چند دن پہلے تک واشنگٹن کی فضائوں میں صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ روابط کی بازگشت ہر چیز پر حاوی دکھائی دیتی تھی کہ وہ پیوٹن کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں، نیز کیا روسیوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی؟ یہ سوالات پوچھے جا رہے تھے۔ ان کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کو ہر طرف سے ہونے والے حملوں کا سامنا تھا‘ لیکن اچانک ہی سارا منظر بدل گیا، اور روس کے ساتھ روابط (اگر وہ فی الحقیقت موجود تھے) میڈیا کے ریڈار سے غائب ہو گئے۔ شام پر کیے جانے والے میزائل حملے نے تمام منظر تبدیل کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لینے والی لبرل آوازیں بیک زبان کہتی سنائی دیں کہ یہ حملے درست سمت اٹھایا گیا قدم تھا۔
اس ضمن میں نیویارک ٹائمز کے نکلولاس کرسٹوف کی مثال قابلِ غور ہے۔ وہ ٹرمپ کے بے لچک اور پُرزور ناقد تھے لیکن شام پر میزائل حملے کے بعد اُن کا اظہاریہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ ''صدر ٹرمپ کے شام پر حملے مشکوک قانونی جواز رکھتے ہیں، ان سے منافقت کی بو آتی ہے، وہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بے اختیار اٹھایا گیا قدم تھے، ان کے سیاسی محرکات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ درست تھے‘‘۔ بات ختم ہو گئی۔ اس سے موجودہ جارحیت پر ''لبرل طبقے‘‘ کے ردِ عمل کا پتہ چلتا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے وقت ضائع کیے بغیر صدر ٹرمپ کو مبارک باد دی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ترکی نے اس کی حمایت میں بیانات دیے۔ سعودی عرب نے عوامی طور پر تو کچھ نہیں کہا لیکن شام پر اس کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سعودی دوست پہلے ہی امریکہ پر زور دے رہے تھے کہ بشارالاسد کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ضرورت ہے، اور وہ اس سلسلے میں صدر اوباما کی تحمل کی پالیسی پر ناخوش بھی تھے۔ اب اُنہیں خوش ہونا چاہیے۔
امیدوار ٹرمپ بیرونی دنیا میں امریکی مداخلت کے خلاف تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سوچ کا زاویہ بدل گیا ہے۔ چونکہ اُنہیں اس الزام کا سامنا تھا کہ وہ پیوٹن کے حوالے سے نرم رویہ اپنائے ہوئے ہیں؛ چنانچہ اس بحث کو دفن کرنے کے لیے اُنھوں ملنے والے موقع کو نہ گنوایا اور شام پر حملہ کر دیا۔ اور اُنہیں اس کا فائدہ بھی ہوا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ عملی دنیا کے آدمی ہیں۔ اس کے برعکس، سابق صدر بارک اوباما کو شام کے حوالے سے کمزور رہنما سمجھا گیا تھا۔
تاہم امریکی رویے میں پائے جانے والے تضادات آسانی سے ختم نہیں ہوں گے۔ چند دن پہلے تک امریکی افسران کہہ رہے تھے کہ اسد کو منصب سے ہٹانا اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں، لیکن میزائل حملے کے بعد دمشق میں حکومت کی تبدیلی کی ضرورت پھر سے محسوس کی جانے لگی ہے۔ امریکی افسران اب بھی یہی کہتے ہیں کہ داعش کو شکست دینا امریکہ کی اوّلین ترجیح ہے۔ میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، جنرل ایچ آر میک ماسٹر کو ٹیلی وژن پر دیکھ رہا تھا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ تو اُنھوں نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا کہ دونوں اہداف کو بیک وقت حاصل کیا جائے گا۔
امریکہ کا ساتھ دینے والی تمام مغربی اقوام نے مشرقِ وسطیٰ کو ناقابلِ تصور افراتفری کا شکار کر دیا۔ عراق کو تباہ کر دیا گیا، لیبیا اب فعال ریاست نہیں رہا، وہاں مختلف مسلح گروہ ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ شام میں مغرب کا ہدف اسد حکومت کی تبدیلی تھا‘لیکن وہ حزب اللہ‘ ایران اور روس کی مدد سے اپنے قدموں پر مضبوطی سے جمے رہے، لیکن اب امریکی حملوں، اور مزید اقدامات کی توقع نے اسد حکومت کے خاتمے کی امید کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مغرب نے کچھ نہیں سیکھا۔ عراق میں پھیلی ہوئی شورش اور شامی خانہ جنگی کی فضا میں داعش جیسے عفریت نے جنم لیا تھا۔ لیبیا کے کچھ حصے داعش کے جنگجوئوں کی محفوظ جنت بن چکے ہیں۔ یورپ کو مہاجرین کے جس بحران کا سامنا ہے، اُس کی وجہ بھی بہت حد تک مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال ہے۔ عراق اور شام کے لاکھوں باشندوں نے اپنی جان بچانے کے اپنے گھر بار چھوڑ کر یورپ کا رخ کیا۔ اب مغربی اقوام شام میں بھی کشمکش کا دائرہ وسیع کرنا چاہتی ہیں۔
