشوروں اور سپہ گری کی فطری خوبیاں رکھنے والے فوجیوںنے، جنہوں نے کسی باقاعدہ ملٹری اکیڈیمی میں تربیت نہیں پائی تھی، روس، چین ، ویت نام اور کیوبا کے انقلاب کی قیادت کی ، لیکن بدقسمتی سے پاکستان نہ تو کیوبا ہے ،نہ ویت نام اور نہ ہی کوئی اور انقلابی خطہ اور نہ ہی ایران۔ دراصل اس کے خمیر میں انقلابی روایات شامل ہی نہیں،یہ سیاسی انتہا پسندی کے تصورات سے نابلد ہے ۔
فوج کو اپنی فعالیت کی رہنمائی خود ہی کرنی ہے ، یہ رانا ثنا اﷲ، خواجہ آصف یا چوہدری نثار علی خان یادونوں بڑی جماعتوں کے اہم رہنمائوں سے کسی تعاون کی توقع نہیں کرسکتی ۔ یہ رہنما شوگر ملز لگانے یا دیگر کاروباری امورکی تخم ریزی میں طاق،لیکن جنگ میں قوم کی قیادت ان کے اوصاف میں شامل نہیں۔ اگر آپ قانون کو چکما دیتے ہوئے شوگر ملز کو وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیںتو ہمارے حکمران طبقے سے بڑھ کرمنصوبہ ساز کون ہوگا ، لیکن دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس طویل اور صبر آزما جنگ میں جنرل باجوہ اور فوج کو اپنی صلاحیتوں پر ہی انحصار کرنا ہے ۔ سویلینز کا ضرب ِ عضب میں کیا کردار تھا؟کچھ بھی نہیں، صرف بیان بازی۔ تو مستقبل کے آپریشن میں وہ کیا کردار ادا کریں گے ؟ فوج اور ایئرفورس اپنی مرضی سے جومناسب سمجھیں، کر گزریں، سویلینزکی طرف دیکھنا پانی سے مکھن چھاننے کے مترادف ہوگا۔
جس دوران قوم اپنی فیصلہ کن جنگ لڑرہی ہے ، سولین حکمرانوں کی راہیں قطعی طور پر مختلف ہیں۔ وہ شوگر ملز، سمندر پار اکائونٹس، لندن جائیداد، پاناما کیس کی سماعت اور اسی طرح کے دیگر امور میں مصروف ہیں۔ جب کہیں دہشت گردی کا واقعہ پیش آتاہے تو وہ ایک قلیل وقت کے لیے دہشت گردی کی مخالفت کا موڈ خود پر طاری کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد میٹنگز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔پورے منظر پر پروپیگنڈے کا چلن رائج ، اشتعال کا غلغلہ بلند اور عزم کی برکھا رت کا رنگ گہرا دکھائی دیتا ہے لیکن پھر معمول کے مطابق مطلع صاف ہوجاتا ہے ،اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے ، یہاں تک کہ دہشت گردی کا کوئی اور حملہ نام نہاد سکون کی اس فضا کو برہم کردیتا ہے ۔ موسموں کے تغیر کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ کند ذہن افراد کی قوم ان کی اس فعالیت پر قربان جائے گی؟ نیشنل ایکشن پلان بھی ویسی الف لیلہ ثابت ہوا جتنا کہ سپریم کورٹ میں پیش کردہ مکتوب ِقطری۔ کیا حکومت میں موجود کوئی نیشنل ایکشن پلان کے طے کردہ ضوابط نافذ کرنے میں سنجیدہ ہے؟
کیا تعلیم کی اصلاح یا مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے کی سوچ کسی کے پیش ِ نظر ہے ؟جب ہم سرکاری سکولوں اور کالجوں کی طرف توجہ نہیں دے سکتے ، ان کے ساتھ دوسرے درجے کے اداروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے تو پھر مدرسوں کی طرف توجہ کون دے گا؟ تعلیم یا صحت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ہم اپنے محدود وسائل کو چکاچوند منصوبوں پر محض سیاسی سرمایہ کاری کے لیے ضائع کررہے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میںحکمران جماعت فائدہ اٹھا سکے ۔ تو جب سوچ انتخابی کامیابی سے آگے نہ بڑھے تو تعلیمی نظام کی اصلاح کرنے کا وقت کس کے پاس ہے ؟کیا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ ، جنہوںنے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کرنی تھی، اس کی کسی بامقصد پیش رفت کا جائزہ پیش کرسکتے ہیں؟ عقل حیران ہے کہ وہ ایسی میٹنگز میں بیٹھ کر کیا سوچتے ہوں گے جن میں ایک ہی بات کا اعادہ کیا جاتا ہے ۔ راجن پور کے چھوٹو گینگ سے نمٹنا پنجاب کے شہرت یافتہ آئی جی ، مشتاق سکھیرا کے بس سے باہر تھاتو ہم اُن سے خراسانی اور ٹی ٹی پی کے سخت جان جنگجووں کے خاتمے کی کیا توقع کرسکتے ہیں؟خراسانی جنگجو تو قہقہے لگارہے ہوں گے۔ اُنھوں نے دوخودکش بمبار راہی ٔ ملک ِ عدم کیا کیے ، مملکت ِ خداداد کو چکرا کررکھ دیا۔
