''نواز شریف ایک نئے پاکستان کے بانی ہیں‘‘۔ یہ کہنا ہے پی ایم ایل (ن) کے وزیر، سعد رفیق کا، خاموشی سے جنہیں کدورت ہے۔ اگر سمندر پار اکائونٹس میں چھپائی گئی دولت کی کہانی ہی حکمران خاندان کے ہر آن بدلتے متضاد بیانات سے مزیّن نئے پاکستان کی تاریخ ہے تو پھر گناہ گاروںکے لیے وہی پرانا پاکستان ہی رہنے دیں۔
پاناما کیس کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی اور دیکھا جا سکتا ہے کہ فاضل جج صاحبان سوچ بچار میں ہیں۔ در اصل تمام تجربہ کار منصفوں کو اپنے طویل جوڈیشل کیریئر کے دوران ہر قسم کی افسانہ طرازی سننے سے واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ بات پورے وثوق سے، شرطیہ طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اُنھوں نے کبھی ایسی الف لیلہ سماعت نہیں کی ہوگی جیسی وزیر ِاعظم اور اُن کے صاحبزادگان کے وکلا کو ازبر ہے۔ پیش کی گئی دستاویزات، فقط قطری مکتوب تھے۔ خدا آپ کا بھلا کرے، سماعتوں کے دوران بنچ، بینک سٹیٹمنٹس اور منی ٹریل وغیرہ پیش کرنے کے لیے کہتا رہا لیکن آفرین ہے وزیر ِاعظم اور اُن کے وکلا کی استقامت پر کہ دبائو برداشت کرلیا لیکن پکڑائی نہ دی۔ چیئرمین نیب، قمر الزمان چوہدری بھی کسی نہ کسی انعام کے حق دار ضرور ہیں، لیکن تعجب کیسا؟ موصوف پنجاب بیوروکریسی میں شریف برادران کے من پسند اور وفادار جانے جاتے ہیں۔ اور پھر منی لانڈرنگ پر محترم اسحاق ڈار کا طویل اعترافی بیان موجود ہے کہ وہ شریف فیملی کی ایما پر کیا کیا کچھ کرتے رہے ، لیکن جب بنچ نے چیئرمین نیب سے پوچھا کہ کیا وہ یہ معاملہ از سر ِنو سپریم کورٹ کے سامنے اٹھاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، جس میں یک رکنی بنچ نے مسٹر ڈار کے اعترافی بیان کے بارے میں کہا تھا کہ اس ثبوت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تو چیئرمین نیب نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا۔ ایک سرکاری افسر سے اور کیا توقع ہوسکتی ہے؟ گویا فاضل جج صاحبان سے کہا جا رہا تھا کہ وہ جو چاہیں کرلیں، یہاں وفاداری بشرط ِاستواری والا معاملہ ہے ۔ تو کہاں کا احتساب اور کہاں کی پوچھ گچھ!
اقتدار میں طویل عرصہ گزارنے والے حکمران خاندان کے بارے میں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اہم عہدوں پر تقرریاں کرنے کے ماہر ہیں۔ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کس شخص کو کس عہدے پر رکھنا ہے، اور اس کی بنیادی شرط ذاتی وفاداری ہوتی ہے۔ نواز شریف صاحب نے بطور وزیر ِاعظم دوسری مدت، جو مشرف کے شب خون کی نذر ہوگئی کے دوران ایک خاندانی وفادار، سیف الرحمن کو احتساب ادارے کا چیف مقرر کیا تھا۔ سیف الرحمن قطر سے دیرینہ اور متاثرکن تعلقات رکھتے ہیں۔ اور اب قمر الزماں چوہدری نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے اپنی تعیناتی کا حق ادا کر دیا ہے۔
پاناما کیس کا کیا فیصلہ ہوگا، یہ تو صرف آسمانی طاقتیں ہی جانتی ہیں، لیکن ان سماعتوں نے پاکستانی سیاست کے تعفن زدہ تالاب کو اظہر من الشمس کرتے ہوئے حکمران طبقوں کے اصل کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ قیام ِ پاکستان، جس کے لیے آگ اور خون کا دریا عبور کیا گیا، کے بعد سے اس کا سب سے بڑا مسئلہ کیا رہا ہے؟ یہ مسئلہ ولولہ ٔ انگیز قیادت کا بحران ہے، اور اس کی وجہ سے وسائل سے بھرپور یہ ملک، جو اپنی تخلیق کے وقت ایشیا کے بہت سے ممالک سے آگے تھا، بدستور زوال کی گھاٹی اترتا رہا ہے۔ موثر قیادت سے تہی داماں ہوتے ہوئے یہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لا سکا۔ ملائیشیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کسی شمار قطار میں نہ تھے۔ خلیجی امارتیں، جن کی خدمت میں ہمارے خوشنما پروں والے تلور ''سرِ من فدائے راہی کہ سوار خواہی آمد‘‘ کی عملی مثال بنے رہتے ہیں (اور مت بھولیں کہ ہمارے دفتر ِخارجہ نے عرب بھائیوں کے لیے تلور کے شکار کی سہولت کو ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ ِمیل قرار دیا تھا) اُس وقت زرد اور خشک صحرا کی وسعتوں میں کہیںکھوئی ہوئی تھیں۔ ان میں سے اکثر ریاستوں کے پا س تیل ہے، لیکن اس صحرائی خطے کی سب سے چکا چوند ریاست، دبئی تیل کی دولت سے مالا مال نہیں، لیکن یہ کاروبار اور قیادت کا حسین امتزاج، انگوٹھی میں نگینے کی مانند ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو عرب بھائیوں کو کراچی کی طرف لانا چاہتے تھے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران تیل کی قیمتیں چار گنا بڑھ جانے کی وجہ سے عربوں کی چاندی ہوگئی تھی۔ تاہم قسمت کو یہ منظور نہ تھا اور پھر 1977 ء کے شب خون نے بھٹو کو اقتدار سے محروم کرکے دقیانوسی سوچ رکھنے والی ایسی آمریت کو ملک پر مسلط کردیا جس کی رجعت پسندانہ پالیسیوں کا رخ افغانستان میں مداخلت کی طرف ہوگیا اور اس نے پاکستان کو اس طرح بدل دیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ یقیناً دبئی بھی ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن یہ سماجی جہت میں ہم سے کئی نوری سال آگے ہے۔ لوگ دبئی میں سرمایہ کاری کرنے اور اچھا وقت گزارنے جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے متمول طبقے کی من پسند منزل دبئی ہی ہے۔ جتنی دولت پاکستانیوں نے وہاں انوسٹ کی یا چھپائی، اس سے ہمارے قرض کا ایک بڑا حصہ ادا ہو سکتا ہے۔ وہاں عرب طرز کے قانون کی حکمرانی ہے، لیکن جمہوریت اور آزاد میڈیا نہیں ہے۔ ہم جمہوریت اور آزاد میڈیا رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی موجود نہیں۔ پاکستانیوں کویہ بوالعجبی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے ہاں قانون سب کے لیے برابر کیوں نہیں؟ یہاں اشرافیہ اس قدر استحقاق یافتہ کیوں ہے؟ اس زمین اور ریاست کے تمام وسائل پر اُن کی جارہ داری کیوں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُن کی زندگی عوام سے بہت مختلف ہے۔ اُن کے بچے بہتر سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اُن کی معمولی سی بیماری کا بھی دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں علاج ہوتا ہے۔ دوسری طرف عوام کو محض خوشنما بیانات اور طلسمی وعدوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتی ہے۔
اب پاناما کیس کی سماعت نے ہر کسی کو معاشرے کی اصل حقیقت سے آگاہ کردیا ہے۔ ہم جان گئے ہیںکہ سیاست اور اقتدار کو عوام کی فلاح سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اُن کے جذباتی نعرے انسانی ذرائع کی حقیقی ترقی کی مشقت اٹھاتے ہیں۔ طاقت کا تعلق دولت سے ہے اور طاقتور خود کو مزید دولت مند اور بااختیار بنا رہے ہیں۔ فاضل عدالت میں ہونے والی اس سماعت نے حکمران طبقے کے لالچ، دوغلے پن، دوہرے معیار، ریاکاری اور ملک کے عام شہری سے توہین آمیز بے اعتنائی برتنے کی پالیسی کو آشکار کر دیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکمران طبقے کا یہ وتیرہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ قیام ِپاکستان سے لے کر ایوب خان کے دور تک ہماری سیاست میں دیگر خامیاں ہوں گی، لیکن بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور دیگر مالیاتی مہارتیں، جن کا ہم آج مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، کا کسی نے نام بھی نہ سنا تھا۔ ایوب خان کے بیٹے، گوہر ایوب نے اپنے سسر، جنرل حبیب اﷲ کے ساتھ مل کر کاروبار کیا تو ملک بھر میں شور مچ گیا کیونکہ یہ ایک غیر معمولی حرکت تھی۔ دوسری طرف آج حکمران خاندان کے پھلتے پھولتے بزنس ہیں، صنعتی سلطنتیں ہیں اور عوامی عہدے رکھتے ہوئے بھی ملک کے صف ِاوّل کے بزنس مین ہیں۔
یہی کافی نہ تھا کہ ہم نے ایک سیاسی خاندان کے دامن پر سرے محل کے دھبے دیکھے، اور ابھی لٹنے والی قوم حیرانی سے ان داغوں کی بہار دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک اور حکمران خاندان سامنے آگیا جس کی آنکھوں میں مے فیئر جائیداد کی روشنی کی چمک تھی۔ ستم یہ کہ سرے محل کے سب سے بڑے ناقد یہی تھے۔ ان کے بوجھ تلے پسنے والی قوم انہیں ووٹ دینے سے باز نہیں آتی۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ یہاں سیاسی چوائس موجود نہیں۔ ہمارے سیاسی اکھاڑے میں اچھے اور برے کے درمیان زور آزمائی نہیں، بلکہ برائی کے تخلیقی ارتقا اور اس کی روایت کے درمیان ہے۔ سو، اگرچہ پاناما سماعت نے عوام کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تعلیم بھی دی ہے، لیکن اب یہ قوم پر ہے کہ کیا وہ اس مہنگی تعلیم سے کچھ سیکھتی بھی ہے یا نہیں۔