ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ؟ خارجہ پالیسی کون چلارہا ہے ؟کیا جنرل باجوہ یا ہمارے پاناما زدہ وزیر ِاعظم؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہو، ایک بات یقینی ہے ‘ پاکستان اپنے علاقائی تعلقات بگاڑ رہا ہے ۔ کیا برطانیہ نے ہمیں بتانا ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ تنائو کم کریں؟ پاک افغان سرحد برطانیہ کے کہنے پر کھولنا کوئی قابل ِ فخر پیش رفت نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بارڈر کو بند ہی نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ ایک غیر دانشمندانہ اور جذبات میں آکر کیا گیا فوری فیصلہ تھا ، کیونکہ دہشت گرد کارروائی کرنے کے لیے ہاتھ میں پاسپورٹ لے کر نہیں آتے ۔اس انتہائی مسام دار بارڈر کو کراس کرنے کے ہزاروں راستے ہیں۔ لیکن چلیں اگر ہم نے احمقانہ فیصلہ کرہی لیا تھاتو چاہیے تھا کہ ہم خود ہی خاموشی سے قدم پیچھے ہٹاکر اسے کھول دیتے ، بجائے اس کے کہ سرحد کھولنے کا مشورہ کسی اور حلقے کی طرف سے آتا۔ پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ سرحد کی بندش سے افغان یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کو نہیں، صرف ہمارے ٹرک ڈرائیوروں اور برآمدکنندگان کو ہی نقصان ہورہا تھا۔
برطانیہ کی افغانستان میں حالیہ مداخلت کو کسی طور کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ برطانوی دستوں نے ہلمند کے گردونواح کے جنوبی علاقوں کو طالبان سے پاک کرنا تھا، لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے اور پھر افغانستان سے چلتے بنے ۔ افغانستان کی صورت ِحال کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امن و امان کی بہتری تو درکنار، حال ہی میں ہلمند کے قریب ایک اہم ضلع سنگین(Sangin) پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ آج افغانستان میں برطانیہ کاکوئی کردار نہیں، لیکن پاکستان اسے اپنے اور افغانستان کے درمیان قیام ِ امن کے سہولت کار جیسی اہمیت دیے بغیر نہ رہ سکا۔
اب ایک نظر ہماری ایران پالیسی پر۔ ٹھیک جس وقت، خاص طورپر ایٹمی پروگرام کی پاداش میں عائد کردہ پابندیاں اٹھنے کے بعد دنیا، یا کم از کم زیادہ تر مغربی ممالک ایران کے ساتھ تعلقات بحال کر رہے تھے، پاکستان نے اس کے ساتھ تعلقات کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ ایرانیوںکو پہلے ہی شک تھا کہ ہماری ہمدردیاں سعودی عرب کے ساتھ ہیں، لیکن عقل کے تمام تقاضو ںکو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان نے جنرل راحیل شریف کو سعودی تعاون سے انتالیس ممالک کے بننے والے نام نہاد فوجی اتحاد کی قیادت کرنے کی اجازت دے کر اس تاثر کو تقویت فراہم کی۔ آج مشرق ِوسطیٰ میں ایران نواز ہونے کا مطلب سعودی مخالف ہونا ہے اور سعودی نواز ہونے کا مطلب ایران مخالف ہونا ہے ۔ اسے سمجھنے کے لیے غیر معمولی ذہانت درکار نہیں لیکن پاکستان کا نہایت معصومیت سے یہ کہنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے متراد ف ہے کہ مذکورہ ملٹری الائنس ایران مخالف نہیں ۔ یہ سن کر ہمارے ایرانی دوست محظوظ نہیں ہوئے ہوں گے؟
افغانستان اور ایران ہمارے قریب ہی واقع ہیں ، لیکن تعلقات بگاڑنے کی ہماری صلاحیت بنگلہ دیش تک بھی جاپہنچی ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی، میرے دوست ایاز صادق نے ڈھاکہ میں ہونے والے ایک پارلیمانی اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھتا ہے ۔ چیئرمین سینٹ، رضاربانی سے کچھ معقولیت کی توقع تھی لیکن وہ بھی جذباتی حب الوطنی کی رو میں بہہ نکلے ۔ یہ بات پاکستان کے ذہن سے کیسے نکلے گی کہ بنگلہ دیش جو بھی کرے ، حسینہ واجد کی حکومت کا پاکستان کے ساتھ جو بھی رویہ ہو، عوامی لیگ کابھارت کی طرف جیسا بھی جھکائو ہو، پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کے ساتھ ناراض ہونا نہیں بنتا۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ اگر بنگلہ دیش ہمارے چہرے پر ایک تھپڑ بھی مارے تو ہمیں منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر دوسرا گال بھی آگے کردیناچاہیے ۔