اس تمام صورتِ حال کا جس ملک کو فائدہ ہو رہا ہے، وہ اسرائیل ہے۔ اس کے دشمنوں میں سے دو، عراق اور لیبیا تباہ ہو چکے ہیں۔ اب شام بھی پیہم حملوں کی زد میں ہے۔ عراق جنگ کے پیچھے امریکہ میں اسرائیل نواز، نیوکانز کا ہاتھ تھا، اور مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ تشکیل دینے کا اُن کا عزم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شام پر حملے نہ صرف جاری رہیں بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے۔ روسی صدر پیوٹن اور ایرانی اس پیش رفت کی مزاحمت کریں گے۔ حزب اللہ کے لیڈر، حسن نصراللہ جانتے ہیں کہ شامی حکومت کو گرانے کی واحد وجہ اُس زمینی رابطے کو ختم کرنا ہے جس کے ذریعے ایران کی سپلائی حزب اللہ تک پہنچتی ہے۔ اسد کی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے حزب اللہ کے جنگجو جانتے ہیں کہ وہ اسد کی نہیں، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اگر مغربی اقوام کی بات سنیں تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے اُن کے دل شامی عوام کے لیے خون کے آنسو رو رہے ہیں، لیکن ان کا اصل کھیل کچھ اور ہے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے صرف شام ہی نہیں، مشرقِ وسطیٰ کے بڑے حصوں کو بے پناہ خوف اور مصائب کی نذرکر دیا۔ یہاں یہ بات کہنا پڑے گی کہ مسلمان ممالک بھی یہاں مغربی اقوام کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ عرب دنیا کے اہم ممالک کا شامی کشمکش میں براہِ راست کردار ہے۔ اُنھوں نے اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے جہادی دستوں کو مالی اور فوجی مدد فراہم کی۔ ان عرب ممالک کو اسرائیل سے نہیں ایران سے دشمنی ہے۔ وکی لیکس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ نے ایران کو سانپ سے تشبیہ دیتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ سانپ کو مارنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سر کچل دیا جائے۔ عرب حکمرانوں کو ایرانی انقلاب پسند نہیں آیا تھا، اُنہیںخدشہ محسوس ہوا تھا کہ اس کے مضمرات اُن کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اب وہ ڈرتے ہیںکہ ایران ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
ہم ایک خطرناک دنیا میں رہتے ہیں‘ جسے امریکی پشت پناہی سے فروغ پانے والی اس شورش، جو ہمارے خطے سے زیادہ دور نہیں، نے مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ پاکستان کو بھارت کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کا راستہ اپنانا پڑا۔ مشرقِ وسطی کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے وہ کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا۔ اگر عراق کے پاس ایٹمی ڈیٹرنس ہوتا تو کیا اس پر حملہ کیا جاتا؟ اگر قذافی کے اسلحہ خانے میں کوئی جوہری ہتھیار ہوتا تو کیا لیبیا کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا؟ قذافی اور صدام ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن اپنی تمام تر دولت کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکے۔ ایرانی بھی یہ صلاحیت حاصل کرنے کی طرف چل نکلے تھے لیکن عالمی دبائو کے سامنے اُنہیں یہ مقصد ترک کرنا پڑا۔ تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود پوری اسلامی دنیا میں پاکستان ہی ایٹمی صلاحیت رکھنے والی ریاست ہے۔
ایک بات اور، قومی سلامتی کے لیے ایٹمی ہتھیاروں سے بڑھ کر کچھ اور بھی درکار ہے۔ اس کے لیے قومی وسائل اور توانائی کا بہتر انتظام اور مصرف درکار ہے تاکہ قومی سکت کئی ایک غیر ضروری محاذوں پر تقسیم ہو کر کمزور نہ ہو جائے۔ کرنل قذافی نے دوسرے ممالک میں تخریبی سرگرمیوں کی پشت پناہی کرکے اپنا کوئی فائدہ نہیں کیا تھا۔ اس طرح صدام حسین کا اپنے ملک کو ایران کے ساتھ جنگ میں الجھانا کسی طور درست نہ تھا۔ آٹھ سال تک جاری رہنے والی اُس جنگ کے نتیجے میں بے پناہ تباہی اور بربادی ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت جو عرب ریاستیں ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین کے ساتھ کھڑی تھیں، اب وہ اسد حکومت کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دنیائے اسلام کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ دوسروں پر الزام لگانا آسان ہے، لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اپنی مشکلات کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یورپ کی طرف دیکھیں، وہاں آپ کو کسی حد تک اتحاد اور تنظیم، کچھ سوچ اور مقصدیت دکھائی دیتی ہے۔ کیا دنیائے اسلام میں بھی آپ کو اتحاد نامی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے؟