ہر چیز ثانوی، اس وقت صرف اور صرف پاناما کیس کے فیصلے کو ہی اہمیت حاصل ہے۔ یقینا اس سے بدعنوانی ختم نہیں ہونے جا رہی، اخلاقیات کے نئے معیار نہیں طے ہوں گے، اور نہ ہی احتساب کا نیا دور شروع ہو گا۔ ہم ایسی بلند آہنگ توقعات سے اجتناب ہی کریں تو بہتر ہے۔ لیکن یہ دیکھنے کے لیے آپ کو پیشہ ور نجومی ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی ''سٹیٹس کو‘‘ کو برہم کرتے ہوئے مستقبل کی قومی سیاست کی سمت کا تعین کر دے گا۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
شریف برادران کے مخالفین کو ایک طرف چھوڑیں، حیران کن بات یہ ہے کہ میڈیا میں موجود ان کے حامی دستے بھی ''بدترین صورتِ حال‘‘ کی بات کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک ایسی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی‘ لیکن جب ان کے سخت جان میڈیا چمپئنز نے ایسے امکانات پر بحث شروع کر دی تو اس سے اُن کی پریشانی کا احساس ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ مدہم پڑتے ہوئے اعتماد سے بھی پی ایم ایل (ن) کی فکر کا اظہار ہونے لگا ہے۔ اس کے میڈیا کے جوشیلے نقیب، جیسا کہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری‘ کو لگتا ہے‘ سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ وقت تو ٹی وی سکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا تھا، اور ٹی وی سکرین پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بڑے مباحثے کا فورم بن چکی ہے۔ لیکن اب ان کی آوازیں کم سنائی دے رہی ہیں۔ ایک اور اشارہ، زوردار بیان داغنے والے وزرا بھی خاموش ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی دلیری کو کیا ہوا؟ آخری مرتبہ اُنہیں اس موضوع پر بولتے ہوئے اس وقت سنا تھا جب اُنھوں نے طعنہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی نواز شریف کی کتابِ زیست کے صفحات نہیں پڑھ سکتا تو یہ اُس کا مسئلہ ہے۔ دلیرانہ تکلم تھا، لیکن اس کے بعد مکمل سکوت۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر اُن جیسے پارٹی کے محافظوں کے لیے بولنے کا کوئی وقت تھا تو وہ اب ہے۔ لیکن سب دم سادھے پڑے ہیں۔
کچھ بکھرے ہوئے شواہد موجود ہیں، آپ اُنہیں یکجا کریں تو احساس ہو گا کہ حکمران جماعت اور نواز شریف فیملی، جو اس طوفان کی زد میں ہے، کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم ادھر اُدھر متحرک اور فیتے کاٹتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ اُنہیں اس معاملے کی فکر نہیں، لیکن سسپنس کے بڑھنے سے پی ایم ایل (ن) کے کیمپ میں خوف کی فضا گہری ہوتی جا رہی ہے، اور ان کی مدہم سرگوشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوفان کو اپنی سمت بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت حکمران خاندان کی مشکلات بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طویل سیاسی اننگز کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب اعلیٰ عدلیہ پر اُن کا بس نہیں چل رہا۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کو متاثر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ خاندان ماضی میں اس کھیل کا ماسٹر تھا لیکن اپنی زندگی کے اہم ترین لمحات میں جیسے قسمت کی دیوی اُن سے روٹھ گئی ہو، وہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں رہے۔ بھاری بھرکم مینڈیٹ کے ساتھ نواز شریف کبھی سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے تھے، لیکن انقلابات ہیں زمانے کے، اب ان کے بس میں صرف آسمان کی طرف دیکھ کر نجات اور پناہ کی دعا کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جج صاحبان اپنا وقت لے رہے ہیں، اور اس سے تجسس کا ایسا ماحول بن رہا ہے کہ جس پر الفریڈ ہچکاک بھی ناز کرتا۔ وہ فیصلے کو جتنا التوا میں ڈالیں گے، پی ایم ایل (ن) کا اعتماد اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔ تاخیر سے یہ تاثر تقویت پائے