بنگلہ دیش کے شہریوں نے نہیں، یہ ہم تھے جنہوں نے اُن کے ساتھ ناروا برتائو کیا۔ ہم نے اُن کی خواہشات اور احساسات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُن پر نظریہ ٔ پاکستان کی اپنی تشریح مسلط کرنے کی کوشش کی ، ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک کیا۔ حتیٰ کہ اگر بنگلہ دیش کی طرف سے ہمارے ساتھ زیادتی ہوتو بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کے لیے اپنے بازو کھلے رکھیں ۔یہ بات ہماری عقل میں کب آئے گی؟درحقیقت اگر دفتر ِ خارجہ میں دانائی ہوتی تو یہ پالیسی طے کرلی جاتی کہ ہر نیا پاکستانی وزیر ِ خارجہ سب سے پہلے بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر سے ملاقات کرے ۔ اگر ہمیں اپنی تاریخ یاد ہوتی تو ہم اسے ایک طے شدہ اصول بنا لیتے ۔ میں تو یہاں تک کہوں گا اگر پاکستان میں کبھی عوامی حکومت قائم ہو تو تمام پاکستانی سکولوں میں ہفتے میں ایک دن صبح کا آغاز شعلہ بیان بنگالی شاعر قاضی نذر الاسلام کی کسی نظم سے ہو۔ ایسے ہی جیسے کسی ایک دن سکول کا آغاز اقبال کی لافانی نظم ، ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘سے ہو۔ایک دن بلھے شاہ، شاہ حسین کی شاعری سے اور پھر، شاہ لطیف، رحمان بابا کے کلام اور کسی کشمیر ی شاعری سے ۔ اگر ایسا ہو تو یہ مشق ہمیں اُس سے کہیں بہتر نظریہ پاکستان سکھائے گی جو ہمیں اب بتایا جاتا ہے۔
ہم اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقا ت بگاڑ کر اپنا بھلا نہیں کررہے۔ہمیں ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ اگرچہ افغانستان میں امن قائم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ، لیکن ہمیں افغان بہن بھائیوں کو اپنی بالا دستی کا احساس دلانے سے پرہیز کرناچاہیے ۔ امریکی ہمیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ ہمیں لیکچر بھی دیتے رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔لیکن ہم اس روش پر کبھی ناراض ہونے کی بجائے خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ کچھ ایسی کشادہ ظرفی ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ کیوں نہیں برتتے؟بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے دوران کبھی ایرانیوں یا افغانوں نے ہماری پشت میں خنجر گھونپنے کی کوشش نہیں کی ، اورہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے ،نیز یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جغرافیہ تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ پاکستانی تہران اور کابل کی نسبت لندن اور نیویارک سے زیادہ آشنا ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں دری اور فارسی پڑھائی جانے چاہیے ۔ ہمارے طلبہ کو بنگالی سیکھنی چاہیے جو اُنہیں ہندی پڑھنے اور سمجھنے میں مدد دے گی۔ ہمیں جنوبی ایشیا کا اس سے زیادہ علم ہونا چاہیے جو ہم رکھتے ہیں۔
جہاں تک بھارت کے ساتھ تنائو کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس کے ساتھ مسائل اور اختلافات رکھتے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان اختلافات سے بڑھ کر بھارت کے بارے میں ہمیں بہت سے وہم بھی ہیں ۔ یہ شاید ہمارے منفی تخیلات کا شاخسانہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ارادوں اورعزائم کے بارے میں ہمیشہ بدترین سوچ رکھتے ہیں۔ ا س سے قطع نظر کہ بھارتی کیا چاہتے ہیں، ہماری بھارت کے ساتھ بلا سوچے سمجھے دشمنی ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ ہم ہر فرنٹ پر نہیں لڑسکتے۔ ہم مغربی سرحد پر بھی برسر ِ پیکار ہوں ‘ مشرقی سرحد پر برسرپیکار ہوں اور ایران سے بھی بگاڑ پیدا کریں، یہ کوئی دانشمندی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ ہمیں طاقتور، چوکس اور باخبر رہنا چاہیے ، لیکن ہم خود کو اتنا غیر محفوظ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ہم کوئی پرتگالی گوا( Goa) یا حیدر آباد دکن نہیں کہ بھارتی فورسز آئیں اور ہمیں فتح کرلیں۔ ہم چین یا کسی اورملک کی معاونت کے بغیر بھی اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔ بھارت کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کی ڈاکٹرائن احمقانہ ہے۔ پاکستان کے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ضرور ہیں کہ وہ کسی کو بھی ایسی مہم جوئی سے باز رکھ سکے ۔ ہمیں پر اعتماد رہنا چاہیے ، لیکن اس کے لیے بات بات پر ایٹمی طاقت ہونے کا دعویٰ کرنا کوئی اچھا نہیں لگتا۔
ہمارا اولین مسئلہ بھارت نہیں بلکہ اپنے گھر کو درست کرنا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کرنا اُس وقت مشکل ہوجاتا ہے جب ہم ایسے تنازعات میں الجھے رہتے ہیں جن سے اجتناب بھی کیا جاسکتا ہے، یا جن کی شدت کو صبر اور معاملہ فہمی کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