پاکستان کے خدوخال پہلے ہی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ سکولوں ، کالجوں ، ہسپتالوں اور سرکاری عمارتوں کی دیواریں بلند ہو چکی ہیں۔ حالیہ حملوں کے بعد حکام نے راولپنڈی کے تمام پارک بند کردیے ۔ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے پاس سب سے موثر حربہ یہی ہے تو پھر ہر چیز بند کر کے بیٹھ جائیں۔ دوسری طرف نام نہاد جہادی اپنا ایجنڈا طے کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی حملہ ہوتا ہے ، سویلینز اس کے رد ِعمل میں کچھ کھیل تماشے دکھاتے ہیں ،کچھ بے معانی بیانات داغے جاتے ہیں اور بے مقصد میٹنگز کا دسترخوان آباد ہوجاتا ہے ۔ ایک عام شہری دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا کسی بھی پیشہ ور سیاست دان سے بہتر تجزیہ کرسکتا ہے ۔ سیاست دان اور مبصرین کے لیے اس جنگ میں فوج کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہے ۔ عام افراد سمجھتے ہیںکہ اس جنگ میں کس نے کیا کردار اد ا کیا ہے ، حقیقی جدوجہد کس کی ہے ، اور وہ سیاسی طبقے کی ''آنیاں جانیاں‘‘ خوب سمجھتے ہیں۔ چکوال کے کسی دیہات کا قبرستان ایسا نہیں ہے جس میں شہید ہونے والے فوجیوں کی قبریں نہ ہوں۔ تو کیا چکوال کے لوگ دیوان خانوں میں بیٹھے گفتار کے غازیوں سے زیادہ اس جنگ کے محرکات اور معروضات کو نہیں سمجھتے ؟
کمانڈروں اور سپاہیوں کو احساس کرنا ہوگا کہ جو بھی کرنا ہے ، اُنہیں اپنے بل بوتے پر ہی کرنا ہے ۔ اُنہیں یہ جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کی دعائیں اُ ن کے ساتھ ہیں، لیکن جن افراد نے اس جنگ کی سیاسی سمت کا تعین کرنا تھا، قومی سطح پر اصلاحات کا عمل آگے بڑھانا تھا اور قوم کو ابہام کا شکار ہونے سے بچانا تھا، وہ زبانی جمع خرچ کرنے کی رسم سے آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ قوم کا جادہ منزل ایک طرف، اُن کی ترجیحات کا قبلہ دوسری طرف ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کا سفید جھوٹ ''ایک صفحے پر ہونا‘‘ ہے ۔ اس پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کردیا کیونکہ اس کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔پانی سر سے گزرتا جارہا تھا، اگر فوج بروقت اقدام نہ کرتی تو قومی خودمختاری ہاتھ سے نکلی جارہی تھی، اور ایسا صرف شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں میں ہی نہیں ہونا تھا۔ اگرچہ ہم حالیہ دنوں دہشت گردحملے دیکھ رہے ہیں لیکن ضرب ِ عضب کی کامیابیوں سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان بہرحال اس سے کہیں زیادہ محفوظ ملک ہے جتنا دوسال پہلے تھا۔ اس پر ہم فوج کے مشکور ہیں۔کمان میں تبدیلی کے بعد آپریشن میں قدرے تعطل دیکھنے میں آیا، اوریہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خراسانی نے اس کا فائدہ اٹھایا۔
سویلین قیادت اسے ایک جزوقتی جنگ سمجھ رہی ہے ۔ اس کی سنجیدگی کو صرف دہشت گردحملے کے بعد ہی ابال آتا ہے ۔ اس کے بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہ ایک کل وقتی، بھرپور جنگ ہے جس میں سستی یا غفلت کی کوئی گنجائش نہیں،اور نہ ہی دشمن کی طرف سے کوئی تعطل ہے ۔ دشمن کے عزائم واضح ، لیکن سویلین حکمران ہواکے گھوڑوں پر سوا ر ہیں۔ضرب ِ عضب کے پہلے مرحلے کی طرح فوج کو اس جنگ کا سنجیدہ مرحلہ بھی خود ہی طے کرنا ہوگا۔
(نوٹ:یہ کالم آپ Dunyanews.tv پر انگریزی میں بھی پڑھ سکتے ہیں)