گا کہ فیصلہ نواز شریف اور اُن کی فیملی، جن پر پاناما کیس میں منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزامات تھے، کے خلاف ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہوں۔ پاکستانی سیاست کے پاور ہائوس، پنجاب میں پی پی پی بطور ایک سیاسی قوت ختم ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں آصف علی زرداری کے بلند بانگ دعووں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اگلے انتخابات میں یہاں سے سیاسی قوت بن کر ابھریں گے۔ جو سیاسی میدان کبھی پی پی پی کے پاس تھا، اب اُس پر عمران خان کی پی ٹی آئی قدم رکھ چکی ہے۔ اس میدان کو واپس لینے کے لیے نعرہ بازی اور کبھی کبھار بلاول ہائوس میں آمد سے کچھ بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ ہم پی ایم ایل (ن) کو بھی اگر مکمل طور پر بکھرتے نہیں تو سمٹتے ہوئے دیکھیں۔
یہ ایک اہم موڑ ہو گا، تین عشروں کی سیاسی تاریخ پر پردہ گرنا شروع ہو جائے گا۔ خاندانی اور موروثی قیادت رکھنے والی پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) ماضی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ بھٹو کا سیاسی باب ایوب خان دور میں رقم ہوا، جبکہ شریف برادران کی سیاست کا ستارہ جنرل ضیا دور میں چمکا؛ چنانچہ دونوں جماعتیں پرانے نعروں کی نقیب ہیں، اُن کے پاس نئے دور کے لیے کچھ نہیں۔ اب اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے، اگر اس نے اپنے لاتعداد مسائل پر قابو پانا ہے تو اسے نئے تصورات، اور نئی منزلوں کی سمت قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ زرداری کے ہاتھوں پی پی پی اپنے انجام سے دوچار ہوئی، اب شریف برادران کو بھی ایک بلائے ناگہانی کا سامنا ہے، جو کہ پاناما انکشافات ہیں۔ وہ اس وقت اس صدمے کو برداشت کرنے کے لیے مطلق تیار نہ تھے۔ اُنھوں نے اس سے پہلے بہت سے سنگین کیسز کا سامنا کیا، ان پر ایسے ایسے الزامات لگے جو کسی کی نائو بھی ڈبو دیتے، لیکن اُنھوں نے نیکی اور پارسائی کا لبادہ اوڑھے رکھا۔
تاہم اس وقت پاناما کیس، چاہے اس کا فیصلہ جو بھی ہو، نے اس دکھاوے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ جو بھی فیصلہ ہو، اس کیس نے حکومت کو بہت حد تک مفلوج کر دیا ہے۔ پاناما الزامات کے بعد ترکی کے طیب اردوان اور برادر عرب ملک کے شاہی خاندان کے سوا عالمی سٹیج پر نواز شریف کو کون سنجیدگی سے لے گا؟ ملک میں بھی حکمران خاندان کی ساکھ کو شدید زک پہنچی ہے۔ اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے اعترافی بیان، جس کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی رولنگ نے یہ ڈرائونا خواب ختم کر دیا ہے، ایک مرتبہ پھر تمام تر پریشانیوں کے جلو میں سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ کیا اس سے اُن کی بطور فنانس منسٹر ساکھ مجروح نہیں ہوتی؟ اور بطور ایک شخص اُن کا اعتماد متزلزل نہیں ہوتا؟ شریف برادران کے لیے یہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں، ایک بھیانک خواب ہے جس کا دورانیہ ایک رات نہیں، سال بھر پر محیط ہے۔ انکشافات کی ہر تازہ قسط اس کی ہولناکی میں اضافہ کرتی رہی ہے۔
اس کیس نے قطر کا نام بھی قومی لطیفہ سا بنا دیا ہے۔ اب تو لوگ اس بات پر ہنس پڑتے ہیں۔ مریم صفدر کو بطورِ خاص والد، نواز شریف کی جگہ لینے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ ان سماعتوں نے اُن کی سیاسی ساکھ بھی مجروح کر دی ہے۔ اب تک تو شریف برادران اپنا بچائو کرنے اور سیاست میں ایک طویل عرصہ گزارنے میں کامیاب رہے لیکن جس سیاسی فصیل سے مقامی سیاسی طوفان سر ٹکرا کر واپس لوٹتے رہے، اُسے سات سمندر پار سے اٹھنے والی ایک لہر نے ہلا کر رکھ دیا۔
شریف برادران کے مخالفین کو ایک طرف چھوڑیں، حیران کن بات یہ ہے کہ میڈیا میں موجود ان کے حامی دستے بھی ''بدترین صورتِ حال‘‘ کی بات کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک ایسی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی‘ لیکن جب ان کے سخت جان میڈیا چمپئنز نے ایسے امکانات پر بحث شروع کر دی تو اس سے اُن کی پریشانی کا احساس ہوتا ہے۔